ایچ آئی وی: کیا یہ وائرس صوبہ پنجاب میں بھی پھیل رہا ہے؟


ایڈز

مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی حالیہ خبروں سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ایچ آئی وی وائرس پنجاب میں بھی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ خبر تھی جس کے مطابق فیصل آباد کے ایک ہسپتال میں ایچ آئی وی کے متاثرین کی تعداد 2800 تک پہنچ چکی ہے (فائل فوٹو)

پاکستان حال ہی میں ایچ آئی وی کی وجہ سے عالمی خبروں میں رہا۔ یہ خطرناک وائرس ملک کے جنوبی صوبے سندھ میں پھوٹا جہاں تاحال آٹھ سو سے زائد افراد میں اس کی موجودگی کی تصدیق کی جا چکی ہے۔

ضلع لاڑکانہ کے علاقے رتوڈیرو میں دریافت ہونے والے ایچ آئی وی کے متاثرین میں 90 فیصد سے زائد بچے شامل ہیں۔ یہی غیر معمولی رجحان پاکستان کے ساتھ دنیا کے لیے بھی تشویش کا سبب بنا۔

عالمی ادارہ صحت اور مقامی شعبہ صحت کے حکام تحقیقات کے بعد اس بات پر متفق ہیں کہ وائرس کی اس حالیہ پھوٹ کی وجہ متاثرہ سرنجوں کا استعمال اور وبائی امراض سے بچاؤ کے اقدامات کی عدم موجودگی تھی۔

تاہم تفصیلی تحقیقات اب بھی جاری ہیں۔

اسی دوران ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کے حوالے سے تشویش نے پاکستان کے گنجان آباد صوبے پنجاب کا رُخ کیا۔ کیا ایچ آئی وی وائرس پنجاب میں بھی تیزی سے پھیل رہا تھا؟ مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی حالیہ خبروں سے یہی تاثر ملتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

رتوڈیرو میں ایچ آئی وی وائرس کیسے پھیلا؟

پاکستان میں ایچ آئی وی کی صورتحال تشویش ناک قرار

سرگودھا کا گاؤں ایچ آئی وی ایڈز کی لپیٹ میں کیسے آیا؟

اس کی بنیادی وجہ وہ خبر تھی جس کے مطابق پنجاب کے شہر فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں ایچ آئی وی کے متاثرین کی تعداد 2800 تک پہنچ چکی ہے۔

یہ زیادہ پُرانی بات نہیں ہے کہ پنجاب میں ایچ آئی وی کی بڑی پھوٹ ضلع سرگودھا کے علاقے کوٹ مومن کے ایک گاؤں کوٹ عمرانہ میں گذشتہ برس سامنے آئی تھی جس میں 300 کے قریب افراد میں وائرس کی تصدیق کی گئی تھی۔

تو کیا پنجاب میں ایسی ہی کوئی پھوٹ پھر سے ہوئی ہے یا ایچ آئی وی کے متاثرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے؟

رتو ڈیرو

یہ 2800 افراد کون ہیں اور کہاں سے آئے؟ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے نیشنل پروگرام مینیجر ڈاکٹر عبدالبسیر خان اچکزئی کے مطابق ‘ان میں زیادہ تر لوگ پہلے سے رجسٹرڈ شدہ ہیں اور دیگر اضلاع سے فیصل آباد آئے’ (فائل فوٹو)

فیصل آباد میں ایچ آئی وی کے 2800 متاثرین کہاں سے آئے؟

پاکستان میں قومی اور صوبائی سطح پر ایڈز کنٹرول پروگرام کے حکام کے مطابق ‘فیصل آباد میں ایچ آئی وی وائرس کے پھیلاؤ میں کوئی غیر معمولی تیزی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔’ تاہم انھوں نے اس کی تردید بھی نہیں کی کہ الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں متاثرین کی تعداد 2800 ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ یہ 2800 افراد کون ہیں اور کہاں سے آئے؟ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے نیشنل پروگرام مینیجر ڈاکٹر عبدالبسیر خان اچکزئی کے مطابق ‘ان میں زیادہ تر لوگ پہلے سے رجسٹرڈ شدہ ہیں اور دیگر اضلاع سے فیصل آباد آئے۔’

اس دعوٰی کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ایچ آئی وی کے بہت سے مریض علاج یا ادویات لینے کے لیے خود کو اپنے علاقوں سے باہر دوسرے اضلاع میں رجسٹر کرواتے ہیں۔’

‘معاشرے میں اس بیماری کے ساتھ جڑا جو رسوائی کا خوف ہے اس کی وجہ سے ایسے لوگ جن میں ایچ آئی وائرس کی تصدیق ہو جاتی ہے وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ علاج کے لیے اپنے علاقے سے باہر جائیں۔’

ڈاکٹر اچکزئی کے مطابق کئی افراد خود کو رجسٹر ہی اپنے ضلع سے باہر کرواتے ہیں۔ ‘مثلاً میرے پاس اسلام آباد میں بہت سے ایسے افراد رجسٹرڈ ہیں جن کا تعلق پشاور سے ہے۔’

تاہم سوال یہ ہے کہ حکام کو کیسے معلوم ہوا کہ فیصل آباد کے 2800 افراد میں شامل لوگ دوسرے اضلاع سے آئے ہیں؟

رتو ڈیرو

نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ 65 ہزار لوگ ایچ آئی وی پازیٹو ہیں (فائل فوٹو)

حکام کو کیسے پتا چلتا ہے کہ لوگ اضلاع تبدیل کرتے ہیں؟

پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے ترجمان سجاد حفیظ نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبہ پنجاب میں ایچ آئی وی کے مریضوں کی رجسٹریشن اور ان تک علاج پہنچانے کا الیکٹرانک نظام موجود ہے جو بائیومیٹرکس کے ذریعے چلتا ہے۔

‘اس نظام ہر رجسٹرڈ مریض کے مکمل کوائف موجود ہوتے ہیں۔ اس میں یہ بھی موجود رہتا ہے کہ ان کو دواؤں کا کون سا مجموعہ دیا جا رہا ہے۔’

اس طرح مریض پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے قائم کردہ کسی بھی شہر میں واقع مرکز پر چلے جائیں، وہ باآسانی وہاں سے علاج حاصل کر سکتے ہیں۔ ‘وہ صرف انگوٹھا لگائیں گے اور ان کی تمام تر تفصیلات وہاں کے ڈاکٹر کے سامنے آ جائیں گی۔’

پنجاب کے شہر سرگودھا میں محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر کوئی مریض ضلعی ہسپتال سرگودھا میں رجسٹرڈ ہو لیکن وہ علاج فیصل آباد سے لے رہا ہو تو وہ وہیں ظاہر ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سرگودھا سے کافی زیادہ لوگ فیصل آباد جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دونوں شہروں کے درمیان فاصلہ زیادہ نہیں۔ ‘اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں اب تک یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ بڑا ہسپتال ہو گا تو بہتر ہو، وہاں ڈاکٹر بہتر ہوں گے حالانکہ ہر جگہ علاج ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔’

بائیومیٹرک نظام کے ذریعے حکام کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی مخصوص مرکز پر علاج کے لیے آنے والے افراد کا تعلق کس ضلع یا علاقے ہے۔

متاثرین کہیں سے بھی آئیں، کیا یہ تعداد میں اضافہ نہیں؟

ایچ آئی وی وائرس کی کسی شخص میں تصدیق کسی بھی علاقے میں ہو، سوال یہ ہے کہ کیا یہ صوبے کے مجموعی اعدادوشمار میں اضافہ تصور نہیں کیا جائے گا؟

نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے ساتھ ساتھ پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے حکام کا ماننا ہے کہ صوبہ پنجاب میں ایچ آئی وی کی تشخیص کا تناسب معمول کے مطابق ہے یعنی ‘کہیں کہیں سے اسکریننگ کے دوران اِکا دُکا تصدیق شدہ کیس سامنے آ جاتا ہے۔’

‘یہ تعداد کسی ایک ضلع میں اکٹھا ظاہر ہونے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہاں ایچ آئی وی کی کوئی بڑی پھوٹ ہوئی ہے یا پھر اس علاقے میں متاثرہ افراد کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے جو کہ درست نہیں۔’

پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے ترجمان سجاد حفیظ کے مطابق ‘فیصل آباد کے اپنے رجسٹرڈ ایچ آئی وی کیسز کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ الائیڈ ہسپتال میں نظر آنے والے 2800 متاثرہ افراد میں زیادہ تر وہ ہیں جو قریب کے اضلاع سے آئے مگر ان کے اندراجات فیصل آباد میں رجسٹرڈ تھے۔ ان میں سرگودھا، چنیوٹ، ننکانہ صاحب اور جھنگ وغیرہ شامل ہیں۔

سرگودھا کے علاقے کوٹ عمرانہ جیسی ایچ آئی وی وائرس کی بڑے پیمانے پر تشخیص سنہ 2017 میں چنیوٹ کے ایک علاقے میں بھی دیکھنے میں آئی تھی۔ سجاد حفیظ کے مطابق ‘بہت سے افراد ان علاقوں سے بھی قریب واقع فیصل آباد میں آ کر علاج کروا رہے ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب میں معمول کے مطابق جو کیسز سامنے آ رہے ہیں ان میں زیادہ تر کا تعلق ان چار گروہوں سے ہے جو ایچ آئی وی کے حوالے سے غیر محفوظ تصور کیے جاتے ہیں یعنی زنانہ اور مردانہ سیکس ورکرز، خواجہ سرا اور سرنجوں کا استعمال کرنے والے نشے کے عادی افراد۔

سرنج

2016 میں سروے کیا جس سے معلوم ہوا کہ 165000 افراد میں ایچ آئی وی موجود ہو سکتا ہے (فائل فوٹو)

کیا پاکستان میں ایچ آئی وی صرف ان افراد میں ہے جو رجسٹرڈ ہیں؟

نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 165000 سے زائد افراد میں ایچ آئی وی وائرس موجود ہے۔

صرف 24331 افراد ایسے ہیں جن کو یہ معلوم ہے کہ ان میں ایچ آئی وی موجود ہے اور ان میں سے 17000 سے کچھ زیادہ ایچ آئی وی کا علاج حاصل کر رہے ہیں۔

نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے نیشنل پروگرام مینیجر ڈاکٹر عبدالبسیر اچکزئی کے مطابق ان کے ادارے نے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر سنہ 2016 میں سروے کیا جس سے معلوم ہوا کہ 165000 افراد میں ایچ آئی وی موجود ہو سکتا ہے۔

‘ان میں زیادہ تر وہی چار گروہ شامل ہیں جن میں ایچ آئی وی وائرس کے پھیلنے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔’ ان کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی کے ان ممکنہ متاثرین میں 86000 کے قریب پنجاب جبکہ 65000 سے زیادہ صوبہ سندھ میں موجود ہیں۔

مزید پڑھیے

آٹو ڈس ایبل سرنج سے ایڈز اور ہیپاٹائٹس سے بچاؤ ممکن

’سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ سے ایچ آئی وی کے آثار ختم‘

ایچ آئی وی: ’انقلابی‘ دوا کے تجربات شروع

‘معمول کے مطابق جن افراد میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوتی ہے وہ زیادہ تر انہی افراد میں سے آتے ہیں۔ اسے کانسنٹریٹڈ ایپیڈیمک بھی کہا جاتا ہے۔’

یعنی ایچ آئی وی کے ساتھ موجود لوگوں کے بارے میں حکام کو سروے کے ذریعے پہلے سے معلوم ہے تاہم ان کی تصدیق اس وقت ہوتی ہے جب وہ سامنے آ کر ٹیسٹ کرواتے ہیں۔

ڈاکٹر اچکزئی کے مطابق ایڈز کنٹرول کے حکام قانونی طور پر کسی کو ٹیسٹ کروانے پر اکسا یا مجبور نہیں کر سکتے۔ ایسا رضاکارانہ طور پر ہوتا ہے۔ زیادہ تر افراد ٹیسٹ نہیں کرواتے۔ اس کی وجہ رسوائی کا خوف یا معلومات تک ناقص رسائی ہوتی ہے۔

لیب

ایچ آئی وی سے متاثر افراد کے بارے میں حکام کو سروے کے ذریعے پہلے سے معلوم ہوتا ہے تاہم ان کی تصدیق اس وقت ہوتی ہے جب وہ سامنے آ کر ٹیسٹ کرواتے ہیں (فائل فوٹو)

کیا پنجاب میں ایڈز سے لوگ مر رہے ہیں؟

صوبہ پنجاب میں آخری ایچ آئی وی کی بڑی پھوٹ سرگودھا میں کوٹ عمرانہ میں سامنے آئی تھی۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کوٹ عمرانہ کے متاثرہ افراد میں سے گزشتہ چند روز میں تین سے پانچ افراد کی موت واقع ہو چکی ہے۔

کوٹ عمرانہ کے نمبردار چوہدری اکرم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘ایک کے علاوہ باقی افراد کی موت ایڈز ہی کی وجہ سے ہوئی۔’ تاہم محکمہ صحت کے حکام نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

محکمہ صحت پنجاب کے سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ: ’اس علاقے سے اکا دکا ایچ آئی وی کا کیس سامنے آتا رہتا ہے‘ تاہم انھیں یہ نہیں معلوم کہ ایڈز سے کسی شخص کی موت واقع ہوئی ہو۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ ‘ایچ آئی وی سے متاثرہ شخص کی موت اس کی کو انفیکشن سے ہوتی ہے اور یہ وہ اسٹیج ہوتی ہے جب وہ ایڈز میں بدل جاتی ہے یعنی مریض کے جسم میں قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے۔’

کیا متاثرہ افراد کو دوائیں نہیں مل رہیں؟

محکمہ صحت کے اہلکار کے مطابق ایسا زیادہ تر اس وقت ہوتا ہے جب ایچ آئی وی کا متاثرہ شخص لمبے عرصے تک علاج نہیں لیتا۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کوٹ عمرانہ کے مرنے والے افراد رجسٹرڈ تھے اور یہ کہ ان کی موت علاج نہ ملنے کی وجہ سے ہوئی جو مبینہ طور پر عدم دستیاب تھا۔

تاہم نیشنل ایڈز کنٹرول اور پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے ترجمان سجاد حفیظ کے مطابق ‘کوٹ عمرانہ سے محض 22 کلو میٹر دور کوٹ مومن کے تحصیل ہسپتال میں مرکز قائم کیا گیا ہے جہاں دوائیوں کی وافر مقدار موجود ہے۔’

تاہم ان کا کہنا تھا کہ کوٹ مومن کے چند متاثرہ افراد کوٹ مومن تک بھی نہیں جا رہے تھے۔ ان کا اصرار ہے کہ علاج کا مرکز ان کے گاؤں میں قائم کیا جائے۔ سجاد حفیظ کا کہنا تھا کہ ‘ایسا کرنا عملیاتی وجوہات کی بنا پر ممکن نہیں تھا۔’

تاہم یہ نہیں معلوم کہ متاثرہ افراد اس قدر قریب واقع مرکز تک علاج حاصل کرنے کیوں نہیں جاتے۔ کیا اس کی وجہ اس بیماری کے ساتھ جڑا معاشرے میں رسوائی کا خوف ہو سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp