وادیِ عشق و من ۔ چراغ کے لے کہاں سامنے ہوا کے چلے


عمارت کے بعد میں نے ہوٹل کے عملے اور دوسرے مسافروں کے بارے میں پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ عملے کے دو لوگ ہیں اور مسافر ایک۔ یعنی وہی راقم الحروف جو کہیں پیچھا نہیں چھوڑتا، میرے ساتھ چپک کر ہر سفر میں ساتھ آجاتا ہے۔

اس قلیل مقدار کی وجہ سے ہم سب کو کئی کردار مل گئے۔ سکندر علی منیجر بھی تھے اور رسیپشنسٹ بھی۔ شیر نواز کھانے پکانے کے ساتھ باقی تمام کاموں کا ذمہ دار یہ کپڑے دھو دے گا اور استری بھی کردے گا۔ میرے لیے بھی کردار متین ہوگئے، کیونکہ اگلی صبح گاؤں کے چند لوگ یہ دیکھنے کے لیے آئے کہ ہوٹل میں ایک ٹورسٹ پہنچ چکا ہے۔ جس طرح کراچی کی بسوں میں ایک ”لیڈیز“ کے آنے سے مخصوص سیٹ بھر جاتی ہے اور بس روانہ ہوسکتی ہے۔ اب میں وہ پہلا پرندہ تھا جو ٹورسٹ سیزن کا آغاز کر سکتا تھا۔ میں نے اتنے لوگوں کو اپنی طرف دل چسپی اور توّقع کے ساتھ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ان معصوم مسکراتے چہروں کی طرف دیکھ کر میں نے اپنے اوپر شکرانہ بھیجا۔

لوگوں کو دیکھ کر مسکرانا یہاں معمول ہے۔ اچانک جیسے احساس ہوا کہ میں اجنبی نہیں ہوں، لوگ سلام کرتے ہیں، ہاتھ ملاتے ہیں اور پھر پوچھتے ہیں کہ کوئی خدمت کا موقع دیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ افطاری، چائے یا پھلوں کے لیے دعوت دیں اور اپنے گھروں کے دروازے بھی کھول دیں۔

جس پہلی بُری عادت نے یہاں آتے ہی میرا ساتھ چھوڑا، وہ موبائل فون تھا۔ بلکہ راستے میں اندازہ ہوگیا تھا کہ انٹرنیٹ بند ہوگیا ہے۔ جو نیٹ ورک میں استعمال کرتا تھا اس کے سگنل یہاں نہیں آتے اور میں خاص طور پر جو ڈبیا خرید کر لایا تھا، وہ یہاں کی اسپیڈ سے دوگنی تیز ہے۔ یہاں یہ اسپیڈ ابھی پہنچنے میں وقت لگے گا۔ فون بند ہوگیا تو سکون کا سانس لیا۔ پھر خیال آیا کہ فیس بک کی ہمہ وقت موجودگی سے نجات ملی تو جن لوگوں کو پیچھے چھوڑ آیا ہوں، ان کو اطلاع بھی تو دینا ہوگی۔ اگلے دن بازار سے مقامی فون کا پیکیج لیا تو فون پر رابطہ اس طرح بحال ہوگیا کہ چند ضروری اور بیش تر غیرضروری اشخاص کو اطلاع دینا پڑی کہ یہ نیا نامعلوم نمبر میرا ہے، اس سے آنے والی کال وصول کر لیجیے۔ نیٹ کا مسئلہ بدستور برقرار رہا۔ چٹورکھنڈ میں سگنلز کی بتّی سبز ہوجاتی اور فیس بک جاری ہوجاتی۔ اس دوران میں اپنی تصویریں ڈاؤن لوڈ کرسکتا تھا کہ لوگوں کو بار بار وہی تفصیلات نہ بتانا پڑیں۔

دل تو یہی چاہ رہا تھا مگر فوراً پلنگ پر لیٹنا بے تکلفی معلوم ہوئی۔ اس لیے کرسی گھسیٹ کر لان پر بیٹھ گیا۔ پیڑوں میں ہوا کی وجہ سے پتّے سرسرا رہے تھے اور ان کی مستقل آواز یہاں کا واحد شور تھی۔ ہوا کی یہ آواز بارش کی پیشنگوئی نہیں ہے، میں نے اطمینان کرلیا۔

درختوں کے پتّوں اور شاخوں کی آواز رات گئے تک آتی رہی۔ رات کو ساری بتیاں بُجھ گئیں اور دروازے بھیڑ دیے گئے تو مجھ کو وحشت کا سامنا ہوا۔ ودرنگ ہائٹس میں رات کے وقت کھڑکی پر دستک دیتی شاخ یاد آرہی تھی اور ٹوکل اے ماکنگ برڈ کے شروع میں پرانے مکانوں کی چرچراتی آوازیں جو ان دونوں بچّوں کو آسیب کی طرح معلوم ہوتی ہیں۔ ہوا پیڑوں سے سنسناتی رہی، سائیں سائیں کرتی رہی۔ مگر یہ آواز تو دن بھر جاری رہتی ہے اور اس میں رلی ملی بہتے پانی کی آواز جس سے آپ کہیں بھی دور نہیں ہونے پاتے۔

رات آئی اور ہوا کی سن سن، پانی کی ترل ترل میں میرے سارے عذاب جاگے جن کو میں پیچھے چھوڑ کر آنے میں کامیاب نہیں ہوا۔

لان میں اس آرائشی شیر کی پتھرائی ہوئی سرخ آنکھوں میں ایک ملگجا پن تھا۔ تم اس کی آواز میں بول رہی ہو۔ تم غرّا رہی ہو۔ تم پھاڑ کھانے کے لیے بے تاب ہو۔ تم میری بوٹیاں نوچ لینا چاہتی ہو۔ تمہارے نکیلے دانت باہر نکل آئے ہیں اور تمہاری کھردری زبان لال ہے۔

تم بند دروازے پار کرکے اس طرح آنکلتی ہو۔ میرے بستر کے چاروں طرف گھوم رہی ہو۔ مجھے بے خوابی اور خوف کے ایک جزیرے میں قید کردیا ہے۔ اس غیرمرئی قیدخانے کی سلاخیں شیر کی دھاریوں کی طرح ہیں جو میری آنکھوں میں اتری جارہی ہیں، میرے سینے میں گڑی جارہی ہیں۔

صبح کے آثار ہوئے تو میں نے اپنے آپ کو دوبارہ جوڑا۔

رات کو بارش ہوئی تھی؟ میں صبح سویرے پوچھتا ہوں۔

بارش نہیں ہوئی۔ چھت پر چوہے ہیں، ان کے دوڑنے بھاگنے کی آواز آتی ہے۔ چوہے۔ یہ بھی خوب رہی! میں اس آرائشی شیر کی تصویر کھینچ لیتا ہوں جس میں وہ مُنھ پھاڑے ہوئے ہے اور اس کے پیچھے کوڑا جمع کرنے کی جگہ جس میں خالی ڈبّے پڑے ہوئے ہیں۔ اتنی خوبصورت جگہ میں بھی کوڑا تو جمع ہوتا ہے۔

لان پر دھوپ میں کرسی بچھائے کتاب پڑھتے ہوئے دیکھ کر گمان ہوا ہوگا کہ مجھے کمپنی کی ضرورت ہے۔ سکندر علی نے بتایا کہ اس ہوٹل کو قائم کیے ہوئے سال بھر نہیں گزرا ہوگا۔ تین چار لوگوں نے مل کر یہ پارٹنرشپ کی ہے ورنہ اس سے پہلے یہ عمارت خالی تھی کہ اس کے مالک اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ سیزن میں غیرملکی سیاحوں کے لیے ٹورگائڈز کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ٹورگائڈ بھی موجود ہیں مگر اپنی گنجائش سے زیادہ لوگوں کو یہاں لے نہیں سکتے۔ فیس بک پر انھوں نے ایک صفحہ بنایا ہوا ہے جس سے مجھے بھی ان کے بارے میں پتہ چلا۔

سردی میں شدید برف باری ہوتی ہے اور پہاڑوں پر سے مقامی لوگ اُتر کر یہاں آجاتے ہیں۔ آپ نومبر کے بعد یہاں آنے کا کبھی نہ سوچنا، مجھے خبردار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ میں نومبر سے پہلے بھی آنے کا کون سا سوچ رہا تھا۔

نہیں، مگر سوچا تو جاسکتا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ یہ جگہ اس طرح کی ریٹریٹ کے لیے آئیڈیل ہے۔ آپ اپنا کوئی منصوبہ لے کر یہاں آجائیں اور تین چار مہینے رہ کر اس پر کام کریں۔ جیسے لکھنے والوں، پڑھنے والوں، سوچنے والوں کے لیے باقی ساری دنیا میں ہوتی ہیں۔ رائٹرز، فیلوشپ، یا ریزی ڈینس۔ یہ جگہ فکر کو انگیخت کرنے کے لیے عین مناسب ہے۔ مگر یہ خیال بھی اس وقت انہونی سی معلوم ہوتا ہے۔ یہی غنیمت ہے کہ یہاں جگہ مل رہی ہے، فراغت ہے۔ دھکّم پیل نہیں ہے۔ کوئی دن جاتا ہے یہ بھی مری اور ہنزہ کی طرح ہو کر رہ جائے گی۔ پھر میں کہاں جاؤں گا؟ کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد؟ یہ خیال دل کو بھایا نہیں اس لیے میں کاغذ سمیٹ کر باہر نکلنے کے لیے تیار ہوگیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3