کپتان اگلا الیکشن آج جیت چکا ہے


غریب کورہ پیدا شوے سیاست بہ کئے۔ غریب کے گھر پیدا ہو گئے ہو اب سیاست کرنا۔ یہ ہمارے ایک چارسدے وال دوست کی سنائی کہاوت ہے۔ ایک عام بندہ ہوتے ہوئے وہ حیران کن سیاسی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ اپنا الیکشن بنانے اور جیتنے کے لئے ناظم کونسلر قسم کے لوگ اسے ساتھ ملاتے ہیں۔ اس سے پوچھا کہ تم نے سیاست کیسے سیکھی۔ اس کا کہنا تھا جب وہ پیدا ہوا تو اس کے کان میں اذان کے بعد دادا نے یہی بولا تھا۔

غریب کا بچہ تھا خانوں کی لڑائی میں مارا جاتا اگر سیاست نہ سیکھتا۔

جو سیاست چارسدہ مردان کا عام بندہ جانتا ہے۔ جو سیاست سندھ کے ایک عام سے وڈیرے کو آتی ہے۔ جو سیاست بلوچستان میں سردار تو چھوڑیں، ٹکری کو آتی ہے۔ جو سیاست کسی کونسلر کو آتی ہے۔ جو سیاست میونسپل کارپوریشن کو کور کرنے والا رپوٹر جانتا ہے۔ کپتان کو اس کی الف ب کا نہیں پتہ۔ پارلیمانی رپورٹنگ کرنے والے یا سیاسی ڈائریاں لکھنے والے تو بہت گرو لوگ ہوتے ہیں۔

اسی چارسدہ میں اے این پی زیادہ تر الیکشن جیت جاتی ہے۔ اے این پی کی اس جیت کے پیچھے ان کی سپورٹ سے بھی زیادہ سیاست ہوتی ہے۔ اے این پی کی بجائے پی پی چارسدہ کی اہم ترین سیاسی قوت ہے۔ بس اک چھوٹا سا اگر ہے کہ پی پی نے کہیں اپنی ٹرم گزار کر لوگوں اوازار نہ کر رکھا ہو۔ سیاسی تعلق ذاتی دوستی نبھائی جاتی ہے۔ اے این پی کے امیدوار جو اکثر اسفندیار ولی ہوتے ہیں جیت جایا کرتے ہیں۔ ان کے خلاف مضبوط امیدوار ہی نہیں اتارا جاتا۔

کسی کو اگر یاد ہو تو بتائے کہ نوازشریف کے خلاف کبھی کوئی اچھا جیت سکنے والا امیدوار الیکشن لڑنے نکلا ہو۔ نام لے لے کر بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جب امیدوار نے اپنے مخالف لڑنے والا اپنی مرضی سے منتخب کرایا۔ اپنے تعلقات استعمال کئے ترلا واسطہ دیا اور ایک کمزور امیدوار ہرانے کو حاصل کیا۔

اکتوبر دو ہزار گیارہ کے پی ٹی آئی کے جلسے نے مسلم لیگ نون کے خطرے کی ساری گھنٹیاں بجا دی تھیں۔ اس کے بعد مسلم لیگ کے لیڈر الیکشن جیت کر ہی چین سے سوئے۔ انہوں نے دن رات سیاسی کام کیا۔ امیدوار اکٹھے کئے بڑی برادریوں کو ساتھ ملایا۔ ہر ضلع میں متحارب خاندانوں کو عہدوں کی تقسیم پر متفق کیا۔ پی پی کے مقابل سندھ میں بیس جماعتی اتحاد بنا کر اسے یتیم چھوڑ دیا۔ صرف اس لئے کہ پنجاب جیتا جا سکے اس کے بل پر وفاقی حکومت بنائی جا سکے۔

نوازشریف نے جیسے تب محسوس کر لیا تھا بروقت سرگرم ہو گئے تھے۔ ویسے ہی آج وہ ایک بار پھر الیکشن سے بیس بائیس مہینے پہلے سمجھ گئے ہیں۔ وہ جان گئے ہیں کہ پنجاب میں ووٹر اکتا چکا ہے۔ شریفوں کی حکومت سے بھی شہباز شریف کی ہلتی انگلیوں سے چلتی پنجاب سرکار سے بھی۔ نوازشریف جس ٹریڈ روٹ اس سے منسلک بڑے منصوبوں پر انحصار کئے بیٹھے تھے۔ وہ انہیں مطلوبہ ووٹ دلواتے دکھائی نہیں دے رہے۔

نوازشریف کے لئے ایک ڈراؤنا خواب اور بھی ہے۔ اس بار جوڑ توڑ برادریاں پہلے کی طرح موثر دکھائی نہیں دے رہیں۔ ہر ہر حلقے میں نون لیگ کا مخالف ووٹ اکثریت میں پہلے ہی موجود تھا۔ اس بار یہ بلاک کی صورت میں اس کے خلاف پڑتا دکھائی بھی دے رہا ہے۔ حال ہی میں ہونے والے ضمنی الیکشن بھی یہی اشارہ کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سیاسی طور پر نکمے امیدوار تھے۔ دونوں نے حیران کن ووٹ لئے وہ بھی تب جب روایتی جوڑ توڑ میں ںون لیگ ان سے بہت آگے تھی۔ نون لیگ نے دونوں حلقوں میں تمام بااثر دھڑوں کو ساتھ ملا رکھا تھا۔

یہ الیکشن تو بس ایک اشارہ ہیں۔ نوازشریف کا پنجاب بدل رہا ہے۔ وہ سب لوگ جو سیاست سے متعلق ہیں وہ کئی ہفتوں سے یہ بتانے لگ گئے ہیں۔ ان بتانے والوں کا تعلق مختلف شعبوں سے ہے۔ بیٹ رپورٹر، سیاسی کارکن، سیاست کو فالو کرنے والے اور شہباز شریف کی پولیس یہی کچھ بتا رہے ہیں۔

مسلم لیگ کو ایسے میں کیا کرنا ہے یہ وہ جانیں۔ اپنا کام انہیں آتا ہے۔ نوازشریف صورت حال سمجھ رہے ہیں۔ تبھی تو انہوں نے بھر میں کئی درجن ہسپتال تعمیر کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

سوال تو یہ ہے کہ کیا کپتان کو معلوم ہے۔ کہ آج کی سچویشن اگر برقرار رہتی ہے تو وہ اگلا الیکشن جیت چکا ہے۔ مسلم لیگ نون صرف اتنا چاہے گی ۔ کپتان روڈ پر رہے ٹی وی پر دکھائ دیتا رہے۔ عجیب الخقت قسم کے سیاسی فیصلے کرتا رہے۔ دھوپ بارش میں تحریک چلانے کو نکلتا رہے۔ لوگوں کو اتنا اوازار کرے کہ ووٹروں میں ایک موثر طبقہ اسے آپشن سمجھنا چھوڑ دے۔ باقی کام مسلم لیگ نون چوھدری نثار سے لے گی ۔ چوھدری نثار پی پی کو جب بری طرح اپنے بیانات سے رگڑیں گے ۔ اپنی وزارت کو ان کے خلاف استعمال کریں گے۔ اس مری مکی پارٹی میں کچھ جان تو پڑے گی ہی۔ کم از کم ٹی وی پر وہ کپتان کو دئیے جانے والے وقت میں ایک بڑا شئیر لے مرے گی۔

کپتان کو کچھ بھی نہیں کرنا بس وہ اپنے برگر بچوں کو اتنا نہ نچائے کہ الیکشن تک وہ تھک ٹٹ جائیں۔ اس سے بھی زیادہ ضروری صرف ایک کام ہے کہ کوئی کسی بھی طرح کپتان کو ایک شخص سے بچا لے۔ یہ ایک شخص کپتان کی سیاست تباہ کر دے گا۔ یہ ایک شخص کوئی اور نہیں، کپتان خود ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments