گھنی مونچھیں، پراسرار مسکراہٹ اور کراچی کے قبرستان میں ایک قبر


پھر وہی کچھ ہوا جو وہ چاہتے تھے۔ میں دوراتوں میں لڑکپن پھلانگ کر جہاندیدہ عورت بن گئی۔ میری وجہ سے میرا پورا خاندان مسائل کا شکار ہوتا چلا جارہا تھا۔ ایک دکھ کا سلسلہ تھا جس نے مکڑے کے جالے کی طرح پورے خاندان کو جکڑ لیا تھا۔

میں نے کہا، مجھے رخصت کردیں۔ اب میں خود بھی شاہ صاحب کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہوں۔ مجھے امی نے سمجھایا، باجی کینیڈا سے آگئی تھیں، میرے سامنے رو دیں۔ ابو نے کہا کہ وہ لڑیں گے آخر تک لڑیں گے مگر مجھے پتا تھا کہ کراچی میں، پاکستان میں کچھ بھی نہیں ہوسکے گا۔ یہاں جنگل کا قانون ہے، یہاں عورت ایک کھلونا ہے، یہاں مردوں کی حکومت ہے اور مرد بھی وہ جن کے پاس اقتدار ہے، دولت ہے، جو قسمتوں کے مالک ہیں، جو غریبوں کے اَن داتا ہیں۔ فوج، پولیس، وکیل، جج، عدالت تومحض نام ہیں ان کٹھ پتلیوں کا جو اَن داتا کی مرضی سے سب کچھ کرتے ہیں، چلاتے ہیں اور چلاتے رہیں گے۔

میری رخصتی ہوگئی سادگی کے ساتھ۔ میں ایک گھر پہنچ گئی جس کے اندر نوکر تھے، خادمائیں تھیں، ڈرائیور اور کاروں کا انبار تھا، دولت کی فراوانی تھی۔ میں جوچاہوں کرسکتی تھی، جس طرح سے چاہوں رہ سکتی تھی، میں صرف شازیہ نہیں تھی۔ شاہ صاحب کی قانونی اور سب سے زیادہ پیاری بیوی تھی۔

دو ماہ کے بعد ہی ابو پر دل کا دورہ پڑا اور وہ مر گئے۔ امی کو باجی کینیڈا لے گئیں توپھر وہ واپس نہیں آئیں۔ بھیا بھی لندن چلے گئے۔ شاہ صاحب کے نہ چاہنے کے باوجود ہمارا خاندان برباد ہوگیا، مگر ان کوان کی پسند کی وفادار تیسری بیوی مل گئی تھی۔ ایک مینا کی طرح قید۔ چاندی کے جنگلے میں، سونے کے تالوں کے پیچھے۔ میں اس قابل بھی نہیں تھی کہ کسی سے شکوہ کرتی۔ زندگی کو قبول کرلیا تھا میں نے۔

میں نے شاہ صاحب کے لیے تین لڑکیاں پیدا کیں۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ جنسی تعلقات میں عورت کا کیا کردار ہوتا ہے؟ بچوں کے پیدا کرنے میں اس کی کیا مرضی ہوتی ہے؟ مجھے تو یہی پتا تھا کہ مرد کی مرضی سے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں فیصلہ کرلیتے ہیں۔ عورت کے لیے چاہے وہ ڈیفنس میں رہنے والی شاہ صاحب کی بیوی شازیہ ہو یا اورنگی میں رہنے والی عمر پنکچر بنانے والی کی بیوی رضیہ ہو۔ مجھے یہ بھی پتا تھا کہ میں شاہ صاحب کی قانونی نکاح شدہ بیوی ہوں جنہیں مجھ سے بہت پیار ہے۔

جنہوں نے مجھے اس لیے حاصل کیا ہے کہ میرے ساتھ سوئیں اور جوکچھ بھی کرسکتے ہیں کریں۔ یہ حق انہوں نے میری مرضی سے حاصل کیا ہے۔ میرے دستخط موجود ہیں نکاح نامے کے چیتھڑوں پہ اور اب میں ان کی عزت ہوں جس کے تحفظ کا پورا استحقاق ہے انہیں۔ مجھے اپنے حمل سے بھی خوشی نہیں ہوتی تھی۔ مجھے صرف خوف ہوتا تھا کہ مجھے کوئی لڑکا نہ ہو جائے کوئی بیٹا نہ پیدا ہو۔ تینوں بار حمل کے دوران مجھے خواب میں ایک ننھا سا لڑکا کلف والے سفید شلوار قمیض میں ملبوس اپنے چہرے پر گھنی گھنی کالی کالی مونچھوں اور گہری دھنسی ہوئی آنکھوں سمیت نظر آتا تھا اور اس سے بھی زیادہ عجیب ہوتی تھی اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی پراسرار مسکراہٹ۔

مجھے لگتا تھا جیسے وہ آ رہا ہے میرا بیٹا مجھے ہی پامال کرنے۔ میرا دل کرتا کہ میں ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھوں سے لمبی سی آنول نال چھین کر اپنے گلے کا پھندا بنالوں۔ ماں بن کر ایسے بچے کو جنم دینے سے اچھا ہے کہ مائیں خودکشی کرلیں مگرمیری آنکھ کھل جاتی تھی بار بار۔ اس کے گول گول موٹے سے چہرے پہ مونچھوں کے ساتھ وہی زہریلی مسکراہٹ ہوتی تھی۔ وہ میری کوکھ کی دیواروں کو زور زور سے پیٹتا رہتا تھا۔

شادی کے آٹھ سالوں میں صرف تین بار ہی مجھے حقیقی خوشی ہوئی، جب بھی مجھے پتا لگا کہ میں نے بیٹی کو جنم دیا ہے، بیٹے کونہیں۔ میں چوم چوم لیتی تھی اپنی بیٹیوں کے چہرے کو۔ خوش ہوجاتی یہ دیکھ کر کہ میں اس دنیا میں اپنے شوہر جیسا کوئی اور لے کر نہیں آئی ہوں۔ میری وجہ سے کسی کی خوشیاں پامال نہیں ہوں گی۔ کسی کا گھربرباد نہیں ہوگا۔ میں سوچتی کہ ایسے بیٹوں کا گلا مائیں گھونٹ کیوں نہیں دیتی تھی۔ کوکھ کا یہ گناہ پروان ہی کیوں چڑھتا ہے۔ ایسی زندگی کا عذاب تو قبر کے عذاب سے بھی برا ہے۔

پھر نجانے کیا ہوا کہ شاہ صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ مجھے بچوں کے ساتھ لندن دکھائیں گے۔ گھمائیں گے، ہم سب کے پاسپورٹ بنے اور اس دن کارساز پر ایئرفورس کے بیس کمانڈر کے گھر کے سامنے کسی نے ہمیں روکا بھی نہیں۔ ایک بار پھر میری زندگی میں سب کچھ بہت تیزی کے ساتھ ہوا تھا۔

لندن میں شاہ صاحب کے کئی اپارٹمنٹ تھے اور بے شمار دوست۔ وہاں ان کا نہ کوئی ہاری تھا نہ کوئی مرید مگر دولت کی طاقت نے وہ سب کچھ خریدا ہوا تھا جن کی انہیں ضرورت تھی۔ میں سوچتی کہ شاہ صاحب اور شاہ صاحب جیسے سارے پیر، وڈیرے، سردار، چودھری، خان، تمن دار، نواب دن ہفتے مہینے سالہا سال لندن میں یورپ میں گزارتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ معمولی سے معمولی انسان بھی کسی کا غلام نہیں زندگی کتنی حسین ہے وہاں۔ آزاد لوگ، آزادی اور وقار کے ساتھ۔ آخر یہ لوگ کیوں نہیں سوچتے کہ اس آزادی کے حق دار ان کے ہاری بھی ہیں، کسان بھی ہیں، وہ عورتیں بھی ہیں جو کھیتوں میں کام کرتی ہیں، جو شہروں میں محنت کرتی ہیں، جو خیابانِ غازی اورخیابانِ محافظ کے موڑ پہ ایکسیڈنٹ کر بیٹھتی ہیں۔ یہ سوچ تھی صرف سوچ اورسوچوں کا کیا ہے۔

بیکر اسٹریٹ کے ایک اپارٹمنٹ میں ہم لوگ جا کر رکے اور دوسرے دن ہی جب شاہ صاحب اپنے کسی آدمی کے ساتھ کہیں گئے، میں اس اپارٹمنٹ سے پہلی دفعہ اپنی مرضی سے رخصت ہوگئی۔ اپنے تینوں بچوں کے ساتھ۔ یہ سب کچھ اتنا آسانی سے ہوسکتا ہے میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔

اپارٹمنٹ کے سامنے سے ہی میں نے ٹیکسی لی تھی اوراپنے چھوٹے بھائی کے دیے ہوئے پتے پر کورائی ڈن کے اس مکان میں پہنچ گئی جہاں وہ رہتا تھا۔

وہ گھر پر نہیں تھا مگر اس کے پڑوس میں انڈیا کا ایک خاندان رہتا تھا۔ انہوں نے میری مدد کی۔ ان کے گھر سے ہی میں نے اسے فون کیا اور وہ فوراً ہی پہنچ گیا تھا۔ اس کے گلے لگ کر مجھے لگا میں آزاد ہوگئی ہوں۔ دور پاکستان میں کراچی کے ایک قبرستان میں میرے ابو کی قبر پہ کسی بہت بڑے گھنے درخت نے سایہ کردیا ہے۔

میں نے حکومت برطانیہ سے پناہ کی درخواست کی اور مجھے پناہ بھی مل گئی۔ شاہ صاحب نے بہت کوشش کی تھی کہ مجھ سے ملیں۔ جنگل کے قانون میں تو یہ ممکن تھا مگر لندن کے قانون میں ناممکن۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس بھری بھری مونچھوں والا وہ شخص جس کی آنکھیں تیر کی طرح چبھتی تھیں، اب میرا کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ کراچی کے قبرستان میں صرف میرے باپ کی قبر ہی کھود سکتا تھا وہ۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4