دل کے غنی


کبھی کبھار کچھ لوگوں سے مل کے آپ ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس میں رشک، حیرت اور محبت تینوں شامل ہوتی ہیں۔ اس سال رمضان کی بات ہے جب میں حسبِ معمول تیزی سے اپنی موٹر سائیکل پر گھر کی طرف رواں تھا۔ کافی دیر ہو چکی تھی اور میرا افطار تک گھر پہنچنا تقریباً ناممکن ہو چلا تھا۔ آدھے راستے میں تھا کہ موٹر سائیکل اچانک سے بند ہوگئی۔ عادتاً، سب سے پہلے پیٹرول چیک کی لیکن ٹینکی میں کافی پیٹرول تھا۔

افطار میں اب فقط دس منٹ رہ گئے تھے اور اس وقت کسی مستری کا ملنا تقریباً ناممکن۔ میں اپنے موٹر سائیکل کو گھسیٹتے ہوئے کچھ دور چلا تھا کہ ایک دکان پر نظر پڑی۔ مستری نے موٹر سائیکل کھڑی کرنے کا کہا اور مجھے اپنے ساتھ افطار کرنے کی دعوت دی۔ میں شکریہ ادا کرکے سائیڈ پر ہوگیا تاکہ وہ تسلی سے اپنا افطار کر سکیں۔ کچھ دیر بعد اذانیں شروع ہوئی اور مستری کی دکان سے ایک بچہ ایک گلاس شربت کا تھما گیا۔ شربت پی کے نزدیکی پرچون دکان سے میں نے پانی کی بوتل خریدی اور وہیں پر انتظار کرنے لگا۔

پندرہ بیس منٹ بعد مستری دکان سے باہر آیا۔ موٹر سائیکل چیک کی اور کہا کہ کام زیادہ ہے۔ مجھے اگلے دن آنا ہوگا۔ اب چاروناچار مجھے رکشہ کرکے گھر جانا تھا۔ اذانوں کے ساتھ ہی ایسا سناٹا طاری ہوگیا جیسے کرفیو نافذ کردی گیا ہو۔ رکشہ تو ایک طرف، پیدل چلنے والے بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ تقریباً بیس منٹ کی انتظار کے بعد ایک رکشہ نظر آیا۔ چونکہ ہمارا گھر شہر سے تھوڑا باہر ہے اس لئے ایک بے یقینی کے ساتھ رکشہ ڈرائیور سے پوچھا، ”کیا اس طرف جاؤ گے؟

 آدمی عجب ہشاش بشاش تھا اور لہجے میں عجیب سی بے فکری، ”ہمارا کام جانا ہے آپ جدھر بولوگے، جائیں گے“ ۔ کرایہ بھی نہایت مناسب بتایا حالانکہ اس وقت وہ منہ مانگا کرایہ وصول کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ اب مجھے اگلی صبح کی فکر ستانے لگی۔ رمضان کے دنوں میں جب میں صبح سویرے سکول کے لئے نکلتا ہوں تو سڑک پر نہ آدم زاد ہوتے ہیں نہ ہی کوئی سواری، میں نے اپنی تشویش رکشہ ڈرائیور کے گوش گزار کی تو وہ بولا  ”یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، میں اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے جاتا ہوں، کل آپ کو بھی یہیں سے لے لونگا“ میرے سر سے ایک بوجھ ہٹ گیا اور میں نے خلوص سے اس کا شکریہ ادا کیا۔

اگلی صبح مقررہ وقت پر میں گھر سے باہر نکلا۔ دو تین منٹ کے بعد رکشہ والا بھی پہنچ گیا۔ پیچھے دو پیارے اور مسکراتے بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ شاید باپ اور بیٹوں کے درمیان کوئی دلچسپ اور مزیدار گفتگو ہو رہی تھی تبھی تو بچے اب تک مسکرا رہے تھے اور وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشی بھی کرتے۔ میں جیسے ہی بیٹھنے لگا اس نے چھوٹے بچے کو آگے آنے کو کہا، میں نے اصرار بھی کیا کہ جگہ بہت ہے، بچے کو بیٹھنے دیں لیکن وہ بولا ”نہیں صاحب جب بھی سواری ہوتی ہے تو یہ آگے میرے ساتھ بیٹھ جاتا ہے“ دونوں بچے اتنے سویرے بھی بہت تازہ دم دکھ رہے تھے حالانکہ میں گاڑیوں میں بچوں کو سوتے ہوئے سکول جاتا دیکھتا ہوں۔

کچھ دیر بعد بچوں کا سکول آپہنچا۔ پھر میں نے وہ منظر دیکھا جو آج کل ناپید ہو چلا ہے۔ خاص کر ایسے رکشہ ڈرائیور تو اپنے بدمزاجی اور غصے کے لئے کافی بدنام ہیں دونوں بچے باری باری رج کے اپنے والد کے گلے ملے رکشہ ڈرائیور نے اپنے چھوٹے بچے کو گال پر پیار کیا اور دونوں بچے اسی طرح مسکراتے ہوئے اپنے سکول کو چل دیے۔ مجھے یاد ہے، دونوں بچے جب اپنے والد کے گلے مل رہے تھے تو ان کے چہروں پر عجیب طمانیت اور ٹھہراؤ تھا۔ ایسا لگتا تھا اپنے والد سے خوشیاں اپنے اندر منتقل کررہے ہوں۔

ہوسکتا ہے یہ منظر کچھ لوگوں کے لئے خاص اہمیت نہ رکھتا ہو مگر آج کے پریشان کن دور میں خوشیوں کے ایسے والہانہ جذبات دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے میں اس پڑھے لکھے طبقے کی بات کروں گا جس کا میں خود بھی حصہ ہوں۔ ہم بچوں کی تربیت کی کتابیں پڑھتے ہیں، ٹریننگ پروگرامز میں شریک ہوتے ہیں، اوروں کو اس بارے میں نصیحتیں کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس بارے میں بہت متاثر کن چیزیں ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں، ہمیں یہ اچھی طرح علم ہے کہ بچوں کو گلے لگانا، ان کو پیار کرنا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا، ان کو خوشگوار ماحول مہیا کرنا اور ان سے مسکرا کر ملنا ان کی روحانی اور جذباتی شخصیت کے لئے کس قدر اہم ہے۔

مگر یہ سب جانتے بوجھتے ہم ان باتوں پر کس قدر عمل کرتے ہیں اس سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ ہمیں ہزاروں طرح کی پریشانیوں اور تشویش نے گھیرا ہوتا ہے اور ہمیں احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ ہم اپنی پریشانیوں میں اپنے بچوں کو وہ سب نہیں دے پا رہے ہوتے ہیں جن کے وہ مستحق ہیں۔ ایسے مناظر دیکھتا ہوں کہ پریشان والدین گاڑی میں خاموشی سے بیٹھے ہیں اور پچھلی سیٹ پر بچہ ان سے بھی زیادہ پریشان بیٹھا ہوتا ہے۔ محبت بانٹنا اور وصول کرنا آپ کو کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی مالا مال کر جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).