چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی: کیا یہ اتنا ہی آسان ہے جتنا بظاہر نظر آ رہا ہے؟


صادق سنجرانی

موجودہ سینیٹ چیئرمین کو ہٹانے کے لیے کوشاں پیپلز پارٹی ان کے انتخاب کے معاملے میں پیش پیش تھی

اسلام آباد میں بدھ کو منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں ایک نکتے پر متفق نظر آئیں اور وہ یہ کہ سینیٹ کے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی کو ان کو عہدے سے ہٹایا جائے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں بھی بجٹ اجلاس کے دوران حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اراکین ایک دوسرے سے اس بارے میں مشاورت کرتے نظر آئے۔

صادق سنجرانی کی تبدیلی بظاہر جتنی آسان دکھائی دے رہی ہے کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے؟

یہ بھی پڑھیے

سینیٹ کی چیئرمینی اور بدتمیز بجوکا

سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کون ہیں؟

آل پارٹیز کانفرنس:’حکومت ملکی سلامتی کے لیے خطرہ‘

اس بارے میں سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اے پی سے نے جو فیصلہ لیا اس پر عمل درآمد تمام جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہ کب اور کیسے ہونا ہے، نیا امیدوار کون ہو گا اور اس کو کب ڈھونڈا جائے گا اس میں ہو سکتا ہے کہ کچھ وقت لگے۔‘

اس سوال پر کہ سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا ہے ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ’آپ کو بھی پتا ہے کہ سینیٹ چیئرمین کیسے اور کس طرح آئے مگر اس طرح کے فیصلے ہوتے رہتے ہیں۔ سیاست میں کسی کی بھی مستقل پوسٹ نہیں ہوتی اور اسی طرح کوئی مستقل فیصلہ نہیں ہوتا۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ایک احساس یہ بھی ہے کہ ایک غلط فیصلہ کیا گیا (چیئرمین کی تعیناتی) اب اس کی تصحیح کرنا چاہ رہے ہیں۔`

یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ سینیٹ کے موجودہ چیئرمین کو ہٹانے کے لیے کوشاں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری ان کے انتخاب کے معاملے میں پیش پیش تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب اپوزیشن کی تمام جماعتیں پی پی پی کے سینیٹر میاں رضا ربانی کو چیئرمین بنانے کے لیے متفق تھیں لیکن اس کے باوجود ان کی اپنی ہی پارٹی کے رضا ربانی کو چھوڑ کر آصف علی زرداری کی منشا کے مطابق صادق سنجرانی کی حمایت کی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حمایت کی وجہ سے صادق سنجرانی مطلوبہ تعداد میں ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے اور وہ چیئرمین منتخب ہوئے۔

ایاز صادق

’سیاست میں کسی کی بھی مستقل پوسٹ نہیں ہوتی اور اسی طرح کوئی مستقل فیصلہ نہیں ہوتا‘

اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی رہنما ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ ’اب محرکات بدل گئے ہیں۔ جو کل حزبِ اختلاف میں تھے وہ آج حکومت میں ہیں اور اس وقت پیپلز پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ اپوزیشن میں تھی، تو ہم نے یہ فیصلہ لیا۔ لیکن اب پی ٹی آئی حکومت میں ہے اور اب ہم اپوزیشن میں ہیں تو اصول یہی ہے کہ اب موجودہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر فیصلہ کریں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب اگر ہمارے پاس مطلوبہ نمبرز ہیں تو ہم کیوں نا نیا چیئرمین سینیٹ منتخب کریں؟‘

سینیٹ چیئرمین کو ہٹانے کا طریقہ کار کیا ہے؟

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے پاس اس وقت چیئرمین صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لیے عدم اعتماد کی تحریک لانے کا آپشن موجود ہے۔

اسلام آباد میں منعقدہ اے پی سی میں اس بارے میں ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو صادق سنجرانی کا متبادل ڈھونڈنے کے بارے میں تجاویز دے گی۔

سینیٹ کے اراکین کی کل تعداد 104 ہے۔ سینیٹ چیئرمین کی تبدیلی کے لیے 53 اراکین کے ووٹ درکار ہوں گے۔

اس وقت سینیٹ میں پارٹی پوزیشن کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نواز، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتوں کے ارکان کی کل تعداد 66 ہے جبکہ حکومتی اتحاد کے سینیٹرز کی تعداد صرف 38 ہے۔

بظاہر تو یہ بہت سادہ معاملہ لگتا ہے تاہم اس بارے میں ایاز صادق نے کہا کہ ’اس وقت چند سیاسی جماعتیں ہیں جو ہمارے ساتھ نہیں ہیں لیکن ان لوگوں نے بھی ووٹ دینے کی حامی بھری ہے۔‘

یاد رہے کہ جب ایک ماہ پہلے اسی قسم کی تحریک چلی تھی تب مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے انکار کیا تھا۔

اب بھی دونوں جماعتوں میں ایسے ارکان ہیں جو چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے پر متفق نہیں۔ اسی بارے میں مسلم لیگ نواز کے ایک سینیئر رہنما نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک وقت سے پہلے لیا گیا فیصلہ ہے جس پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔‘

فردوس عاشق اعوان

’اس کانفرنس میں شامل تمام رہنما اپنے خودغرضانہ ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں’

پارلیمان کی کارروائی پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی ایم بی سومرو کا کہنا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک رد ہونی ہے تو اس کے لیے مسلم لیگ نواز یا پیپلز پارٹی کے ارکان کا اس تحریک کی حمایت نہ کرنا لازم ہے۔

’اگر دونوں پارٹیاں نہیں ٹوٹتیں تو سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک رد ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔‘

حکومت کیا سوچ رہی ہے؟

سینیٹ چیئرمین کو ہٹانے کے منصوبے پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ وہ ’اپوزیشن کے منفی ایجنڈے کو مسترد کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کسی کی خواہشات کے تابع ملک نہیں چلایا جا سکتا۔

اے پی سی کے بعد ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ اس کانفرنس میں شامل تمام رہنما اپنے خودغرضانہ ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اسفند یار ولی نے (چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا مطالبہ کر کے) پیپلز پارٹی کے پشت میں خنجر گھونپا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی ہی تو وہ جماعت تھی جو موجودہ چیئرمین کے انتخاب میں شامل تھی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp