وادیِ عشق و من ۔ چراغ کے لے کہاں سامنے ہوا کے چلے


ڈائین کا پہاڑی نالہ اور نیچے کی طرف ٹراؤٹ فارم، یہ دونوں جگہیں آج مجھے سکندر علی نے دکھائیں۔ چٹورکھنڈ کے بازار سے گزرتے ہوئے۔ جو شاید یہاں کائنات کا مرکز ہے کہ جہاں کا قصہ کرد پہلے وہ آن موجود ہوتا ہے۔ ایک پہاڑی راستے پر جہاں گاڑی چل سکے، اس کے بعد راستہ جو پہلے پہل اونچا نہیں معلوم ہوتا۔ جہاں زیب ٹور آپریٹر ہے اور وہ ہمارے ساتھ چل رہا ہے بلکہ ہم سے دو قدم آگے۔ راستے میں مکانوں کے درمیان کھیت اور درخت ہیں۔ میں حیرت کے ساتھ اخروٹ، ناشپاتی اور شہتوت کے درختوں کے ساتھ رُکتا ہوں۔ ان میں سے ابھی صرف شہتوت پکّے ہیں، کالے کالے اور بے حد میٹھے۔ ایک موڑ سے آگے پہاڑی نالہ جو آبشار کی صورت پہاڑ کی بلندی سے بہہ رہا ہے، اس نیچے کی طرف جارہا ہے۔ اس میں ہاتھ ڈال کر دیکھتا ہو کہ بالکل یخ ہے، اتنا کہ ہاتھ جم کر رہ جائیں اور پاؤں اس میں ڈبو دوں تو پاؤں پتھر کے ہو جائیں، ٹھنڈے پتھر۔ میں یہاں تک تو آگیا لیکن اس سے آگے چٹانیں نکیلی اور عمودی تھیں، اپنے ساتھیوں کی دعورت سے انکار کرتے ہوئے میں وہیں ایک پتھر پر ٹک گیا اور ان کو اطلاع دی کہ میں یہیں ٹھیک ہوں۔ وہ بڑی روانی کے ساتھ آگے چلتے گئے جہاں ان کے بقول برف کا موسم اور درجۂ حرارت ہے۔ میں اسی چشمے میں اپنے پاؤں کو برف بنتے ہوئے دیکھتا رہا۔ برف پاؤں سے اوپر آنے لگی تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔

ٹراؤٹ سے تجدید تعارف رات کے کھانے پر ہوگیا تھا۔ یہاں کی خاص چیز ہے۔ شیرنواز نے بتانا ضروری سمجھا کہ مختلف طریقوں سے پکا کر مجھے کھلائے گا۔ سکندر علی نے صرف کھانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ مآخذ تک جانے کے قائل تھے۔ سڑک کے ایک طرف اُترائی میں تالاب، جن میں مچھلیاں مختلف درجوں میں موجود ہیں۔ ان کو ایک تالاب سے دوسرے تالاب میں عمر کے مطابق لایا جاتا ہے۔ مچھلی کی پیداوار اور خصوصیات کے بارے میں وہ بہت سی تفصیلات بتانے لگے مگر میرا ارادہ صرف مچھلی کھانے تک کا تھا، اس لیے میں نے زیادہ توجہ سے نہیں سُنا کہ ان مچھلیوں کے لیے خاص غذا کیسے تیار کی جاتی ہے اور پھر جال ڈال کر الگ الگ تالابوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ذرا ہی دیر میں ان کے ہاتھوں میں ایک زندہ مچھلی پھڑک رہی تھی۔ اپنی آنکھوں سے سامنے دیکھے جارہی تھی اور مُنھ کھول کر شاید سانس لے رہی تھی۔ اس کے پکڑنے سے مجھے خوشی نہیں ہوئی اور میں نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لیے۔

چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کے تالاب میں اپنے آپ کو ان کے سپرد کرنا زیادہ اچھا لگا۔ پاؤں پانی میں ڈال کر بیٹھ جائیے اور ذرا دیر میں مچھلیاں پاؤں کترنے لگیں گی۔ وہ کاٹتی نہیں ہیں اور آدم خور نہیں ہوتیں۔ پاؤں کی مُردہ کھال ضرور صاف ہوگئی۔ چھوٹے چھوٹے مُنھ سے وہ پاؤں کی طرف آرہی تھیں تو ایک گدگدی سی ہورہی تھی۔ وہ بڑی تھی وہی سے میرے پاؤں پر مصروف عمل رہیں اور میں ان کو دیکھے گیا۔ پھر بقول شاعر، اگلا پاؤں نئے پانی میں۔

ابھی پچھلی ساری باتیں باقی ہیں۔

نہ ہدہد میرے لیے نشانی کا پیامبر ہے نہ یہ وادی میرے لیے عشق کی بازیافت کی وادی ثابت ہورہی ہے۔ اس احوال میں نئی چیزوں کی حیرت کے علاوہ اور دیگر معاملات بھی درج ہونے چاہئیں۔ اکتاہٹ، بے زاری، اچانک سردی پر میری بے حواسی، بارش کے دوران اندر بیٹھے رہنے پر اصرار، نئے کھانے، ڈائریا، تھکاوٹ، پیسوں کے معاملے میں میری ہمیشہ کی طرح بدانتظامی، اپنے آپ سے سوال کہ بستر میں لپٹ کر ناول ہی پڑھنا تھا تو یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی، مان لیا کہ اسامہ صدیق کا ناول تہہ دار ہے، بے خوابی، کندھے میں درد کہ کسی پہلو چین نہ آئے، ڈکاریں، بدہضمی، کراچی سے ملنے والی ایک ناگہانی موت کی اطلاع، آنسو اور بے بسی، تلملاہٹ، یہاں آنے سے پہلے ٹیلی فون اسکرین پر مسعود اشعر کا اخباری کالم پڑھا تھا۔ چڑیا اور چڑے کی کہانی۔ دونوں نے مل کر کھچڑی پکائی۔ پھر چڑچڑے ہوگئے۔ میں چونک پڑتا ہوں۔ یہ سفر کتنا باقی ہے؟

چٹورکھنڈ کا بازار لمبوتری شکل کا ہے جس کے دونوں طرف دکانیں ہیں۔ نئے شاپنگ سینٹرز اور سلے سلائے کپڑوں کی دوکانیں اپنی جگہ بنارہی ہیں۔ حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ چٹورکھنڈ کے بورڈ کے اگلے چنار کا درخت مجھے دکھایا گیا کہ تارڑ صاحب نے اپنے سفر نامے میں ان درختوں کا ذکر کیا ہے۔ میں اس درخت کے چوڑے تنے پر اپنا ہاتھ رکھ دیتا ہوں۔

پھر آگے چل پڑتا ہوں۔ تھوڑی دیر میں دوپہر کی یہ دھوپ بھی ڈھل جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3