حسن بن صباح کی جنت اور آج کا خود کش بمبار


\"aaliaکتنے لوگ شہید ہوئے؟
دس کے قریب
اچھا چلو شکر ہے بچت ہوگئی۔
کتنے مر گئے آج کے دھماکے میں یار؟
بارہ
شکر ہے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔
مردان میں خودکش دھماکے کے بعد اس قسم کے سوال و جواب کا سلسلہ جاری تھا۔ اے پی ایس اور کوئٹہ کچہری کے ہولناک دھماکوں کے بعد اب چھوٹے دھماکوں کو لوگ خاطر میں نہیں لاتے۔ کتنے ایسے لوگ ہوں گے جنھوں نے دھماکے کی فوٹیج دیکھنے کے بعد سوچا ہو گا کہ کوئٹہ کچہری یا دوسری جگہوں پر خودکش دھماکہ کرنے والا بچہ کتنا پیارا اور معصوم لگ رہا تھا ؟
کیا کسی نے سوچا کہ وہ بچہ کون تھا؟
وہ کہاں پلا بڑھا ہو گا؟
اس کو بچپن میں کون سے کھلونے پسند ہوں گے؟
وہ امی ابو میں سے کس کو زیادہ پیار کرتا ہو گا؟
طالبان اس کو گھر سے لے جا رہے ہوں گے تو کیا وہ رویا ہوگا؟
کیا اس نے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو پلٹ کر دیکھا ہوگا؟
کیا اس کے باپ نے پیسوں کی خاطر اس کو کسی طالب کے ہاتھ بیچا ہوگا؟
کیا اس بچے کے ماں باپ نے اس کو غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر چند روپوں کی خاطر مولوی کے ساتھ مدرسے کو الوداع کیا ہوگا؟
کیا اس وقت انھوں نے سوچا ہوگا کہ ان کا لاڈلا کتنے انسانوں کی موت کا سبب بنے گا؟
کیا وہ بچہ مدرسے جا کر اداس ہو گا؟
کیا اس کو گھر یاد آتا ہو گا؟
کیا وہ رات کے اندھیرے میں تکیے میں منہ چھپا کر روتا ہوگا؟
کیا مدرسے کی جماعت میں بیٹھ کر اس کو اپنا اسکول اور اپنے ہم جماعت یاد آتے ہوں گے؟
کیا اس کے دل میں خواہش مچلتی ہو گی کہ وہ اپنے استاد مولوی سے کہے کہ وہ اس کو چھٹیوں میں گھر جانے کی اجازت دے دے؟
کیا کھلونوں کے بجائے ایک خیالی جنت کا خاکہ بارہ تیرہ برس کے معصوم بچے کو اپنی جان دینے پر آمادہ کر سکتا ہے؟
کیا خود کش جیکٹ پہننے والا بچہ ہم سے زیادہ بہادر ہو جاتا ہے جس کو موت کا ڈر محسوس نہیں ہوتا؟
کیا جب اس کو جیکٹ پہنائی جاتی ہے تو وہ خوشی سے پہنتا ہے یا اندر سے اس کا دل پتے کی طرح کانپتا ہے؟
کیا وہ کسی کے ڈر اور خوف کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہوتا ہے یا حوروں کے شوق میں دلی طور پر رضامند ہوتا ہے؟
کیا تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے؟
کیا کبھی کسی طالبان کمانڈر کا بیٹا بھی خودکش جیکٹ پہن کر پھٹا ہے؟

\"hassan-bin-sabbah\"

کیا ستم ہے کہ کوئی ہمارے بچے اٹھا کر لے جائے اور پھر ہمیں، ہمارے ہی بچوں کے ہاتھوں مروا دے۔ مستقبل کی نسل موجودہ نسل کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھا لے۔ کیا کوئی انسان، کوئی قوم اس سے زیادہ خسارے میں ہو سکتی ہے۔ کیا اسی وقت کے لئے قسم اٹھائی گئی تھی کہ بے شک انسان خسارے میں ہے۔
ہم ایسے سوالات نہیں سوچتے۔ کیونکہ ہم دھماکے میں مرنے والے بے گناہ معصوم ہم وطنوں کا دکھ برداشت نہیں کر پا تے۔ ہم ان کے لئے آنسو بہاتے ہیں اور خود کش کو جہنم واصل ہونے کی بد دعائیں دیتے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہمارے پاس نہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے ہیں کہ فدائین کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ نہ ہی یہ فدائین اور خودکش بمبار امریکہ اور اسرائیل کی زیادتیوں کا نتیجہ ہیں۔ یہ اس وقت بھی تھے جب ابھی مغربی طاقتوں نے حملہ کر کے مشرق وسطی کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجائی تھی۔ طالبانی سوچ، خیالی جنت، حوروں کے حسن کے قصے اور فدائین کی فوج ظفر موج کا آغاز اس وقت ہو چکا تھا جب امریکہ اسرائیل، روس اور فرانس کی حکومتوں کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ سو یہ مدعا ان پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ فتنہ بہت پرانا ہے۔
شاید حسن بن صباح گیارہویں صدی کا وہ پہلا مسلمان ہے جس نے خیالی جنت تخلیق کی۔ خیالی جنت کے اس ناسور نے ایک مسلمان حسن بن صباح کے ذہن میں جنم لیا۔ اس نے قلعہ الموت پر قبضہ کر کے وہاں ہزاروں کی تعداد میں خوبصورت نوجوان فدائین بھرتی کئے۔ اس نے قلعہ الموت کی پہاڑی پر باقاعدہ جنت جیسے لوازمات اور مناظر پیدا کئے۔ نوجوان لڑکوں کو حشیش کے نشے پر لگایا جاتا اور پھر انھیں مصنوعی جنت میں داخل کیا جاتا۔ وہ اس کو حقیقی جنت تصور کرتے اور حسن بن صباح پر فی الفور ایمان لے آتے۔ کہا جاتا ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں یہ فدائین لڑکے حسن بن صباح کے ایسے غلام تھے کہ اس کے ایک اشارے پر اپنا پیٹ چاک کر لینے اور پہاڑی سے چھلانگ لگا دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔

\"hassan-bin-sabbah-paradise\"

حسن بن صباح نے ان فدائین اور خود کشوں کو صرف اپنے شوق کی خاطر جمع نہیں کیا تھا۔ اس نے ان نوجوان فدائین کے ہاتھوں درجنوں مسلمان علما اور بادشاہوں کا قتل کروایا۔ کیونکہ حسن کے سیاسی مقاصد بھی تھے لہٰذا اس نے اپنے مخالف علمائے دین کو قتل کروانے کا ایسا سلسلہ شروع کیا جو آج کے خود کش دھماکوں سے کم لرزہ خیز نہیں۔ قلعہ الموت کے غاروں اور اور وادیوں میں خیالی جنت تعمیر کی گئی۔ وہاں ٹریننگ کیمپس قائم کئے گئے جہاں مخالفین کو قتل کرنے کی ٹریننگ دی جاتی۔ قلعہ الموت کی خیالی جنت (فردوس بریں) اور آج کے طالبانی ٹریننگ کیمپس میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ اس کے جانباز مذہب کی تبلیغ کے لئے مختلف علاقوں اور حکومتوں میں جاتے۔ وہاں اپنے ٹارگٹ تک پہنچتے اور پھر اس کا کام تمام کر دیتے۔

حسن کے فدائی لڑکوں نے اتنے علماء کو قتل کیا کہ اس دور میں مسلمان علماء کا قحط پڑ گیا۔ نہ صرف علماء بلکہ حکمرانوں کو بھی ٹارگٹ کر کے قتل کروایا جاتا۔ حسن بن صباح کی اس خیالی جنت، حشیش کے زیر اثر رہنے والے فدائی لڑکے اور علماء کا قتل ملسمانوں کی تاریخ میں ایک سیاہ باب تصور کئے جاتے ہیں۔ کوئی نہ جانتا تھا کہ اکسیویں صدی کے ستاروں پر کمند ڈالنے والے زمانے میں فدائین کی کھیپ ایک بار پھر تیار کی جائے گی اور اس مرتبہ اس کا ہدف معصوم اور بے گناہ انسان ہوں گے۔ اگر گیارہویں صدی کے اس فتنے کے بعد مسلمان اپنا تدریسی نصاب تبدیل کر لیتے، اپنی نسلوں کو فرقہ پرستی، مذہب پرستی، اور بنیاد پرستی نہ سکھاتے اور اپنے اسکول اور تربیت گاہیں جدید علوم اور بین المذاہب ہم آہنگی پر استوار کرتے تو آج ہمیں ان سوالوں کے جواب نہ ڈھونڈنا پڑتے۔

عالیہ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عالیہ شاہ

On Twitter Aliya Shah Can be Contacted at @AaliyaShah1

alia-shah has 45 posts and counting.See all posts by alia-shah

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments