چند معروف ایجادات جن کا جنم حادثاتی طور پر ہوا


( 1 ) کو کا کولا:

یہ بات 8 مئی 1886 کی ہے۔ امریکہ کی سول وار کو ختم ہوئے 21 سال گزر چکے تھے۔ امریکہ کی ریاست جارجیا کے دارالحکومت اٹلا نٹا میں ایک فارما سسٹ جان پیم برٹن  اپنے گھر کے عقب میں چند تجربات میں مصروف تھا۔ اس نے ایک بڑی کیتلی میں ایک مکسچر ڈالا ہوا تھا جس کو وہ کشتی کے چپو سے گھمارہا تھا۔ جب وہ تجربہ ختم کرچکا تو وہ اس وقت سردرد ختم کرنے، تھکاوٹ رفع کرنے اور اعصاب کو آرام دینے کی دوا تیار کر چکا تھا۔

پیم برٹن اس نئی نئی تیار کردہ دوائی کو جب مقامی فارمیسی میں فروخت کرنے کے لئے گیا تو اس نے جانے سے قبل اپنے نائب کو ہدایت کی کہ وہ اس شربت کو پانی میں ملا کر ٹھنڈا کرلے۔ اس کے واپس آنے کے بعد دونوں نے اس کو پیا تو واقعی یہ مزیدار تھا مگر اس کے نائب نے جب دوسرا گلاس پینے کے لئے تیار کیا تو غلطی سے اس نے شربت میں کاربونیٹڈ واٹر ڈال دیا۔ اب دونوں نے ارادہ کیا کہ وہ اس مشروب کو سافٹ ڈرنک کے طور پر فروخت کریں گے۔

اس کا نام انہوں نے کوکاکولا رکھا کیونکہ اس میں کو کا کے پتے اور کولا کا خشک میوہ ڈالا گیا تھا۔ 1886 میں انہوں نے ایک دن میں 9 بوتلیں فروخت کیں اور سالانہ آمد پچاس ڈا لر تھی۔ اس سال پیم برٹن نے 75 گیلن شربت فروخت کیا، اس کو 150 ڈالر آمد ہوئی جبکہ خرچ 73 ڈالر تھا۔ اس وقت کے دنیا کے 200 سے زیادہ ممالک میں لوگ ہر روز 1.5 ارب بوتلیں پیتے ہیں۔ کو کا کولا کے 14، اجزاء کا ہرایک کو علم ہے مگر پندرہویں کا نام 7 Xہے۔ یہ دنیا کا خفیہ ترین نسخہ ہے جس کا علم کمپنی کے صرف چند افراد کو ہے۔ اور جن کو علم ہے ان کو اکٹھے سفر کرنیکی اجازت نہیں ہے۔

( 2 ) پو ٹیٹو چپ :

امریکہ میں ہر سال لوگ 6 بلین ڈالر پو ٹیٹو چپس خریدنے پرخرچ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ 1853 میں سارا ٹوگا سپرنگ (نیویارک سٹیٹ) میں سب سے پہلے بنائے گئے تھے۔ امریکہ کے مالدار لوگ یہاں چھٹیاں گزارنے آیا کرتے تھے۔ ایک ریستوران میں سرخ فام امریکن جارج کرم کچن میں کام کرتا تھا۔ ایک روز ایک گاہک تیل میں تلے آلوؤں کی پلیٹ بار بار واپس بھیجتا رہا کہ ان کو اور بھی پتلا کرو۔ جارج کو غصہ آگیا اس نے آلو اس قدر پتلا کاٹ کر تیل میں ان کو تلا کہ وہ بہت ہی کرسپ ہوگئے۔ ان کے اورپر اس نے نمک چھڑکا اور گاہک کو بھجوا دیے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ہر ایک نے ان کو پسند کیا۔ اس قسم کے چپس کا نام ساراٹوگا چپس رکھا گیا تھا۔

( 3 ) چائے کی دریافت:

چائے کی دریافت چین میں 2737 قبل مسیح چین کے بادشاہ نے کی تھی۔ ایک روز بادشاہ محل کے باہر کیتلی کے اندر پانی گرم کر رہا تھا کہ اس میں قریبی جھاڑی سے پتے گر گئے۔ قبل اس کے کہ وہ ان پتوں کو نکالتا، پانی ابلنا شروع ہو گیا۔ بادشاہ اس کے بھینی بھینی خوشبو اچھی لگی، اس کو پیا تو واقعی یہ مزیدار تھا۔ چائے اس وقت پانی کے بعد دنیا کا مرغوب ترین مشروب ہے۔ یورپ میں چائے 1610 میں پہنچی تھی۔ کسی زمانے میں ایشیا کے متعدد ممالک میں چائے کے بلاک پیسے کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔

ہر سال 900 بلین چائے کے کپ پئے جاتے ہیں۔ ٹی بیگ ایک امریکی بزنس مین ٹامس سولی وان نے 1904 ء میں دریافت کیے تھے۔ اس سے پہلے وہ چائے کے نمونے ٹین کے ڈبوں میں دکانوں کو بھیجا کرتا تھا۔ ایک روز اسنے چائے کے یہ نمونے ریشم کے چھوٹے تھیلوں میں بھیجے جو لوگوں نے پسند کیے۔ یوں ٹی بیگ کا آغاز ہوگیا۔

( 4 ) اسپرین:

ہزاروں سال سے ڈاکٹر لوگوں کو یہ مشورہ دیتے آئے تھے کہ سردرد ختم کرنے کے لئے وہ ولو ٹریwillow tree کی کھال کو منہ میں رکھ کر چبائیں۔ مشہور یونانی طبیب بقراط نے سردرد کے لئے اس درخت کے پتوں سے بنی چائے لوگوں کو دی تھی۔ انیسویں صدی میں سائنسدانوں نے پتہ لگایا کہ ولو ٹری کے اندر salicyclic acid ہوتاجس سے سردرد اور بخار دور ہوجاتا تھا۔ 1853 ء میں ایک فرنچ کیمسٹ چارلس گیر ہارڈٹ Gerhardtنے اس تیزاب کے ساتھ ایک اور تیزاب ملا کر نیا مکسچر تیار کیا مگر اس کو تیار کرنے میں دیر لگتی تھی۔

1854 میں جرمن کیمسٹ ہاف مین اپنے والد کے جوڑوں کے درد کو دور کرنے کے لئے نئی دواتیار کررہا تھا کہ اس نے acetyl۔ solicylic acid یا اسپرین دریافت کرلی تھی۔ اسپرین دنیا میں اس وقت 0 100 ملین پاؤنڈ تیار کی جاتی ہے۔ امریکہ میں لوگ ہر سال 30 بلین اسپرین کی گولیاں کھاتے ہیں کیونکہ یہ دل کے حملہ اور فالج کے دفاع کے لئے عمدہ دوائی ہے، بلکہ ذیابیطس کے مریضوں کے لئے بھی مفید ہے۔

( 5 ) پینی سی لین:

الیکزنڈر فلیمنگ Flemingنے ستمبر 1928 ء میں پین سی لین اتفاقاً ایجاد کی تھی۔ فلیمنگ پیشہ کے اعتبار سے بیکٹیریالوجسٹ تھا یعنی وہ شخص جو جراثیم کا مطالعہ کرتا ہے۔ وہ اپنے تجربات اکثر لندن کے سینٹ میری ہاسپٹل میں کیاکرتا تھا۔ ایک روز اس نے تجرباتی پلیٹ جس میں staphylococciبیکٹیریا تھا، اس کو کھڑکی کے پاس رکھدیا۔ اس کے چند گھنٹوں کے بعد جب وہ واپس لوٹا تو اس نے دیکھا کہ کھڑکی پر لگی پھپھوندی کہیں سے اڑ کرآگئی تھی اور اس نے بیکٹیریا کو خراب کردیا تھا۔

کوئی اور ہوتا تو اپنے پلیٹ کا باہر پھینک کر تجربہ دوبارہ شروع کر دیتا مگر اس نے پلیٹ کو غورسے دیکھا اورجب اس کو اپنی مائیکرو اسکوپ کے نیچے رکھا تو دیکھا کہ staphylococci کے اوپر لگ رہی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پھپھوندی کے ارد گرد تمام حلقہ صاف تھا۔ ہوا یہ کہ پھپھوندی اس زہریلے سٹیفا لو کاکی کو ہڑپ کر رہی تھی یو اتفاقاً فلیمنگ نے پین سی لین ایجاد کر لی۔ 1945 ء میں فلیمنگ، فلوری، اور چین کو پین سی لین ایجاد کر نے پر نو بل انعام دیا گیا تھا۔ امریکہ میں ڈاکٹر ہر سال 100 ملین سے زیادہ نسخے لکھ کر دیتے ہیں۔

( 6 ) آئیوری سوپ:

امریکہ اور کینیڈا میں نہانے کے لئے صابن کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا فارمولا 125 سال قبل دو بھائیوں جیمز اینڈ ڈیوڈ گیمبل نے تیار کیا تھا۔

شروع میں انہوں نے اس کا نام وائٹ سوپ رکھا تھا مگر اس وقت یہ پانی میں تیرتا نہیں تھا۔ مگر اس کی ایجاد ایک حادثہ سے ہوئی۔ ایک روز فیکٹری میں ایک ورکر بڑی مشین پر کام کر رہا تھا مگر لنچ کے وقت وہ مشین بند کرنا بھول گیا۔ مشین لگاتار چلتی رہی جب وہ لنچ کے بعد واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ صابن کے مکسچر کے اند رہو ا شامل ہوگئی تھی۔ بجائے مکسچر کو پھینکنے کے اس نے اس کو سانچے کے اندر ڈال دیا۔ جب صابن سخت ہوگیا تو اس کو کاٹا گیا اور تین یا چار صابنوں کے پیکج بنا کر دکانوں پر فروخت کے لئے بھجو ادیا گیا۔ جلد ہی پراکٹر اینڈ گیمبل کو آرڈر ملنا شروع ہو گئے کیونکہ یہ صابن تیرتا تھا۔ ورکر کی معمولی سی غلطی سے صابن فروخت کی وجہ بن گیا تھا۔ 1879 ء میں اس کا نام آئیوری سوپ رکھدیا گیا۔

( 7 ) اینٹ:

نیو یارک کی بلندعمارت ایمپا ئر سٹیٹ بلڈنگ کی تعمیر میں 10 ملین اینٹیں استعمال ہوئی تھیں۔ چین کی دیوار اعظم میں 4 بلین اینٹیں لگی ہوئی ہیں۔ انسان نے اینٹوں کا استعمال دس ہزار سال قبل شروع کیا تھا۔ پہلی اینٹ کسی مصری نے اتفاقاً دریائے نیل کے کنارے جمع شدہ گارے اور تہ نشیں ریت سے بنا ئی تھی۔ جب دھوپ میں پڑا کیچڑ سخت ہوگیا تو کسی نے اس کے سلیب بنائے۔ کسی دوسرے مصری کو خیال آیا کیوں نہ اس بلاک کو کاٹ کر مکان بنانے میں استعمال کیا جائے۔

اینٹ جس طرح ہزاروں سال قبل بنائی جاتی تھی اسی طرح آج بھی بنائی جاتی ہے۔ امریکہ میں ریاست ارکانسا کا شہر میل ورن اینٹوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں ہر سال ایک میلہ لگتا ہے جس کا اینٹوں کا میلا Brickfest ہے۔ ریاست ٹینی سی کے شہر جانسن سٹی میں اینٹوں کا ایک میوزیم ہے۔ دنیا کی سب سے پرانی اینٹ اسرائیل کے شہر جیریکو میں ملی ہے جو نو ہزار سال پرانی ہے۔ ہندوستان کے شہر کالی بنگا میں فائر برک ملی جو پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل میں بادشاہ سلیمان کے قلعہ کی اینٹ 64 پاؤنڈ وزنی ہے۔

( 8 ) پوسٹ اٹ نوٹ

آپ نے آفس میں پیلے رنگ کا Post it Note تو ضرور استعمال کیا ہوگا۔ کاغذ کے پیچھے معمولی سی گوند لگی ہوتی ہے مگر کاغذ دوسرے کاغذ سے آسانی سے الگ ہوجا تا ہے۔ اس قسم کے کاغذ کی ایجاد 1970 ء میں امریکہ کی مشہور زمانہ کمپنی تھری ایم 3 Mکی ریسرچ لیبارٹری میں ہوئی تھی۔ ہوا یہ کہ اس کمپنی کا ایک سائنسدان سپینسر سلور Silverلیبارٹری میں کوئی مضبوط قسم کی گو ندadhesive بنانے میں مصروف تھا۔ اس نے ایک گوند تیار کی لیکن یہ پہلی والی سے بھی زیادہ کمزور تھی جو کہ تھری ایم میں پہلے ہی تیار کی جارہی تھی۔

یہ گوند جس چیز کو لگائی جاتی وہ دوسری چیزوں سے چپک جاتی مگر آسانی سے الگ بھی ہوجاتی تھی یعنی یہ گوند سپر سٹرانگ ہونے کے بجائے سپر ویک تھی۔ ایک اور سائنسدان آرتھر فرائی ایک روز چرچ میں ترنم سے نغمے گا رہا تھا مگر کتاب کے جس صفحہ پر اس نے کوئی نشانی رکھی ہوئی تھی وہ گر جاتی تھی۔ چنانچہ اس نے مسٹر سلور والی گوند کو کاغذ کے پیچھے لگا کر کتاب میں نشانی کے لئے لگا دیا اور یہ نشانی اپنی جگہہ پر تمام وقت لگی رہی۔ تھری ایم نے ان پوسٹ اٹ نوٹ کا نام دیا اور یہ امریکہ میں 1980 ء میں بازار میں بکنا شروع ہوگئے۔ اس وقت یہ سٹیشنری سٹوروں پر سب سے زیادہ بکنے والی چیز ہے۔

( 9 ) ٹاور آف پیسا:

دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک اٹلی کے شہر پیسا کے Piazza dei Miracoli میں واقع مینار دنیا بھر میں مشہور اور سیاحوں کی آماجگاہ ہے کیونکہ یہ 17 فٹ (پانچ ڈگری) جھکا ہوا ہے۔ اس کے اندر 296 سیڑھیاں ہیں۔ یہ سفید سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے اور 184 ’۔ 5 ”اونچا ہے۔ اس شہرہ آفاق مینار کی تعمیر 1174 ء میں اطالوی آرکی ٹیکٹ پیسانو Pisanoنے شروع کی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک روز یہ مینارسیا حت کاعالمی مرکز بن جا ئیگا۔

اور نہ ہی اس کو یہ معلوم تھا کہ اس کی ایک غلطی اس میں پوشیدہ رہیگی۔ مینار کے بلندی 185 فٹ طے پائی تھی۔ تعمیر کا کام جب شروع ہوا اور تین منزلیں جب مکمل ہو گئیں تو اس نے ایک طرف جھکنا شروع کردیا۔ مینار کے نیچے ایک طرف کو مٹی قدرے نرم تھی اور دس فٹ کی بنیاد اس قدر پکی نہ تھی کہ اس کے وزن کو سپورٹ کر سکتی، چنانچہ اس نے اس جھکاؤ کو روکنے کے لئے جس طرف مینار چھوٹا تھا اس طرف نئی منزلیں بنانی شروع کر دیں۔ مگر اس عمل سے یہ اور بھی زیادہ جھکنے لگا تھا۔ چنانچہ تعمیر کا کام اگلے سو سال تک رکا رہا۔

اس پر 1275 میں تعمیر کاکام دوبارہ شروع ہوا۔ کشش ثقل کے مرکز کو بدلنے کے لئے دو منزلیں دوسری دو منزلوں سے ہٹ کر تعمیر کی گئیں چنانچہ چودھویں صدی میں تعمیر کا کام مکمل ہوگیا۔ مگر یہ ہر سال ایک چوتھائی انچ جھکتا رہا اور اب یہ پانچ ڈگری یا 17 فٹ جھکا ہوا ہے۔ 1934 میں اطالوی حکومت نے اس کی بنیادوں میں کنکریٹ ڈالا تا جھکاؤ رک جائے۔ مگر یہ جھکاؤ اور بھی زیادہ ہوتا رہا۔ کہاجاتا ہے کہ اطالوی ہیئت دان گیلی لیو گیلی لائی نے گرنے والے اجسام کی رفتار معلوم کرنے کے لئے اس مینار پر سے تجربات کیے تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ اس جھکاؤ زیادہ ہورہا تھا اس لئے 1990 میں اس کو بند کر دیا گیا۔ چند سال قبل اس کے جھکاؤ کو روکنے کے لئے مرمت کا کام جو شروع ہوا تھا وہ 2018 میں مکمل ہوا تھا۔ اور اب یہ 1.5 انچ سیدھا ہوگیا ہے اور اس کی اونچائی 186 فٹ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).