کیا مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے؟


امریکہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں انڈیا میں اقلیتوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافے کی نشاندہی کی ہے جسے دہلی نے یہ کہہ کر سختی سے مسترد کر دیا کہ امریکہ کو انڈیا کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا حق نہیں۔

لیکن اس کے ایک ہی دن بعد انڈیا کی ریاست جھارکھنڈ میں ایک 24 سالہ مسلم نوجوان تبریز انصاری کی موت ہو جاتی ہے جسے ایک بھیڑ نے چند روز قبل بجلی کے پول سے باندھ کر پیٹا، اسے ‘جے شری رام’ اور ‘جئے ہنومان’ کہنے کے لیے مجبور کیا اور اس کی ویڈیو بھی وائرل کی۔

اس سے چند روز قبل انڈین پارلیمان میں جب نئے مسلم اراکین حلف لے رہے تھے تب بھی ایوان میں ‘جئے شری رام’ کے نعرے گونج رہے تھے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ مائک پومپیو نے جمعے کو 2018 کی مذہبی آزادی کے حوالے سے بین الاقوامی رپورٹ جاری کرتے ہوئے جہاں اویغور مسلمانوں کا ذکر کیا، وہیں روہنگیا مسلمانوں کا بھی ذکر کیا۔

انھوں نے کہا: ‘مجھے چند اویغوروں سے ملنے کا موقع ملا لیکن بدقسمتی سے چین کے زیادہ تر اویغوروں کو اپنی کہانیاں بتانے کا موقع نہیں مل سکا۔ اسی لیے رواں سال کی رپورٹ میں چین کے صوبے سنکیانگ میں مذہبی آزادی کے متعلق ایک مخصوص حصہ ہے۔’

اسی طرح رپورٹ میں مختلف ممالک کے عنوان سے بھی ابواب مقرر کیے گئے ہیں جن میں پاکستان اور انڈیا دونوں پر مختلف ابواب ہیں۔

جہاں پاکستان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت کے مثبت اقدام کے باوجود وہاں میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال مجموعی طور پر منفی ہے، انڈیا کے بارے میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد، تبدیلی مذہب، اقلیت کی قانونی حیثیت اور حکومت کی پالیسی پر بات کی گئی ہے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو سعودی عرب کے بعد تین روزہ دورے پر انڈیا آ رہے ہیں۔

ان کا یہ دورہ جی 20 کے اجلاس سے قبل اہم دورہ ہے کیونکہ یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر جاپان کے شہر اوساکا میں منعقد ہونے والے اجلاس کے موقع پر ملاقات کریں گے۔

’امریکہ ساری دنیا کی رپورٹ پیش کرتا ہے، اپنیت نہیں‘

ایسے میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کینیڈین، امریکن اور لاطینی امریکن سٹڈیز میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر چنتامنی مہاپاترا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کے دورے پر مذہبی آزادی کے معاملے پر بات تو نہیں ہوگی کیونکہ یہ انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے لیکن مجموعی طور پر علاقے میں امن و استحکام، سکیورٹی اور ترقی کے موضوع پر بات ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ ‘ایچ-1 ویزے کے متعلق بات ہوسکتی ہے جس سے سب سے زیادہ انڈیا متاثر ہوتا ہے۔ دوطرفہ تجارت پر بات ہوگی۔ انڈیا نے ایک سال تک امریکہ کی جانب سے نرمی کا انتظار کیا لیکن پھر اس کے بعد امریکہ کی جانب سے تجارت میں مراعات ختم کیے جانے کے بعد اسے بھی یہ اقدام کرنا پڑا۔ بحر الکاہل کے علاقے اور ’ساؤتھ چائنہ سی‘ کی صورت حال میں انڈیا کی پوزیشن پر بھی بات ہوسکتی ہے۔’

ان سے جب سوال کیا گیا کہ آیا انڈیا میں ‘ماب لنچنگ’ (ہجومی تشدد) کی صورت حال تشویش ناک نہیں ہے تو انھوں نے کہا کہ ‘جو واقعات یہاں رونما ہو رہے ہیں وہ افسوس ناک ضرور ہیں لیکن امریکہ اس پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔ وہ ساری دنیا کی رپورٹ تو پیش کرتا ہے لیکن اپنے یہاں کی رپورٹ پیش نہیں کرتا۔ کیا وہاں مسلمان یا دوسری اقلیتوں کے خلاف رویہ نہیں پایا جاتا ہے؟’

انڈیا کی وزارت خارجہ نے اتوار کو اس رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ‘انڈیا کو اپنے سیکولر، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور تکثیریت پر مبنی معاشرے پر فخر ہے جو اپنی رواداری اور سب سے ہم آہنگ ہونے کے اپنے قدیم عہد کا پابند ہے۔’

بہر حال پروفیسر چنتامنی نے میڈیا اور سوشل میڈیا کے کردار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے چند واقعات سماج میں خوف و ہراس میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

اقلیت کے خلاف تشدد میں اضافہ، سرکاری اعداد و شمار کی تصدیق

یہی سوالات جب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اکیڈمی آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں کے محمد سہراب سے کیے گئے تو انھوں نے کہا: ‘امریکہ نے انڈیا میں مذہبی آزادی کے تعلق سے جو رپورٹ جاری کی ہے وہ صداقت پر مبنی ہے کیونکہ انڈیا میں بھی امن پسند اور انصاف پسند عوام کا یہی خیال ہے کہ اقلیت کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ سرکاری اعدادو شمار بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ ریاستی مشینری کی لاپرواہی یا ان کی شہ پر یہ باتیں ہو رہی ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ‘حکومت نے دانستہ طور پر سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو ‘سکیوریٹائز’ کیا ہے۔’

انھوں نے جھارکھنڈ میں ہونے والے تازہ واقعے، جس میں تبریز کی موت ہو گئی ہے، کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ صورت حال پیچیدہ اور تشویشناک اس وقت ہو جاتی ہے جب قاتلوں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے ان کی پزیرائی ہوتی ہے۔

پروفیسر سہراب نے کہا: ‘ہندوستان کی عوام کی خمیر میں اس طرح کی باتیں شامل نہیں ہیں لیکن سیاسی مفادات کے لیے ان کو ہوا دی جا رہی ہے اور یہاں کے سماج میں سمائی رواداری کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ملک میں ایک قسم کا اسلاموفوبیا پیدا کیا گیا ہے اور اسی کے نتیجے میں آئے دن اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔’

جھارکھنڈ میں تبریز کی موت

جھارکھنڈ کے رہائشی تبریز کی چند ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی۔ ان کی اہلیہ سائشتہ پروین نے بی بی سی کے معاون صحافی روی پرکاش کو بتایا ان کے شوہر پر چوری کا الزام لگا کر رات بھر بجلی کے پول سے باندھ کر رکھا گیا۔ انھیں بہت مارا پیٹا گیا اور انھیں ‘جے شری رام’ اور ‘جے ہنومان’ بولنے کے لیے مجبور کیا گيا۔ انھیں صبح کو پولیس کو سونپ دیا گیا۔ پولیس نے مارپیٹ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ان کے شوہر کو جیل بھیج دیا جہاں ان کا انتقال ہو گیا۔

انھوں نے اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘میرے شوہر کا قتل کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں پولیس اور جیل کی انتظامیہ نے لاپرواہی برتی ہے۔’

ریاست جھارکھنڈ میں جن ادھیکار مورچہ کی ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ بی جے پی دور حکومت کے دوران ہجومی تشدد کے واقعات میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں دس مسلمان اور دو قبائلی ہیں۔

https://www.samaa.tv/news/2019/06/indian-muslim-beaten-up-forced-to-chant-ram-slogan-dies/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp