دہشت گردی کے نشانے پر پولیس اہلکار: ‘پہلے پتہ چلا کہ وہ زخمی ہوئے ہیں لیکن پھر۔۔۔‘
غلام مرتضٰی کے لیے پولیس میں ملازمت حاصل کرنے کا وہ آخری موقع تھا۔ درخواست جمع کروانے گئے تو چھوٹے بھائی علی رضا بھی ساتھ ہو لیے۔ دونوں بھائی بچپن ہی سے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔
دونوں کی عمر میں تین برس کا فرق تھا۔ 25 سالہ غلام مرتضٰی بڑے تھے۔ ان کی والدہ نظیراں بی بی کہتی ہیں ’وہ بھائی بھی تھے اور دوست بھی۔‘
دونوں کو نوکری ملی، ایک ساتھ ٹریننگ کی اور اکٹھے لاہور پولیس میں کانسٹیبل بھرتی ہوئے۔ صبح ملازمت پر اکٹھے جاتے، جانے سے پہلے اکٹھے موبائل پر تصویر بناتے اور پھر والدہ کی دعائیں لے کر نکل پڑتے۔
سنہ 2017 میں 24 جولائی کا دن آیا۔ اس روز انسدادِ فسادات فورس میں شامل یہ دونوں بھائی لاہور کے فیروزپور روڈ پر واقع ارفع کریم ٹاور کے قریب تجاوزات کے خلاف مہم کو حفاظت فراہم کرنے والوں میں شامل تھے۔
اسی جگہ پر موجود پولیس کے جوانوں کو ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیے
داتا دربار کے باہر دھماکے میں 10 افراد ہلاک
دہشتگردی: بلوچستان میں اضافہ، باقی ملک میں کمی
غلام مرتضٰی اور علی رضا کے والد چوہدری نظیر حسین کو بتایا گیا کہ دیگر پولیس اہلکاروں کے ساتھ ان کے دونوں بیٹے بھی زخمی ہوئے ہیں۔ وہ ہسپتال کی جانب دوڑ پڑے۔
’پہلے پتہ چلا کہ وہ زخمی ہوئے ہیں لیکن پھر۔۔۔‘
داروغہ والا میں اپنے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ایک احاطے میں موجود اپنے دونوں بیٹوں کی قبروں کے پاس کھڑے چوہدری نظیر حسین نے اپنے آنسو روکے اور بات بڑھائی۔
’اس وقت اتنا صدمہ ملا، مجھ سے بولا نہیں جا رہا تھا۔‘
نظیراں بی بی کو گھر پر ان کے بیٹے نے باہر سے آ کر بتایا ’ماں دونوں بھائی شہید ہو گئے۔‘
انھیں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دونوں اس روز بھی اکٹھے تھے۔
علی رضا کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ غلام مرتضٰی کی دو بیٹیاں ہیں۔ اب دونوں بچیاں اپنی والدہ کے ساتھ دادا دادی کے پاس ہی رہتی ہیں۔
نظیراں بی بی کہتی ہیں اب یہ بچے ان کی ذمہ داری ہیں۔ ان کی پرورش میں انھیں کوئی مالی مشکل نہیں ہے۔ ’بس دونوں بیٹوں کی یاد بڑی آتی ہے۔‘
پولیس آسان ہدف ثابت ہوتی ہے
پاکستان کے چاروں صوبوں میں پولیس کے سینکڑوں جوان دہشت گردی کے خلاف تقریباً دو دہائیوں سے جاری جنگ میں جان گنوا چکے ہیں۔
اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے پولیس کے اہلکار دہشت گردوں کے لیے آسان ہدف بھی ثابت ہوتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (آپریشنز) اشفاق احمد خان کا کہنا تھا ’پولیس کو عوام کی حفاظت کی خاطر باہر رہنا پڑتا ہے۔ اس کی کوئی دوسری صورت نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پولیس عوام کے دفاع کی پہلی لائن ہے۔‘
حال ہی میں دہشت گردی کے حملوں سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات نئے سرے سے بھی تجویز کیے گئے تاہم اشفاق احمد خان کی رائے میں ’پولیس کو پھر بھی اکٹھے کھڑا ہونا پڑتا ہے اور ایسے میں ان کے لیے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘
اگر عوام کے ہجوم میں شامل کوئی خود کش بمبار ان کی جانب بڑھتا ہے تو اسے روکنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال لاہور کے داتا دربار کے سامنے کھڑی ایلیٹ پولیس کی وہ گاڑی تھی جو ایسے ہی ایک خود کش بمبار کا نشانہ بنی۔
اس واقعے میں دس افراد ہلاک ہوئے جن میں پولیس کے چھ جوان جبکہ راہگیروں سمیت ایک سیکورٹی گارڈ رفاقت علی بھی شامل تھے۔
’وہ شہید ہیں اور شہید مرتا نہیں‘
ایسے حساس مقامات کی حفاظت پر مامور پولیس کے جوانوں کو اپنی حفاظت کا زیادہ یقین نہیں ہوتا۔
تاہم پولیس کے وہ جوان جو دہشت گردی کے ان واقعات میں ہلاک ہو جاتے ہیں، زندگی گزارنے کے لیے ان پر انحصار رکھنے والے ان کے لواحقین جیسے بیوی، بچوں یا ماں باپ کا کیا بنتا ہے؟
ان کے بچوں کی پرورش کیسے ہوتی ہے؟ کیا وہ تعلیم جاری رکھ پاتے ہیں؟ کیا ان کا مستقبل محفوظ ہوتا ہے؟
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور اشفاق احمد خان کہتے ہیں ’دہشت گردی کے واقعات میں مرنے والوں کو ہم مرا ہوا نہیں سمجھتے۔ وہ شہید ہیں اور شہید مرتا نہیں ہے۔‘
پنجاب کا پیکج
اسی مناسبت سے پنجاب پولیس نے دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے اپنے ملازمین کے لیے ایک خصوصی مالی پیکج بھی ترتیب دے رکھا ہے۔
صوبہ پنجاب میں کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل کے درجے کے پولیس اہلکاروں کے اہلِخانہ کو ان کی ماہانہ تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ انھیں ریٹائر ہونے کی عمر تک ملازم تصور کیا جاتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں اسی حساب سے پینشن بھی دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ لواحقین کو ایک کروڑ روپے معاوضہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔
پولیس کا محکمہ انھیں ایک کروڑ 35 لاکھ مالیت کا پانچ مرلے کا ایک گھر اور سات مرلے کا ایک پلاٹ بھی لے کر دیتا ہے۔
ان کے بچوں کی تعلیم پرائمری سے ایم اے تک مفت ہوتی ہے۔ انھیں بیس ہزار روپے ماہانہ ٹرانسپورٹ کی مد میں ملتا ہے جبکہ مرنے والے کو تمغہ شجاعت سے نوازا جاتا ہے۔ ان کی بیوہ یا کوئی ایک بچہ اہلیت کے اعتبار سے سرکاری نوکری بھی حاصل کر سکتا ہے۔
لواحقین کو ملنے والا معاوضہ پولیس اہلکار کے درجے سے منسلک ہوتا ہے۔ ایس پی اور ایس ایس پی درجے کے افسران کے لیے معاوضے کی رقم ایک کروڑ 80 لاکھ، انسپکٹر اور ڈی ایس پی کے لیے ڈیڑھ کروڑ اور سب انسپکٹر اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے لیے ایک کروڑ 25 لاکھ ہوتی ہے۔
ڈی آئی جی اور اس سے اوپر درجے کے پولیس افسران کے لیے معاوضے کی رقم دو کروڑ مقرر ہے۔ ان کے لیے گھر کی مالیت پانچ کروڑ اور پلاٹ کا سائز ایک کنال ہوتا ہے۔ ایک 1300 سی سی گاڑی بھی ان کے لواحقین کو خرید کر دی جاتی ہے۔
ماہانہ ایک لاکھ روپے ٹرانسپورٹ الاؤنس اس کے علاوہ ہے اور انھیں ستارہ شجاعت سے بھی نوازا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا کا پیکج
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں معاوضے کی رقم کو دو سال قبل بڑھا دیا گیا تھا۔
اب وہ بھی درجہ بہ درجہ پنجاب کے برابر ہے بلکہ خیبر پختونخوا میں ایس پی اور ایس ایس پی درجے کے افسران بھی 2 کروڑ روپے کے مستحق ہوتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں بھی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اہلکاروں کے اہل خانہ کو مکمل ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن بھی ملتی ہے۔ باقی مراعات بھی تقریباً صوبہ پنجاب سے ملتی جلتی ہیں۔
تاہم بچوں کے لیے سالانہ ایک مخصوص رقم درجے کے حساب سے مختص کی گئی ہے جبکہ پنجاب میں مرنے والوں کے بچوں کی تعلیم مکمل طور پر مفت ہوتی ہے۔
سندھ کا پیکج
صوبہ سندھ میں بھی معاوضے کی رقم کو گذشتہ برس بڑھایا گیا تھا جو سنہ 2002 میں محض تین لاکھ تھی لیکن اب ایک کروڑ روپے کر دی گئی ہے۔
تاہم دیگر صوبوں کے برعکس معاوضے کی یہ رقم تمام درجے کے پولیس اہلکاروں کے لیے یکساں ہے۔
ان ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی ماہانہ تنخواہ جاری رہتی ہے اور ان کے لواحقین کو ایک پلاٹ بھی دیا جاتا ہے۔
انھیں پولیس کے ویلفیئر یا بینیولنٹ فنڈ سے فوری معاوضے کے طور پر تین لاکھ روپے دیے جاتے ہیں جبکہ مرنے والے اہلکار کے دو بچوں کو 50، 50 ہزار روپے کی گرانٹ شادی کے لیے دی جاتی ہے۔ بچوں کو تعلیم کے لیے وظیفہ بھی ملتا ہے۔
بلوچستان کا پیکج
بلوچستان دہشت گردی کا نشانہ بننے والا بڑا صوبہ ہے۔
یہاں پولیس کے مطابق کانسٹیبل کی ہلاکت کے بعد معاوضے کی صورت میں ان کے ورثا کو 20 لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کی عمر تک خاندان کو تنخواہ ملتی رہتی ہے اور اہلیہ یا کسی بیٹے کو ملازمت دی جائے گی۔
اسی طرح سب انسپکٹر سے انسپکٹر درجے کے افسر کے ورثا کو 40 لاکھ روپے معاوضہ، ڈی ایس پی کے ورثا کو 50 لاکھ، ایس پی اور ایس ایس پی درجے کے افسران یا ان سے اوپر کو ڈیڑھ کروڑ روپے معاوضہ ملتا ہے۔
جو پولیس سے نہیں مگر کام وہی کرتے ہیں؟
پولیس اور فوج کے جوانوں کو ان کے کام کی نوعیت اور انھیں لاحق خطرات کے پیشِ نظر معاوضہ دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب دہشت گردی کا نشانہ بنے والے عام افراد کے لیے متعلقہ صوبائی حکومتیں وقتی پالیسیوں کے مطابق معاوضے کا اعلان کرتی رہتی ہیں۔
تاہم ایک طبقہ ایسا ہے جس کا کام کم از کم حساس عمارتوں یا اہم شخصیات کی حفاظت کے اعتبار سے پولیس سے ملتا جلتا ہے۔ یہ طبقہ نجی کمپنیوں میں ملازم سیکورٹی گارڈز کا ہے۔
لاہور کے داتا دربار کے دھماکے میں مرنے والے رفاقت علی بھی انھی افراد میں شامل ہیں۔ ایلیٹ فورس کے جوانوں کی طرح رفاقت علی بھی دربار کے دروازے پر روزانہ حفاظت کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔
رفاقت علی کی ماہانہ تنخواہ محض 8000 روپے تھی اور وہ بھی وقت پر نہیں ملتی تھی۔ اس وقت ان کی تین بیٹیاں نجی سکول میں زیر تعلیم تھیں۔ حال ہی میں ان کی بیوہ کو حکومتِ پنجاب کی جانب سے دس لاکھ روپے کا چیک دیا گیا۔
ان کے بھائی شوکت علی نے بی بی سی کو بتایا ’بعض حکومتی اور سیاسی شخصیات نے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ رفاقت علی کے بچوں کی پڑھائی کا خرچ بھی برداشت کیا جائے گا اور حکومت ان کے خاندان کی مزید مدد بھی کرے گی۔‘
تاہم یہ واضح نہیں کہ ایسے نجی کمپنیوں میں کام کرنے والے یہ افراد کن میں شمار ہوتے ہیں۔
کیا وہ حادثاتی طور پر ہلاک ہونے والوں میں شامل کیے جاتے ہیں یا اپنی جان خطرے میں ڈال کر جان گنوانے والوں میں؟
- صدام حسین کے ’سکڈ میزائلوں‘ سے ایرانی ڈرونز تک: اسرائیل پر عراق اور ایران کے براہ راست حملے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟ - 17/04/2024
- پنجاب میں 16 روپے کی روٹی: نئے نرخ کس بنیاد پر مقرر ہوئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا کتنا مشکل ہو گا؟ - 17/04/2024
- اسرائیل پر حملے سے ایران کو فائدہ ہوا یا نتن یاہو کو؟ - 17/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).