کمسن فرشتہ ریپ کیس کا مرکزی ملزم گرفتار، جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا


اسلام آباد پولیس کے مطابق مئی کے مہینے میں ریپ کے بعد قتل ہونے والی گیارہ سالہ فرشتہ کیس کے ملزم نثار کو گرفتار کر کے جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل راولپنڈی بھیج دیا گیا ہے۔

تھانہ شہزاد ٹاون پولیس اسٹیشن اسلام آباد کے شعبہ تفتیش کے انچارج انسپکٹر انیس اکبر نے بی بی سی کو بتایا کہ گرفتار ملزم نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ انسپکٹر انیس کے مطابق علاقے ہی سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر مزید تحقیق کی گئی تو گرفتار ملزم کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد دستیاب ہوئے ہیں جن کو اس وقت منظر عام پر نہیں لایا جا سکتا۔

انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کو ایسے نا قابل تردید شواہد حاصل ہوئے ہیں جن کی بنیاد پر ملزم کو عدالت سے قرار واقعی سزا دلوائی جاسکے گی۔

انسپکٹر انیس اکبر کے مطابق ملزم کی گرفتاری اور ٹھوس ثبوت ایک چیلنج تھے۔ جس کے لیے اسلام آباد پولیس نے دن رات ایک ٹیم کی طرح کام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فرشتہ کیس کی تفتیش کے لیے پولیس کی دو ٹیموں نے 780 گھروں کی جانچ پڑتال کی، 120 مشکوک افرد کے ڈی این اے ٹیسٹ کروائے گیے، سیکٹروں لوگوں سے پولی گرافک ٹیسٹ اور پوچھ گچھ کی گی تھی۔

یاد رہے کہ کم سن بچی فرشتہ 15 مئی کو اسلام آباد کے علاقے علی پور فراش سے لاپتہ ہوئی تھی اور اس کی لاش 21 مئی کو شہزاد ٹاون کے جنگل کے علاقے سے ملی تھی۔ جس پراس کے اہل خانہ، علاقے کے لوگوں نے تفتیش اور بچی کی تلاش میں سست روی کا الزام عائد کرتے ہوئے اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کرنے کے علاوہ دھرنا بھی دیا تھا۔

ملزم صرف فرشتہ کی ساتھ ہی ریپ میں ملوث نہیں ہے بلکہ وہ اس کے علاوہ بھی کم از کم بارہ دیگر بچیوں کو ریپ کا نشانہ بنا چکا ہے۔ جن میں سے پانچ کے مقدمات اسلام آباد ہی کے مختلف تھانوں میں درج ہیں۔ جبکہ سات واقعات ایسے ہیں جس کی ممکنہ طور پر پولیس کو اطلاع نہیں دی گئی ہے۔

اس وقت ان کیسز کی بھی پولیس ملزم سے تفتیش کررہی ہے۔ ابھی تک فرشتہ کے علاوہ کسی اور زیادتی کا نشانہ بنے والی بچی کے قتل کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

انسپکٹر انیس اکبر کا کہنا تھا کہ ’میرا تاثر ہے کہ یہ شخص جنسی مریض ہے جس کی حرکتوں سے اس کے گھر والے بھی نالاں ہوچکے ہیں اس کا علاج کروانے اور سمجھانے کی کوشش بھی کی گئی تھی اور اب اس کے اہل خانہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ اپنے انجام کو پہنچ جائے۔‘

پولیس ذرائع کے مطابق ملزم اسلام آباد کے علاقے علی پور فراش ہی کا رہائشی اور شادی شدہ ہے۔ اس کی عمر تقریباً پچاس سال ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق ملزم تک پہنچنے میں فرشتہ کے اہل خانہ نے بھی تعاون کیا ہے۔ فرشتہ کے اہل خانہ نے پولیس کو بتایا کہ ایک مرتبہ فرشتہ نے اپنی والدہ کو بتایا تھا کہ گرفتار ملزم اس کو راستے میں تنگ کرتا ہے۔

اس اطلاع پر پولیس نے ملزم پر نظر رکھنا شروع کی تو اس کی مشکوک حرکات سامنے آنا شروع ہو گئیں اور جب اس سے تفتیش کی گئی تو اس کا جھوٹ منٹوں میں پکڑا گیا۔ اس نے خود ہی اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔

فرشتہ کے ساتھ کیا ہوا؟

تفتیش کے عمل میں شامل رہنے والے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ گرفتار ملزم سے تفتیش کے مطابق فرشتہ پندرہ مئی کو جب لاپتہ ہوئی تھی اسے اسی دن ہی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ ملزم نے اس سے پہلے زیادتی کا نشانہ بنانے والی کسی بھی بچی کو قتل نہیں کیا تھا۔

مگر جب وہ فرشتہ کو راستے سے زبردستی اغوا کر کے ویران مقام پر لے گیا جہاں سے اس کی نعش ملی تھی تو اس موقع پر فرشتہ نے ملزم جو کہ اسی علاقے کا رہائشی ہے کو پہچان لیا تھا۔

پولیس افسر کے مطابق ملزم نے بتایا ہے کہ وہ اس سے قبل ایک دو مرتبہ گرفتار ہوا ہے اور وہ خوف اب تک اس کے ذہن پر سوار تھا۔ اس لیے فرشتہ کو زندہ چھوڑنے پر دوبارہ گرفتاری کے خوف نے اس کو زیادتی کے بعد بہیمانہ انداز سے فرشتہ کو قتل کر کے پھینکنے پر اکسایا تھا۔

ایک رات بھی سکون سے نہیں سوئے

فرشتہ کے والد گل نبی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فرشتہ کے بے رحمانہ قتل کے بعد اب تک ہم سب اہل خانہ ایک رات بھی سکون سے نہیں سوئے ہیں۔ اب ملزم کی گرفتاری کے بعد امید ہوئی ہے کہ شاید ہمیں پر سکون نیند آ سکے۔

’کوئی دن اور رات ایسی نہیں ہے جب ہماری نظروں کے سامنے فرشتہ کا معصوم چہرہ نہ آتا ہو۔ عید پر جب باقی بچوں کے لیے نئے جوتے خریدے تھے تو فرشتہ کے لیے بھی چپل اور ایک چادر خریدی تھی۔ جس کو پا کر فرشتہ اتنی خوش تھی کہ جیسے اس کو دنیا کی دولت مل گئی ہو۔‘

گل نبی کا کہنا تھا کہ ’فرشتہ ہمارے گھر کی رونق تھی، وہ نہ صرف پڑھائی میں محنت کرتی تھی بلکہ گھر کے کاموں میں بھی اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی تھی اور میرے سارے کام خود کرنے کی کوشش کرتی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزم نے فرشتہ کو اس کی زندگی میں ہی ہراساں کیا تھا۔ پولیس نے تفتیش کے دوران ہمیں اس کی شناخت کروائی تھی اور یہ وہ ہی ملزم ہے جس کے بارے میں ہم نے پولیس کو ہراساں کرنے کی اطلاع فراہم کی تھی۔

ہم نے خود بھی علاقے کے لوگوں سے معلوم کیا تھا اور گرفتار ملزم کے بارے میں لوگوں کی اچھی رائے سامنے نہیں آرہی ہے اور اس طرح کی باتیں بھی سنتے رہے ہیں کہ مذکورہ ملزم نے اور بھی بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پولیس کی تفتیش سے مطمئن ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پولیس نے مناسب طریقے سے شواہد اکٹھے کیے ہوں گے اور ملزم کیفر کردار تک پہنچ سکے گا۔

واضح رہے کہ لاش ملنے کے بعد ورثا نے پولیس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن اسمبلی محسن داوڑ بھی شریک ہوئے تھے۔

جس پر وزیر اعظم عمران خان نے بھی 11 سالہ بچی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفتیش میں سست روی کا مظاہرہ کرنے پر ڈی ایس پی شہزاد ٹاؤن سرکل عابد حسین کو معطل جبکہ ایس پی رورل سرکل عمر خان کو او ایس ڈی بنا دیا تھا۔

اس کے علاوہ اسلام آباد پولی کلینک کی انتظامیہ نے مقتولہ کے پوسٹمارٹم میں تاخیر کرنے پر میڈیکو لیگل افسر عابد شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

ان پولیس افسران کو معطل اور او ایس ڈی بنانے سے پہلے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بھی 22 مئی کی شب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر فرشتہ کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے قابل مذمت قرار دیا اور کہا کہ نوجوان نسل کو بچانے کے لیے تمام لوگوں کو اکٹھا ہونا ہوگا۔

جبکہ مقتولہ کے والد نے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر سے بھی ملاقات کی تھی اور قومی اسمبلی کے سپیکر نے اُنھیں انصاف کی مکمل فراہی کا یقین دلایا تھا۔

وفاقی حکومت نے مقتولہ فرشتہ کے والدین کے لیے 20 لاکھ روپے مالی امداد کا اعلان کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp