قبائلی اضلاع میں انتخابات: الیکشن کمیشن نے پی ٹی ایم کے حمایت یافتہ امیدواروں کی گرفتاری کا نوٹس لے لیا


پی ٹی ایم

جنوبی وزیرستان میں دو آزاد امیدواروں کو خدشہ نقص امن کے پیشِ نظر گرفتار کیا گیا ہے جن کا تعلق پشتون تحفظ موومنٹ سے بتایا جا رہا ہے

خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے دو آزاد امیدواروں کی جنوبی وزیرستان سے گرفتاری پرالیکشن کمیشن آف پاکستان نے نوٹس لے لیا ہے۔

گرفتار ہونے والے دونوں آزاد امیدوار پشتون تحفظ موومنٹ کے حمایت یافتہ بتائے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق دونوں امیدواروں کو ڈپٹی کمشنر کے حکم پر مینٹیننس آف پبلک آرڈر یا ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

جنوبی وزیرستان میں صوبائی اسمبلی کے حلقے پی کے 113 اور پی کے 114 سے انتخابات میں حصہ لینے والے آزاد امیدوار محمد عارف اور محمد اقبال کو بالترتیب 19 اور 24 جون کو نقصِ امن کے خدشے کے پیشِ نظر گرفتار کیا گیا تھا۔

انھیں ڈیرہ اسماعیل خان اور ہری پور کی جیلوں میں بھیج دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

محسن داوڑ بھی شمالی وزیرستان سے گرفتار

پی ٹی ایم کا موقف پاکستانی میڈیا سے غائب کیوں؟

’احتساب کے لیے تیار ہیں لیکن ثبوت تو پیش کریں‘

آزاد امیدوار محمد عارف پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر کے رشتہ دار بھی ہیں۔

محمد عارف کو گذشتہ برس وانا میں تشدد کے واقعات کے بعد بھی گرفتار کیا گیا تھا جبکہ محمد اقبال پی ٹی ایم کے مقامی رہنما ہیں اور انھوں نے سنہ 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر بھرپور مقابلہ کیا تھا۔

مقامی لوگوں کے مطابق موجودہ صوبائی انتخابات کے لیے محمد عارف پی ٹی ایم کے متبادل امیدوار کے طور پر حصہ لے رہے ہیں۔

‘گرفتاریاں پُرامن انتخابی عمل میں خلل ڈالنے کے مترادف’

الیکشن کمیشن کے ترجمان محمد الطاف نے بی بی سی کو بتایا کہ خیبر پختونخوا کے سیکرٹری داخلہ و قبائلی امور کو کل (جون 28) طلب کیا گیا ہے تاکہ وہ کمیشن کو حکومت کا موقف بیان کر سکیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق ’امیدواروں کی گرفتاریاں پُرامن اور آزاد انتخابی عمل میں خلل ڈالنے کے مترادف ہے۔‘

نوٹیفیکیشن

جنوبی اور شمالی وزیرستان میں سیکشن 144 بھی نافذ ہے جس کے تحت پانچ یا پانچ سے زیادہ افراد کا اجتماع اور اسلحے کی نمائش بھی نہیں کی جا سکتی

قبائلی علاقوں میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن نے پولنگ کے لیے 20 جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے۔

قبائلی علاقوں میں جوں جوں انتخابی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں تشدد کے واقعات اور حکومت کی جانب سے سخت اقدامات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

مقامی سطح پر کہا جا رہا ہے کہ یہ بظاہر چند امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے مترادف ہے۔

ایم پی او کیا ہے؟

معروف وکیل امجد خان مروت کے مطابق مقامی انتظامیہ کو اس قانون یعنی مینٹیننس آف پبلک آرڈر 1960 کے تحت یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ اگر انھیں مقامی سطح پر کسی مشتبہ سرگرمی یا ایسی سرگرمی جس سے انتشار یا علاقے کا امن و امان خراب ہونے کا خدشہ ہو تو مشتبہ شخص کو حراست میں لیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس قانون کے تحت کسی مشتبہ شخص کو چھ ماہ تک کے لیے زیرِ حراست رکھا جا سکتا ہے یا نظر بند کیا جا سکتا ہے۔‘

اس کے علاوہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں سیکشن 144 بھی نافذ ہے جس کے تحت پانچ یا پانچ سے زیادہ افراد کا اجتماع اور اسلحے کی نمائش بھی نہیں کی جا سکتی۔

وانا

محمد عارف کو گزشتہ سال وانا میں تشدد کے واقعات کے بعد بھی گرفتار کیا گیا تھا

شدت پسندوں کے حملوں کا خطرہ

جنوبی وزیرستان میں انتظامیہ کی جانب سے تمام امیدواروں کو الرٹ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جلسوں کے دوران شدت پسندوں کی جانب سے حملوں کا خطرہ ہے۔

ان تمام امیدواروں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی سکیورٹی کو یقینی بنائیں اور اپنی نقل و حرکت کے بارے میں مقامی انتظامیہ کو ضرور مطلع کریں تاکہ اس حوالے سے بہتر انتظامات کیے جا سکیں۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان میں امیدواروں نے یہ الزام بھی عائد کیے ہیں کہ انھیں انتخابی مہم کے دوران مشکلات کا سامنا ہے اور وہ آزادانہ طریقے سے اپنی مہم جاری نہیں رکھ سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp