اپنے زندہ مرسی کی خبر لیں


پچھلے دنوں مصر کے پہلے منتخب صدر کو ایک غاصب آمر نے جیل میں علاج معالجے کی سہولیات سے محروم رکھ کے بے دردی سے قتل کر دیا۔ وہ مرد آہن گذشتہ چھ سال سے اپنے ہی فاتح آمر جنرل کی قید میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا اور نہایت اولوالعزمی، پامردی اور جگر کاوی سے آمرانہ مظالم کا سامنا کر رہا تھا۔ آپ محمد مرسی کے طرز حکمرانی سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ ان کی کچھ پالیسیوں پر بھی تنقید کر سکتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بھی نکتہ چینی کی جاسکتی ہے مگر جس طرح مصر کے آرمی چیف فتح السیسی نے امریکہ اور اس کے حواریوں کی آشیر باد سے مصر کی منتخب حکومت پر شب خون مار کر منتخب صدر کے ساتھ انسانیت سوز اور سفاک سلوک روا رکھا اور آخر کار اسے بے دردی سے قتل کر دیا، کوئئی ذی شعور اور درد دل رکھنے والا انسان اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ پاکستانی وزیر اعظم کو تو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ اس بیہمانہ قتل پر مصر کی آمرانہ حکومت کی رسمی سی مذمت ہی کر سکیی۔ حمیت نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے۔

دو روز قبل محترمہ مریم نواز نے اپنی دبنگ اور زوردار پریس کانفرنس میں بت گروں اور ان کے حالی موالیوں کو نہایت دو ٹوک انداز میں خبر دار کیا کہ نہ یہ مصر ہے اور نہ ہم نواز شریف کو مرسی بننے دیں گے۔ صدر مرسی کے قتل پر پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور سبھی طبقوں نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ سیکڑوں مقامات پر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ تعزیتی ریفرینسز منعقد کیے گئے۔ الیکٹرانک، سوشل اور پرنٹ میڈیا پر اس قتل اور اس سے متعلقہ حقائق و واقعات کو اجاگر کیا گیا۔ معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے محمد مرسی کے قتل کو بجا طور پر شیر کی موت سے تعبیر کیا ہے۔

محمد مرسی کی دردناک و المناک شہادت کی نوحہ گری اپنی جگہ، مصر کی آمرانہ حکومت کی چیرہ دستیوں کی داستان طرازی بھی بجا، عالمی سازشوں و ملکی ریشہ دوانیوں کی ماتم سرائی بھی ٹھیک مگر کیا آج پاکستان میں بھی مصر سے ملتے جلتے حالات نہیں ہیں؟ جس طرح تین برس قبل ملک میں عالمی اور مقامی سازشی مہروں نے اپنے آقاؤں کے اشاروں پر سیاسی طور پر منتخب و مضبوط جمہوری حکومت کی بساط کو الٹ کر تر قی و خوش حالی کے بگٹٹ سفر کو روکا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

جن ”حساس“ اور ”نازک اندام“ برزجمہروں کو آج لفظ سلیکٹڈ کی حقیقت بیانی گوارا نہیں اور وہ اسے ”منتخب“ وزیر اعظم کی توہین سمجھفے ہیں انہوں نے سابق وزیر اعظم کو چور، ڈاکو، لٹیرا، سسیلین مافیا، گادڈ فادر، غدار وطن، ملک دشمن، کرپٹ تر ین اور نہ جانے کن کن مغلظات سے نوازا۔ اس پر من گھڑت، بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات بنائے۔ سپانسرڈ دھرنوں کے ذریعے پارلیمنٹ سمیت کلیدی اداروں پر حملے کرائے گئے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی اور شاید آخری بار معزز عدالت کے ججز کے وٹس اپ پیغامات پر جے آئی ٹی بنا کر اس کو ریاستی اداروں کے اندھا دھند وسائل مہیا کیے گئے۔ سپریم کورٹ کے ججز نے پہلی بار کسی فرد کے خلاف اپنی نگرانی میں کارروائی چلائی۔ پانامہ کے نام پر ایک شخص کی تین نسلوں کے اثاثوں کو کھنگالا گیا۔ حالانکہ پانامہ میں ساڑھے جار سو لوگوں کے نام تھے۔ مگر سوائے ایک شخص اور اس کے خاندان کے باقی کسی کا احتساب نہیں ہوا۔

یہی نہیں بلکہ جب منتخب وزیر اعظم کے خلاف بال کی کھال اتارنے کے باوجود دس روپے کی کرپشن بھی ثابت نہ کی جا سکی تو اسے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں پابند سلاسل کر دہا گیا۔ آج وہ سیاستدان واقعی شیروں کی طرح جیل کاٹ رہا ہے۔ اسے دل کے مرض کے علاوہ شوگر، ہائی بلڈ پریشر، گردوں کے پیچیدہ اور جان لیوا امراض لاحق ہیں۔ علاج معالجے کے لیے اس کی تمام درخواستیں ردی کی ٹوکری میں ڈالی جا رہی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس کی بیماری پر بے حس سیاسی مخالفین نشتر زنی کر رہے ہیں۔

اب تو معزز عدالت کے ججز نے بھی اس کی بیماری کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ پاکستانی شیر کو ووٹ کو عزت دو کے مشہور بیانیے کی وجہ سے یہ کڑی سزا دی جا رہی ہے۔ مصر کے شیر کی موت پر مرثیہ نگاری اپنی جگہ درست ہے مگر اے حق و سچ کے علمبردارو! اے باخبر و باشعور نقارچیو! اے راز درون خانہ کے محرمو! اے پاک دل و پاک باز و پاک طینت طائران صحافت! اے کوچہء آگہی کے مجاہدو! اے علم و حکمت کے شہر کے دلاوران بے بدل۔ آج اپنے ملک میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے و الے اپنے مرسی کی خبرلو جو تن تنہا جمہوریت اور ہماری حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ خدانخواستہ کل اگر جاہ طلبوں اور مطلق العنان گماشتوں کے ہوس زدہ ہرکاروں کے ہاتھوں یہ مرد جری مارا گیا تو تمہارا کوئی نوحہ، کوئی مرثیہ، کوئی بین اور کوئی ماتم اس کا مداوا نہیں کر سکے گا۔ اپنے زندہ مرسی اور پنجرے میں قید شیر کی خبر لو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).