قبائلی اضلاع میں انتخابات: پہلی مرتبہ دو خواتین جنرل نشستوں پر مردوں کے مدِ مقابل


ناہید آفریدی

ناہید آفریدی کہتی ہیں وہ صرف جیتنے کے لیے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں بلکہ وہ چاہتی ہیں کہ عورتوں میں سیاسی شعور پیدا ہو

’میں الیکشن جیتتی ہوں یا ہارتی ہوں اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرا مقصد ہے کہ عورتوں کو قدامت پسند اور قبائلی ماحول سے نکال کر انتخابی عمل میں شامل کروں تاکہ وہ بھی مردوں کے برابر علاقے کی ترقی میں حصہ لیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکیں۔‘

یہ کہنا ہے صوبہ خیبر پختوانخوا کے ضلع خیبر سے پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں جنرل نشست پر حصہ لینے والی عوامی نیشنل پارٹی کی خاتون امیدوار ناہید آفریدی کا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قبائلی علاقوں میں کوئی خاتون امیدوار جنرل نشست پر الیکشن میں حصہ لے سکے گی لیکن اب سیاسی جماعتیں یہ تبدیلی لے کر آئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’خدمت کریں تو قبائلی زیادہ عزت دیتے ہیں‘

قبائلی جرگے خواتین کے حقوق کے محافظ؟

’طالبان سے بھی ڈر لگتا تھا اور فوج سے بھی‘

’اگر میں الیکشن ہارتی بھی ہوں تو تب بھی یہ میری بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ میرا مقصد ہار جیت نہیں بلکہ اصل مشن عورتوں کو انتخابی عمل میں شامل کروانا اور ان کو اپنے حقوق سے روشناس کروانا ہے۔‘

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے جہاں 16 جنرل نشستوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے درجنوں امیدوار مدِ مقابل ہیں۔

سات قبائلی اضلاع اور ایک ایف آر ریجنز سے ویسے تو کئی امیدوار قمست آزمائی کر رہے ہیں لیکن ان میں دو ایسی خواتین امیدوار بھی شامل ہیں جو پہلی بار جنرل نشستوں پر مردوں کے مقابلے میں کھڑی ہوئی ہیں۔

ان میں ناہید آفریدی حلقہ پی کے 106 خیبر ٹو سے اے این پی کی امیدوار ہیں جبکہ پی کے 109 کرم ٹو سے ملاسہ نامی ایک خاتون امیدوار جماعت اسلامی کی ٹکٹ پرانتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔

قبائلی اضلاع میں عام طور پر خواتین کا گھروں کی دہلیز سے باہر قدم رکھنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پہلی مرتبہ بعض ایسی باہمت خواتین سامنے آ رہی ہیں جو انتخابات میں حصہ لینا اپنا آئینی اور قانونی حق سمجھتی ہیں۔

ناہید آفریدی کے مطابق قبائلی علاقوں میں پہلے عوام کی تقدیر کے فیصلے جرگوں اور حجروں میں ہوا کرتے تھے لیکن شاید اب وہ دور گزر چکا ہے۔

ناہید آفریدی

ناہید آفریدی حلقہ پی کے 106 خیبر ٹو سے اے این پی کی امیدوار ہیں

ان کے بقول پہلی مرتبہ قبائلی اضلاع میں الیکشن کی باتیں حجروں سے نکل کر گھروں میں پہنچ گئی ہیں اور یہاں اب خواتین رفتہ رفتہ ووٹ کی اہمیت اور طاقت بھی سمجھنے لگی ہیں۔

’میں گھر گھر جاکر مہم چلا رہی ہوں اور ہر جگہ خواتین کو ایک ہی بات سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ وہ اٹھیں اور ووٹ کی اہمیت اور طاقت کو پہچانیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔‘

انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ایک ایسے علاقے میں جہاں تقریباً 60 برسوں تک عورتوں کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں تھی وہاں ایک خاتون امیدوار کا مردوں کے مقابلے میں جیتنا بہت مشکل ہے لیکن یہ دراصل ایک مسلسل جدوجہد ہے جس کے آنے والے وقتوں میں دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

ناہید آفریدی کے بقول ’جب سے میں نے ضلع خیبر میں باقاعدہ طورپر الیکشن مہم کا آغاز کیا ہے اس کے بعد سے مجھے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر طرح طرح کے طعنے اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ لیکن مجھے اس سے کوئی فرق پڑنے والا ہے اور نہ ہی میں یہ جدوجہد چھوڑوں گی۔‘

ان کے مطابق ’بعض لوگوں نے یہاں تک کہا کہ یہ واجب القتل ہے، یہ یہاں سے کیوں الیکشن میں حصہ لے رہی ہے، کیا ان کے پاس کوئی مرد امیدوار نہیں ہیں؟‘

ناہید آفریدی

ناہید آفریدی کو طرح طرح کے طعنے اور دھمکیاں دی گئی ہیں

قبائلی اضلاع میں پہلے دو جولائی کو صوبائی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد میں خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے بعض علاقوں میں امن و عامہ کے مسائل کے باعث الیکشن کمیشن کو ایک درخواست دی گئی جس میں ایک ماہ کے لیے الیکشن ملتوی کرانے کی درخواست کی گئی۔ تاہم الیکشن کمیشن کی طرف سے 18 دنوں کے لیے انتخابات موخر کرنے کے اعلان کے بعد اب یہ الیکشن 20 جولائی کو ہوں گے۔

ناہید آفریدی نے صوبائی حکومت کی طرف سے الیکشن 18 روز تک موخر کرنے کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ حکومت مقررہ تاریخ پر پرامن اور صاف و شفاف انتخابات کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت کے پاس لوگوں کو دینے کےلیے کچھ ہے نہیں اس وجہ سے الیکشن سے راہِ فرار اختیار کی جا رہی ہے اور انتخابات کا التوا دھاندلی کا ایک منصوبہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سنہ 2013 اور سنہ 2018 کے عام انتخابات میں اس سے بدترین سکیورٹی کے حالات تھے لیکن پھر بھی انتخابات کروائے گئے اور ’اب کیوں سکیورٹی کو مسئلہ بنایا جا رہا ہے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp