دل بہلانے والے لوگ


اخبارات، رسائل، سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز الغرض جس طرف جایئے وہی اداس کر دینے والی خبریں، تجزیے، ٹاک شوز یوں محسوس ہوتا ہے حالاتِ حاضرہ کی ایک جنگ سی برپا ہے۔

تھکا دینے والے ان روزوشب میں کبھی دل چاہے کہ روح کی بالیدگی اور ذہنی پراگندگی دور کرنے کا کچھ سامان کیا جائے۔ تو چند ہی لفظ ذہن میں آتے ہیں۔ شاعری، موسیقی، ڈرامہ، فلم، فنون لطیفہ سے منسلک یہی جہتیں ہیں جن میں بنی نوع انسان سکون تلاش کرتے ہیں۔ اور سکون ملتا بھی بہت ہے۔

شدید اداسی میں استاد رئیس خان کی غزل
اس کی گلی میں پھر مجھے اک بار لے چلو

یقین جانیے روح سرشاری ہو جاتی ہے سن کر۔ کبھی دل پر بڑا بوجھ ہو تو آ نگن ٹیڑھا، سونا چاندی، ان کہی، قدوسی صاحب کی بیوہ جیسے ڈرامے دیکھ کر سارا ڈپریشن اڑنچھو ہو جاتاہے۔ کبھی سوچا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے۔ دراصل انسان کی تخلیق ہی خالق کا لطف و کرم ہے۔ ہمارے استاد محترم فرماتے ہیں ”زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے انسان کو بس دو ہی جذبوں کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ عشق اور معرفت۔ دل اور دماغ بس دو ہی اعضاء ہیں جسم میں باقی سارے اعضاء ان دونوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں“

لہذا راقم کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ دل ودماغ اپنے آپے میں رہیں تو بہتر ہے۔ مگر جناب بھلا ہو ہمارے لوگوں کا وہ فن و ثقافت میں بھی ادھم بر پا کر دیتے ہیں۔ سیاست میں نہ جانے کیسی کشش ہے کہ ہر میدان کا کھلاڑی اس میں طبع آزمائی کرنا پسند کرتا ہے۔ ویسے ہمارا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ پاکستان کے لوگ سیاسی معاملات میں زیادہ متحرک ہیں دوسرے ملکوں کی بہ نسبت۔ اگرچہ عوام الناس کو موقع کم ملا ہے۔ ہوسکتا ہے یہی وجہ ہو۔ استحصال انسان کے لاشعور میں بھی سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ جاتاہے۔

چاہے عام آدمی ہو یا کوئی جانا پہچانا معزز کسی سے بھی آپ آزادی اظہار کا حق نہیں چھین سکتے۔ اظہار کے طریقوں پر اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر کسی سے اس کا یہ حق چھینا نہیں جا سکتا۔ پچھلے دنوں معروف اداکار شان شاہد کا صلاح الدین ایوبی والا ٹوئٹ نظر سے گزرا۔ قول کی صحت ضعیف تھی۔ مگر ہمیں افسوس لوگوں کے رویے پر ہوا۔ دوستوں کوئی بھی پروفیشن بذاتِ خود غلط نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو کسی کی رائے سے اختلاف ہو تو اس کا اظہار ضرور کریں مگر کوشش کریں تھوڑے مہذب الفاظ کا استعمال کر لیں۔ اپنے الفاظ سے انسانوں کا پوسٹ مارٹم مت کریں۔ بخدا کچھ لوگوں نے تو ایسا رویہ اپنا لیا جیسے کہ اپنے تئیں صلاح الدین ایوبی پر پی ایچ ڈی ہیں۔

ایسی ہی کچھ صورتحال سے آج کل بے چارے جواد احمد کو گزرنا پڑ رہا ہے۔ ارے لوگوں سن تو لو وہ کہہ کیا رہا ہے۔ کیا ہوا جو وہ ایک گلوکار ہے۔ وہ میرا اور آ پ جیسا انسان بھی تو ہے۔ انسان عقل و شعور رکھتے ہیں۔ اور بھی کئی ایسے فنون لطیفہ سے وابستہ افراد ہیں جو ان حالات کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔

سب سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ جو لوگ کسی طرح سے بھی مخالفت کی زد میں آتے ہیں پھر چاہے وہ عوام ہوں یا خواص۔ جوابی تنقید کا نشانہ فرد کہ بجائے اس کے پیشے کو بنایا جاتا ہے۔ گویے، بھا نڈ، میراثی، ڈومنے، ناچے، طوائفیں، دو ٹکے کے ادیب، ٹٹ پونجیے شاعر نہ جانے کیسے کیسے دل شکستہ کر دینے والے القابات سے نوازا جاتاہے۔ دلیل کا جواب دلیل کے بجائے پروفیشن کی تذلیل کر کے دیا جاتاہے۔

کوئی پوچھے کہ بھائی تان سین، سہگل، سارا پٹیالہ موسیقار گھرانہ، روشن آرا، بیگم اختر سے لے کر راحت فتح علی، عاطف اسلم تک سب گویے، میراثی ہی تو ہیں۔ نرتکی بائی سے شیما کرمانی، نگہت چوہدری تک رقاصائیں ہی تو ہیں۔ ترکی کے کسی گمنام قبرستان میں دفن روحی بانو اداکارہ ہی تو تھی۔ صعوبتوں کا سفر طے کرتے بیت المال کے سہارے زندگی کی آخری ہچکی لینے والے ڈاکٹر انور سجاد ڈرامہ نگار ہی تو تھے۔

ان کی نگاہ ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجئے، عمر گزار دی گئی

جیسا نایاب شعر کہنے والا جون ایلیا شاعر ہی تھا آ خر ہم گرے زون میں رہنے کے اتنے عادی کیسے ہو گئے۔ کون سا پیشہ اچھا ہے۔ کون سا برا پہلے اپنے ذہن کو ٹٹولیں اگر آپ فنون لطیفہ کو خراب سمجھتے ہیں تو بالکل اس طرف دھیان ہی نہ دیں۔ جس گاؤں جانا نہیں اس کے کوس کیا گننے لیکن اگر آپ موسیقی سننا، رقص، ڈرامے، فلمیں، تھیٹر دیکھنا پسند کرتے ہیں تو پلیز مؤدبانہ گزارش ہے کہ ان پیشوں کی تذلیل نہ کریں۔ یہ خداداد صلاحتیں ہوتی ہیں۔ ہر شخص یہ کام نہیں کر سکتا۔

رمضان میں تو یہ خبر تک سننے کو ملی کہ فنکاروں کو رمضان ٹرانسمیشن نہیں کرنی چاہییں۔ کیوں بھئی! کون کتنا اچھا مسلمان ہے اس کا فیصلہ اور اللّہ کو کرنے دیں۔ خداکے کاموں میں دخل در معقولات کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ انسان کو اس کے نصیب کے ساتھ دنیا میں بھیجتا ہے۔

اختلاف رائے سب کا حق ہے مگر کسی انسان کی تذلیل کرنے کا کسی دوسرے انسان کو کوئی حق نہیں ہوتا خصوصاً جب وہ انسان فنکار ہو۔ یہ معاشرے کا سب سے حساس طبقہ ہوتاہے کیا۔ اور ان کا کام بھی سب سے مشکل ہوتا ہے۔ انسانوں کو خوش کرنا ان کا دل بہلانا۔ کبھی کوشش کر کے دیکھیں دن میں تارے نظر آ جائیں گے اور بے ساختہ دل سے یہی صدائیں سنائی دیں گی۔
” ٹھوکر لاگی، موری گگری پھوٹی اچھا ہوا میں پنیا بھرن سے چھوٹی کیونکہ بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).