مولانا فضل الرحمان کی ازخود چلائی ’’عوامی تحریک‘‘


مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں سے خوف آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب کی سیاسی بصیرت کا مگر دل سے معتقد ہوں۔ بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا احساس ہے کہ وہ مزاحمت کی اس سیاست کے جانشین ہیں جو برطانوی استعمار کے عروج کے دنوں میں ہمارے علمائے کرام کے ایک گروہ نے انتہائی ثابت قدمی سے اختیار کی تھی۔ اس سیاست میں اقتدار کے کھیل پر توجہ نہیں دی جاتی۔

مولانا اور ان کی جماعت مگر جدید دور کے تقاضوں کو بخوبی جانتی ہے۔آئینی ڈھانچے کا احترام کرتے ہوئے ووٹ کی طاقت سے حکومت میں آنا چاہتے ہیں۔دین کی ایسی توجیہہ سے گریز اختیار کئے ہوئے ہیں جو سادہ لوح مسلمانوں کو ’’کافرانہ نظام‘‘ پر مبنی ریاستی ڈھانچے کو پُرتشدد کارروائیوں کے ذریعے مسمار کرنے پر اُکساتے ہیں۔اسی سوچ کے باعث مذہب کے نام پر انتہا پسندی کو فروغ دینے والوں نے مولانا فضل الرحمن کو دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا ۔مولانا کی خوش قسمتی کہ وہ محفوظ رہے۔

مولانا فضل الرحمن کو میری ’’لبرل نما‘‘ سوچ کا بخوبی علم ہے۔ وہ میری کج بحثی کو مسکراتے ہوئے برداشت کرتے ہیں۔ ’’حساس ترین‘‘ سیاسی ایام کے دوران جب بھی ان سے ملاقات ہوئی اپنا نقطہ نظر انہوں نے بہت تفصیل سے بیان کیا۔ ان کی بدولت ’’اندر کی کئی خبریں‘‘ بھی معلوم ہوئیں۔ میں نے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کو صحافتی اخلاقیات کے سبب شہ سرخیاں بنانے سے گریز کیا۔اقتدار کے کھیل کو مگر طویل المدتی تناظر میں سمجھنے میں بہت آسانی ہوئی۔

ضرورت سے زیادہ طویل تمہید کے بعد یہ اعتراف کرنا بھی ضروری ہے کہ میری دانست میں 2018 کے انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمن نے انتہائی غیر لچک داررویہ اختیار کررکھا ہے۔ میں بدترین حالا ت میں بھی ان سے ایسے رویے کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ قابل اطمینان مگر یہ حقیقت بھی ہے کہ اپنے تمام تر غصے کے باوجود مولانا ابھی تک انتہا پسندی کی وہ راہ اپنانے کو مائل نہیں جو دین کے نام پر سیاست کرنے والی کئی جماعتوں یا گروہوں نے اختیار کی۔

مولانا چند ٹھوس دلائل کی بنیاد پر عمران خان کی موجودہ حکومت کو ’’جعلی اور مسلط شدہ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس حکومت کو لہٰذا فی الفور گھربھیجنا چاہتے ہیں۔اپنی خواہش کو بروئے کار لانے کے لئے جو حکمت عملی وہ ان دنوں اپنائے ہوئے ہیں میری ناقص رائے میں لیکن فی الوقت انگریزی زبان والی Doable نہیں۔ یہ سوچ برحق کہ اگر پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے 120 سے زیادہ اراکین قومی اسمبلی موجودہ بندوبست کو ’’جعلی اور مسلط شدہ‘‘ قرار دے کر اپنی نشستوں سے مستعفی ہوجائیں تو شدید سیاسی بحران پیدا ہوجائے گا۔

بسااوقات ایک ضمنی انتخاب بھی اچھی خاصی تگڑی حکومت کی چولیں ہلادیتا ہے۔120سے زائد نشستوں پر ضمنی انتخاب کی کوشش عمران حکومت کو دن میں تارے دیکھنے پر مجبور کرسکتی ہے۔پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پا رٹی مگر یہ بحران پیدا کرنے کو تیار نہیں۔ فرض کیا شہباز شریف اور ان کے ساتھی مولانا کی خواہش پر اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہ اٹھاتے تو عمران خان صاحب کو بھی تقریباََ خالی نظر آتے ایوان میں وزیر اعظم ’’منتخب‘‘ ہونا بہت شرمندہ کرتا۔

شاید اس وجہ سے صوبائی اسمبلیاں بھی اپنی وقعت کھودیتیں۔ ایسا ہوتا تو پیپلز پارٹی بھی سندھ میں تیسری بار اپنی حکومت قائم نہ کرپاتی۔ سندھ میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لئے 25جولائی 2018کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنا پیپلز پارٹی کی مجبوری تھی۔ اس جماعت کے اراکین نے 1997میں بھی صرف 18نشستیں حاصل کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں رکنیت کا حلف اٹھایا تھا۔ حالانکہ ان انتخابات کی بدولت اسے سندھ میں بھی حکومت نصیب نہیں ہوئی تھی۔

شہباز شریف قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کی وجہ سے اس ایوان کے قائدِ حزب اختلاف منتخب ہوئے۔اس منصب کی بدولت نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے باوجود انہیں سپیکر کے حکم پر قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں لانا پڑا۔ یہ عہدہ بعدازاں انہیں قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب کروانے میں بھی مددگار ثابت ہوا۔ حالانکہ تحریک انصاف کے جذباتی کارکنوں کی اکثریت دہائی مچاتی رہی کہ ’’بلّے کو دودھ کی رکھوالی‘‘ پر کیسے تعینات کیا جاسکتا ہے۔

خواجہ سعد رفیق بھی قومی اسمبلی کے رکن ہونے کی وجہ سے نیب کی حراست اور اب جیل سے اس ادارے کے اجلاسوں میں شرکت کے لئے آتے ہیں۔ شاید آنے والے دنوں میں اس سہولت سے شاہد خاقان عباسی اور دیگر کئی لیگی رہ نمائوں کو بھی فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس ہو۔ اس سہولت کے بغیر شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق جیسے لوگ شاید کئی مہینوں تک جیل میں رہنے کے سبب سیاسی منظرنامے سے غائب ہوجاتے۔ عمران خان صاحب کی حکومت کے لئے ’’گلیاں سنجیاں‘‘ ہوجاتیں۔آصف علی زرداری بھی مذکورہ سہولت کے سبب

ان دنوں پارلیمان میں صحافیوں سے گپ شپ لگانے کے لئے میسر ہوتے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔وہ ایوان میں جب کوئی نکتہ اٹھانے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو 24/7چینلوں کی بدولت عوام کی اکثریت تک انکا پیغام پہنچ جاتا ہے۔ گھروں میں بیٹھے لاکھوں لوگوں تک رسائی نصیب ہوجاتی ہے۔قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے بلاول بھٹو زرداری کو ہر روز کسی نہ کسی شہر میں کسی جلسے سے خطاب کرنا ہوگا۔ اس بات کی مگر کوئی ضمانت نہیں کہ جلسوں میں ہوئی ان کی تقاریر کو24/7چینل براہِ راست دکھانا چاہیں گے یا ’’دکھاپائیں گے‘‘ ۔

قومی اسمبلی کے اجلاس پر Live جانا نشریاتی اداروں کے لئے نسبتاََ آسان اور ’’پروفیشنل‘‘ تقاضہ بھی ہوتا ہے۔مولانا فضل الرحمن پاکستان کی سیاسی حرکیات (Dynamics) کو مجھ سے کہیں بہتر سمجھتے ہیں۔ ’’عوامی تحریک‘‘ کی بدولت فقط 1977میں ایک حکومت فارغ ہوئی تھی۔اس فراغت کی وجہ سے سیاست دانوں کو مگر کچھ نہیں ملا تھا۔گیارہ برس جنرل ضیاء کی آمریت برداشت کرنا پڑی۔ شاید اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے مشرف حکومت سے 2002کے انتخابات کے بعدمیری دانست میں سیاسی اعتبار سے ’’ضروری‘‘ شمار ہوتے سمجھوتے کئے۔

اُن دنوں کے سرحد اور آج کے خیبرپختونخواہ میں پانچ سال حکومت کی اور بلوچستان حکومت میں گرانقدر حصہ وصول کیا۔ہمارے ہاں آخری ’’عوامی تحریک‘‘ مشرف دور میں چلائی’’عدلیہ بحالی تحریک‘‘ تھی۔ اس تحریک کو مگر ’’ایمرجنسی پلس‘‘ کے ذریعے جنر ل مشرف نے غیر مؤثر بنادیا تھا۔ اس کے باوجود امریکی دبائو کی وجہ سے وہ نئے انتخابات کروانے پر مجبور ہوا۔ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے دستبردار ہوا۔ 2008میں ہوئے انتخابات کی بدولت ہی اسے ایوان صدر سے نکالنے کی راہ بنی۔

شدید مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بازار پر چھائی مسلسل مندی یقینا عمران حکومت کے خلاف ’’عوامی تحریک‘‘ کے امکانات کو ٹھوس مواد فراہم کر رہی ہے۔ IMFمگر عالمی Establishment کا نمائندہ ہے۔ عمران حکومت نے پاکستانی معیشت کی بحالی کے لئے اس کے تیار کردہ نسخے پر کامل عملدرآمد کا وعدہ کیا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کو افغانستان سے ’’باعزت واپسی‘‘ درکار ہے۔ عمران حکومت اس ضمن میں اس کی مدد کو تیار ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی ازخودچلائی ’’عوامی تحریک‘‘ عالمی قوتوں کو یہ پیغام دے گی کہ ’’مذہبی انتہا پسند‘‘ ایک ’’معقول‘‘ حکومت کو ’’پُرتشدد احتجاج‘‘ کے ذریعے گھر بھیجنا چاہ رہے ہیں۔ اقتدار میں ’’باریاں‘‘ لینے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی اس حوالے سے مجبوریاں لہٰذا سمجھ میں آتی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).