سراب کا مستقبل – سگمنڈ فرائیڈ کی کتاب کا ترجمہ اور تلخیص


اگر ا ن کے رہنما ایسے انسان ہوں جو باعمل اور اعلیٰ اقدار و کردار کے مالک ہوں، عوام ان کی عزت کرتے ہوں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیں۔ ایسی صورت میں عوام کے ایک صحتمندانہ اور منصفانہ زندگی کو اختیار کرنے کے زیادہ امکانات ہوسکتے ہیں۔ ایسے راہنماؤ ں اور لیڈروں سے ہمیں یہ امید ہوگی کہ انہیں عوام سے ہمدردی ہوگی اور وہ زندگی کی بصیرتیں رکھتے ہو ں گے۔ ایسے رہنماؤ ں کی موجودگی میں عوام کے لیے قوانین پر عمل کرنا آسان ہو جاتاہے۔ لیکن پھر بھی رہنماؤ ں کو تھوڑا بہت دباؤ تو ڈالنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ عوام بنیادی طور پر نہ تو سخت کام کرنا اور نہ ہی اپنی خواہشات کی تسکین کو ملتوی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے جذبات پر فوری عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بعض لوگ میرے ان خیالات پر اعتراض کریں گے اور کہیں گے کہ عوام پر دباؤ اسی لیے ڈالنا پڑتا ہے کیونکہ ہماری تہذیب اور ہمارے نظام میں بہت سی خامیاں ہیں۔ ایک مثالی معاشرے میں اس کی ضرورت نہ ہوگی۔ ہر شخص ایک صحتمند زندگی گزارے گا اور دوسروں کا استحصال نہ کرے گا۔ چونکہ ایسا معاشرہ قائم نہ ہوسکا ہے اس لیے غیرمنصفانہ نظام نے لوگوں کو غصیلا اور باٖغی بنا دیا ہے۔ اگر ہم اگلی نسلوں کے بچوں کی محبت، شفقت اور ایک ذمہ دارانہ ماحول پرورش کریں تو وہ ایک بہتر نظام کو تشکیل دیں گے۔ وہ نہ صرف اپنا کام ذمہ داری سے کریں گے بلکہ ایک دوسرے کی خواہشات اور حقوق کا احترام بھی کریں گے۔ اور اگر معاشرتی فلاح و بہود کے لیے قربانی کی ضرورت ہوگی تو خوشی سے قربانی بھی دیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ انسانی ارتقا کے جس مرحلے پر ہم انسانی زندگی گزار رہے ہیں، اس معاشرے میں کیا قربانیاں دینے والے عوام کی اور ایسے رہنماؤں کی امید رکھنا جو خدمتِ خلق کو اپنا فر یضہ سمجھیں اور قوموں کی صحتمند خطوط پر پرورش اور رہنمائی کریں اور ایسے معاشرے کو تشکیل دیں جہاں دباؤ اور جبر کی کم از کم ضرورت پیش آئے۔ میراخیال ہے کہ ہر دور میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا ہوگا جو خودغرضانہ اور مجرمانہ ذہنیت اور کردار کا مالک ہوگا اور عوام کے امن اور سکون میں روڑے اٹکائے گا۔ لیکن اکثریت کی تعلیم و تربیت ایسے خطوط پر ہو سکتی ہے کہ وہ ایک صحت مند اور منصفانہ نظام کے لیے قربانیاں دے سکیں۔ اگر ایسا ممکن ہو جائے تو وہ انسانی معاشرے کے لیے ایک اچھاشگون ہوگا۔

مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اس گفتگو کے دوران میں اصل موضوع سے کافی دور نکل آیا ہوں۔ لیکن میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میرے اس مضمون کا مقصد انسانی تہذیب و ثقافت کے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا نہیں ہے۔ میرے پاس نہ تو ایسا علم ہے اور نہ ہی میں کسی ایسے طریقہ کار سے واقف ہوں جس سے ایسے معاشرے کے قیام کے تجربے کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ میں تو بس اس موضوع پر اپنے ذاتی خیالات و نظریات کا اظہار کرنا چاہتاہوں۔

دوسرا باب

ہماری گفتگو آہستہ آہستہ معاشی دائروں سے نکل کر نفسیاتی دائروں میں داخل ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے ہم تہذیب اور ثقافت کو معاشرے میں دولت کی فراہمی اور تقسیم کے حوالے سے سمجھنے کی کو شش کر رہے تھے۔ لیکن جب ہمیں اندازہ ہوا کہ کسی بھی تہذیب کو قائم رکھنے کے لیے ہمیں عوام پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ منصفانہ اور صحتمند معاشرے کے قیام کے لیے وہ اپنی خواہشات کی تسکین کی قربانیاں دے سکیں اور عین ممکن ہے کہ وہ ان پابندیوں کے خلاف احتجاج اور بغاوت کی آواز بلند کریں گے اور تہذیب کی عمارت پر حملہ آور ہوں گے تو ہمیں احساس ہوا کہ معاشرتی مسائل کے اس شعور سے ہم معاشی دائرے سے نکل کر انسانی تہذیب کے نفسیاتی دائرے میں داخل ہوگئے ہیں۔

جب ہم انسانی نفسیات کے حوالے سے بات آگے بڑھاتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتاہے کہ انسانوں کے انفرادی اور معاشرتی تعلقات کافی پیچیدہ ہیں۔ انسانی بچے اپنی جبلتوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور اپنی خواہشات کی فوری تسکین چاہتے ہیں۔ انسانی معاشرہ ان پر کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے۔ تاکہ انسانی زندگی اور معاشرے میں ایک ہمدردی اور توازن قائم ہوسکے۔ بعض انسانوں کے لیے ان پابندیوں کو قبول کرنا آسان ہو تاہے اور بعض کے لیے بہت مشکل۔

اور بعض انسان تو ان پابندیوں اور قربانیوں کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ ان جبلتوں پر جو انہوں نے حیوانی آباؤ اجداد سے وراثت میں پائی ہیں، ان پر قابو نہیں پا سکتے اور تہذیب کو درہم برہم کرتے رہتے ہیں۔ وہ انسان اپنی زندگی حیوانی سطح پر گزارنا چاہتے ہیں۔ آج بھی ہم ان کی مثالیں ایسے معاشروں میں پاتے ہیں، جہاں دوسرے انسانوں کے گوشت کو کھانا، قریبی رشتہ داروں سے جنسی اختلاط کرنا، (Incest) اور انسانوں کا قتل کرنا ابھی ختم نہیں ہوا۔

ان لوگوں نے انسانی اقدار کو ابھی پوری طرح نہیں اپنایا اور اپنی جبلی خواہشوں پر قابو پانا نہیں سیکھا۔ ایسی اقدار اور ایسی پابندیاں ایک انسانی معاشرے کے قیام کے لیے ناگزیر ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ انسانی معاشرت اور تہذیب کے ارتقا کے ارتقا کے ساتھ ساتھ ایسے حیوانی اعمال سے معاشرہ پاک ہوتا جائے گا اور ایسے لوگوں کی تعداد میں بتدریج کمی آتی جائے گی۔

جب ہم انسانی دماغ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتاہے کہ انسانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں تو بہت ترقی کی ہے۔ لیکن آج کے انسانی بچے کا دماغ آج سے ہزاروں سال پیشتر کے انسانی بچے کے دماغ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آج کا بچہ جس معاشرے میں پرورش پاتاہے، اس سے اس کے شعور ی اور لاشعوری ضمیر (super۔ ego) کی تشکیل ہوتی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی، صحیح اور غلط کی تمیز سیکھتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ ایک جسمانی اور نفسیاتی ہستی سے معاشرتی اور اخلاقی ہستی بن جاتاہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail