گرے لسٹ، عمران پیوٹن ملاقات اور نریندر مودی کی پریشانی


فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھتے ہوئے بلیک لسٹ میں ڈالنے کا معاملہ اکتوبر تک موخر کرکے اسے آخری توسیع قراردے دیا ہے۔ گویا کہ دہشت گردی کو فروغ دینے والی تنظیموں کے بارے میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنا ہو گا۔ یہ تو کہنا درست نہیں ہو گا کہ پاکستان نے اس حوالے سے کچھ نہیں کیا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہا۔ جماعتہ الدعوہ اور جیش محمد پر پابندی دیرآید درست آید کے مصداق لگائی گئی۔

یہ گروپ دیدہ دلیری سے اپنی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ جیش محمد کو اقوام متحدہ کی جانب سے ممنوعہ تنظیم قرار دیے جانے کے باوجود پاکستان ایسا کرنے میں متذبذ ب رہا لیکن بالآخر چین جواس معاملے میں ویٹو کردیتا تھا نے بھی اس مرتبہ ہاتھ اٹھا دیے۔ ایف اے ٹی ایف کی پابندی کے معاملے میں ہمارے محسن تین ممالک ایران، ترکی اور ملائیشیا ہیں۔ ظاہر ہے کہ بھارت نے اس معاملے سے بھرپورفائد ہ اٹھایا اور ایف اے ٹی ایف کے فلوریڈا سے جاری ہونے والے بیان کو بھارت نے پورا سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔

نریندر مودی کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالا جائے لیکن اطلاعات کے مطابق سعودی عرب اور کچھ یورپی ممالک جو اس ضمن میں بھارت کا ساتھ دیتے رہے ہیں اس مرتبہ انہوں نے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی بھارتی کوششوں کی حمایت نہیں کی۔ ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس سے واپس آنے والے پاکستانی وفد نے آف دی ریکارڈ بتایا کہ بھارت کے اعتراضا ت کے باوصف دو ماہ کی مہلت میں بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کو بہت کچھ کرنا ہو گا۔

اس حوالے سے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے لئے دہشت گردوں کو فنڈنگ کے بارے میں کوائف کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ عملی اقدامات کرنا ضروری ہو گیا ہے اس کے علاوہ نیکٹا سمیت دوسری ایجنسیوں کے تعاون سے کرنسی کی سمگلنگ کو بھی روکنا ہو گاپھر ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنے کے لئے ملزموں کو گرفتار کرنے اور قرار واقعی سزا دینا بھی کلید ی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ گویا کہ ہما رے تفتیش اور پراسیکیوشن کے شعبوں کے لئے ملزموں کو سزا دلوانا موجودہ ناقص اورکرپٹ نظام میں جوئے شیرلانے کے مترادف ہو گا۔

ایف آ ئی اے اور سی ٹی ڈی کو بھی حوالہ ہنڈی کے ذریعے پاکستان سے جانے اور یہاں آنے والی رقم کو روکنے کے لئے کئی پاپڑ بیلنا پڑینگے۔ دیکھا جا ئے تو پاکستان کے قر یبا ً کئی اداروں نیکٹا، ایف آ ئی اے، سی ٹی ڈی، وفاق اور صوبوں کی داخلہ امور کے محکموں، وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کو مل کر ہم آہنگی سے کام کرنا پڑے گا۔ اس ضمن میں سٹیٹ بینک آف پاکستان اور سکیورٹی اینڈ سٹاک ایکسچینج کمیشن کا کلیدی رول ہونا چاہیے۔

متذکرہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی اس ضمن میں کوششوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس کے مطابق پاکستان ایکشن پلان میں دیے گئے اہم نکات پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہا ہے اس لئے بجائے اپو زیشن کے پیچھے لٹھ لے کر پڑنے کے یہ فوری اقدامات ہیں جو خان صاحب کی حکومت کو کرنے چاہئیں لیکن اس طرف کوئی خاص توجہ ہی نہیں کیونکہ حکومت کا خیال ہے کہ عسکر ی ادارے خود ہی اس کا سدباب کریں گے۔ مثلا ً کچھ تنظیموں کو کالعدم تو قرار دے دیا گیا ہے لیکن ان کی لیڈر شپ اب بھی آزاد ہے۔

کیا تحریک انصا ف کی حکومت میں اتنی جرات رندانہ ہو گی کہ وہ ان پر گرفت کر سکے۔ امریکہ نے تو آئی ایم ایف کے مجوزہ پیکیج کو بھی انہی معاملات سے مشروط کیا ہے، حالانکہ بقول اپوزیشن کے آ ئی ایم ایف کے نامزد کردہ اعلیٰ عہدیدار آئی ایم ایف کا ہی بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان میں مذہبی آزادی سے متعلق عالمی رپورٹ جاری کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ملک میں مذہبی آزادی کے سلسلے میں مزید اقدامات کیے جائیں اور اس معاملے پر تحفظات دور کرنے کے لیے مندوب مقرر کیا جائے۔

پومپیوکا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکا جانا چاہیے، 40 سے زائد افراد کو اس جرم میں عمر قید یا سزائے موت کا سامنا ہے۔ امریکہ اس بات پر زور دیتا رہے گا کہ ان افراد کو رہا کیا جائے۔ اس حوالے سے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی عدلیہ کے ہا تھوں رہائی اور بعدازاں بیرون ملک روانگی کا خا ص طور پر ذکر کیا گیا ہے حالانکہ آسیہ بی بی کو اسی قانونی نظام نے بری کیا ہے جس کے بارے میں مائیک پومپیو رونا رو رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور مغرب نے پاکستان پر دباؤ بے انتہا بڑھا دیا اور ہم بہت کم ممالک کو دوست تصور کرسکتے ہیں۔ چین ہمارا بھرپور سا تھ دے رہا ہے لیکن چین میں مائیک پومپیو کے مطابق یغور اقلیت سے تعلق رکھنے والے قریبا ً دس لا کھ مسلمان پابند سلاسل ہیں۔ بھارت جو یقیناً ہمارا دشمن ہے وہ ہماری کمزوریوں سے فا ئدہ اٹھا کر اس ضمن میں اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں اوراقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ریاست کے متعصبانہ اقدامات پر پردہ ڈالنے کی کو شش کرتا ہے۔

پاکستان کی سفارتی تنہائی کا حالیہ ثبوت وزیر خا رجہ شاہ محمود قریشی کا دورہ برطا نیہ ہے، وہاں اپنے ہم منصب جیریمی ہنٹ کے ساتھ مشترکہ پر یس کا نفرنس میں اس وقت قریشی صاحب کی بڑی سبکی ہوئی کہ پاکستان اور برطانیہ کا تحویل ملزمان کا کو ئی معاہد ہ نہیں ہے اور نہ ہی کیا جا رہا ہے۔ نیز یہ کہ برطانیہ ان لوگوں کوجو اپنے ملکوں میں سیا سی طور پر زیر عتاب ہیں ان ملکوں کے حوالے کرنے کا پابندنہیں۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی حوالگی کے لئے مفاہمت کی یادداشت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ملزموں کی حوالگی کے لئے عام گزارش نہیں بلکہ خصوصی طور پر اسحاق ڈار کی حوالگی کی درخواست کی گئی ہے۔

اس ایم او یو کے مطابق پاکستان نے باقاعدہ اسحاق ڈار کا نام لے کر برطانیہ سے ان کی حوالگی کی درخواست کی ہے اور ان دستاویزات پر پاکستان اور برطانوی حکام دونوں کے دستخط موجود ہیں۔ ایم او یو کی دستاویزات کے مطابق اسحاق ڈار کی حوالگی اسی وقت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک میں ان پر عائد الزامات کو جرم تصور کیا جاتا ہو اور اس کی سزا کم سے کم 12 ماہ ہو۔ مفاہمت کی یادداشت میں یہ بھی درج ہے کہ اسحاق ڈار کی حوالگی اسی صورت ممکن ہے جب شفاف ٹرائل کا حق بھی یقینی بنایا جائے۔ اگر نسل، مذہب، جنس یا سیاسی خیالات کی وجہ سے حوالگی مطلوب ہو تو حوالگی نہیں ہوگی، اگر ملزم کے خلاف فیصلہ اس کی غیرموجودگی میں ہوا ہے توپھر بھی حوالگی نہیں ہوگی۔

دستاویزات میں ایک اہم بات یہ بھی درج ہے کہ اسحاق ڈار کا صرف ان کیسز میں ٹرائل ہوسکے گا جن میں ان کی حوالگی کی درخواست کی گئی ہو۔ اس کے علاوہ دوسرے کیسز میں ان کا ٹرائل نہیں کیا جاسکے گا۔ واضح رہے کہ چندروز پہلے وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ اسحاق ڈار کی پاکستان واپسی کے لئے برطانیہ سے ایم او یو طے پاگیا ہے اور ان کی واپسی جلد ہی ہوجائے گی۔

مگر اس حوالے سے کنفیوژن اس وقت پیدا ہوئی جب برطانوی وزیرخارجہ جیریمی ہنٹ نے پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان سیاسی بنیادوں پر ملزمان کی حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا۔ اس دوٹوک بیان کے باوجو د شہزاد اکبر ڈھٹائی سے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اسحق ڈار جلد واپس آ رہے ہیں اور اس حوالے سے ایم اویو ہو چکا ہے حالانکہ ایم او یو کی کو ئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔

ویسے بھی اس میں دی گئی شرائط خاصی پرپیچ ہیں۔ شا ہ محمو د قر یشی پہلی مر تبہ وزیر خارجہ نہیں بنے یہ قلمدان زرداری صاحب کے دور میں بھی ان کے پا س تھا۔ ویسے بھی وہ ایک تجربہ کار، گھاک اورزیرک سیاستدان ہیں لیکن ہمارے وزرائے خارجہ اتنے غیر ملکی دورے کرتے ہیں کہ اپنا فوکس کھوبیٹھتے ہیں۔ ان کے ایک پیشرو خورشید محمودقصوری اکثر میڈیا کو بتاتے تھے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں انھیں وہاں بطور وزیر خارجہ ریڈ کارپٹ استقبال دیاجاتا ہے۔

ایسے غیر ملکی دوروں میں رسمی تعریف وتوصیف کے جملوں کو ہی پالیسی سمجھا جا تا ہے لیکن اگر آپ کے پاؤں پاکستان میں زمین پر ہوں جس میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اور خا رجہ پالیسی کی ان پٹ کے علاوہ خود وزارت خارجہ کے حکام کی بریفنگ شامل ہو تو اصل صورتحال کے خدوخال ضرور واضح ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قر یشی صاحب بہتر ہوم ورک کرکے خطے اور دنیا میں پاکستان کی تنہائی دور کرنے کے لیے اپنے باس کی آشیرباد سے موجودہ پالیسی میں کچھ مثبت تبدیلیاں لائیں۔

اس وقت توسب اچھا ہے اور مبارک سلامت کی رٹ لگائی جا رہی ہے اور ساری خرابیاں دشمن کے سرمنڈھی جا رہی ہیں۔ اس خود پسندی کے رویے کی غمازیہ ٹویٹ تھی کہ حال ہی میں بشکیک میں ہو نے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اجلاس میں روسی صدر پیوٹن اور عمران خان کی ملاقات سے مودی سخت پریشان ہے۔ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔
بشکریہ رونامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).