برقع…. اور برقینی!


پچھلے دنوں بی بی سی ، فوکس\"bushra (Fox) اور دیگر مغربی نشریاتی اداروں پر برقینی پر پابندی کے بارے میں خبریں آ رہی تھیں، برقینی باپردہ سوئمنگ کاسٹیوم ، جسے پہن کر مسلمان لڑکیاں/ عورتیں سوئمنگ کرتی ہیں، اس کے خلاف سارا مغرب یوں اٹھ کھڑا ہوا تھا ، جیسے وہ سوئمنگ کاسٹیوم نہیں، دہشت گردی کا مرکز ہو۔ جہاں سے دہشت گرد نکل کر، مغرب پر ابھی حملہ آور ہوا چاہتے ہوں۔ ایسا اس سے قبل حجاب کے معاملے میں بھی ہو چکا ہے، کئی مغربی ممالک میں حجاب پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور حجاب پہننے پر بھاری جرمانے کا اطلاق بھی ہو چکا ہے۔ ان حالات میں برقینی، جو مغرب کے لیے نفرت اور دہشت کی علامت بننے جا رہی تھی، اس پر فرانس کی عدالت نے پابندی ہٹانے کا اعلان کر کے اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی ہے، جو مغرب میں مسلمانوں کے خلاف نسلی تعصب کی شکل میں پھیلتی اور بڑھتی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات جس میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ واقعات، کن حادثات کا ردعمل ہیں، کس ظلم کے خلاف احتجاج ہیں، اس پر غور و فکر کے بجائے، مغرب حجاب اور برقینی جیسے، مسلمانوں کے انتہائی ذاتی اور بے ضرر معاملات کو عالمی سطح پر ہوا دے کر، مسلمانوں کے خلاف اپنے زہریلے پروپیگنڈے کو اگلتا جا رہا ہے، جو نسلی تعصب کو بھی ہوا دے رہا ہے، اور سیکولر کہلانے والے معاشروں کے کردار کو بھی سوالیہ بنا رہا ہے….!

برقینی کو جائز اور ناجائز ثابت کرنے کی یہ بحث جو مغرب میں جاری ہے، اسے دیکھ کر، خدا جانے کیوں مجھے، برقع یاد آتا رہا، جو اس سوکالڈ اسلامی معاشرے میں پچھلی دو دہائیوں سے متروک قرار دیا جا چکا ہے، وہ برقع، جس کی یادگار برقینی کی شکل میں، 21 ویں صدی کے یورپی معاشروں میں رہنے والے مسلمانوں کی چھیڑ اور ضد بنا دی گئی ہے۔ اس برقعے کی تو اب شکل بھی بھولتی جا رہی ہے، جو 1960ءکی دہائی، میں مملکت خداداد میں رہنے والی خواتین کے لباس کا ضروری حصہ ہوا کرتا تھا…. اور باعزت گھرانوں کی خواتین جسے پہنے بغیر، گھر سے نکلنے کا تصور بھی نہیں رکھتی تھیں۔ جی ہاں، وہ سہانا اور کبھی واپس نہ آنے والا بچپن، جس میں میری امی ترکی برقع پہنتی تھیں اور میں اس برقعے کی جالی کے پیچھے سے جھانکتی اپنی ماں کی خوبصورت سرمگیں آنکھوں کو دیکھ کر، ان کا اشارہ سمجھتی تھی اور بعد کے زمانوں میں کس کرب سے کہتی تھی

وہ اماں کا برقع وہ برقعے کی جالی

وہ گزرا زمانہ یہ نیناں سوالی

آج اماں کا برقع یاد کرتے ہوئے وہ زمانہ بھی پوری آب و تاب سے میری نگاہ کے سامنے ہے، جب آنکھ کا پردہ برقعے کی جالی کے پیچھے سے جھانک کر کہتا تھا، وجود کو ڈھک کر باہر نکلو، تا کہ کوئی میلی نگاہ تمہیں میلا نہ کر سکے، میری اماں کی نگاہ برقعے کی جالی کے پیچھے بھی جھکی جھکی ہوتی تھی، جب میں اماں کی انگلی پکڑ کر، سرگودھا کے امین اور کچہری بازار سے گزرتی تھی، تو اس سہج سہج چلنے والی عورت کے لیے ہر نگاہ میں احترام پاتی تھی کہ اس باوقار خاتون کے وجود سے لپٹا پاکیزگی کا ہالہ ، دیکھنے والوں کو خواہ مخواہ ہی اس کا احترام کرنے پر مجبور کر دیتا تھا۔ شاید پردے میں لپٹی عورت کی بھی ایک بدن بولی ہے، جو دیکھنے والوں پر پردہ دار خاتون کے کردار کو واضح کر دیتی ہے۔ افسوس جس کی آج کی عورت کو سمجھ نہیں آتی، جس نے اپنے لباس سے ڈوپٹے کو منحوس سمجھ کر یوں ہٹا دیا ہے، جیسے وہ اس کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہو، جیسے وہ اس کی روشن خیالی پر ایک طعنہ ہو، مگر 1960ءکی پرانی عورت ایسے تمام complexes  سے آزاد تھی، اسے ترقی اور روشن خیالی کے اس مفہوم سے آگاہی تھی، اور مسلمان معاشرے کی عورت کی بودو باش اور اس کے کردار کی وضاحت اس کے رویوں میں بدرجہ اتم موجود تھی حالانکہ وہ اعلیٰ درسگاہوں اور مغرب زدہ تعلیمی اداروں کی شکل سے بھی واقف نہ تھی۔ واجبی تعلیم اور بنیادی اسلامی عقائد، مذہبی اور معاشرتی اقدار سے لیس وہ عورت، جو میری ماں اور نانی کے زمانے سے تھی، اسے پردے میں رہ کر، معاشرے کو اگلی سمتوں میں لے جانے کا فن آتا تھا، چنانچہ وہ اپنے بچوں کی تربیت انہی خطوط پر کرتی تھی اور اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کے کردار سازی پر بھی اتنی ہی توجہ دیتی تھی، جتنی آج کی مغربی افکار سے متاثرہ مائیں اپنے بچوں کومغربی بودو باش اختیار کرنے پر دیتی ہیں۔ وہ برقع پہننے والی مائیں، اور شٹل کاک برقع پہننے والی سادہ دل نانیاں ، جنہوں نے ہماری نسل کی پرورش کی آج کے زمانے میں ڈھونڈنے سے بھی کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ برقع جو چار دہائیاں قبل معزز اور اعلیٰ گھرانوں کی بیبیوں کی پہچان ہوا کرتا تھا، آج اس کا نام و نشان بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ آج دو انتہائیں ہیں۔ ایک جانب عبایا اور حجاب…. دوسری جانب کیپری پوش مغربی لباس پہنے خود کو جدید اور روشن خیال سمجھنے والا طبقہ۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان معاشرے کی اصل شکل گم ہوتی جا رہی ہے۔ عام گھرانوں کی بچیوں نے خود کو جدید اور ماڈرن بنانے کے لیے ٹاپ اور جینز کا سہارا لے لیا ہے، وہ سمجھتی ہیں شاید یہ لباس ان پر ترقی کے بلند دروازے کھول دے گا، اور وہ اس جدید لباس کے سہارے اپنے خوابوں کی منزل پا لیں گی۔

سوچنا یہ ہے، لباس کا اصل مقصد کیا ہے۔ خوبصورتی بڑھانا اور وجود کو ڈھکنا یا پھر وجود کو نمایاں کرنا اور خوبصورتی کے بجائے جسم کے ڈھکے ہوئے حصوں کو بے حجاب کرنا۔ یہ معاشرہ جو اس وقت دو انتہاو ¿ں کے درمیان انتہائی کنفیوژ دکھائی دیتا ہے، اور اس کنفیوژن میں ہماری نسل نو کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ اصل راستہ کون سا ہے، وہ جو منزل کی جانب جاتا ہے، کہ معاشرے کی دونوں انتہاؤں کے باہمی ٹکراؤ سے شور شرابا تو بہت اٹھا ہوا ہے مگر وہ آواز جو توازن، ترقی اور حقیقت کی خبر دے، وہ گم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں روشن خیالی کسی باپردہ، یا بے پردہ لباس کی مرہون منت نہیں ہوتی، بلکہ اس کا لباس سے کچھ زیادہ تعلق ہوتا ہی نہیں۔ ذہن کی کشادگی اور روشن خیالی، اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ افکار سے ممکن ہے، جو ذہن کی بند گرہیں کھولے اور اس پر آ گہی کے دروازے وا کرے۔ نہ کہ لباس مختصر کرتے چلے جانے، اور اپنی تہذیبی اور تمدنی اقدار سے انحراف اور مغرب کی اندھا دھند تقلید سے! اقبالؒ نے آزادی نسواں کے بارے میں کیا خوب کہا ہے:

اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا

گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند

کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب

پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

میں بھی لباس سے دوپٹہ فالتو سمجھ کر ہٹانے اور مغربی لباس کو روشن خیالی کی علامت سمجھنے والوں کی مزید ناراضی سے بچتے ہوئے آخر میں صرف یہی کہنا چاہتی ہوں کہ برقع اور برقینی کو ٹاپ جینز اور کیپری کا حریف سمجھنے کے بجائے اسے محض لباس کا حصہ سمجھئے، لباس انسان کی ذات اور شناخت کا اظہار تو نہیں، البتہ تہذیب اور تمدن کی علامت ضرور ہے، اگر یہ مذہبی اقدار کے مطابق ہو تو کیا خوب ہے…. کہ قوموں کی اول اول شناخت ان کا لباس ہی تو ہوتا ہے۔

مجھے کہنے کی اجازت دیجیے یہ معاشرہ اس وقت تیزی سے جس سمت بھاگا جا رہا ہے، وہ تہذیب و تمدن اور اسلامی اقدار کی راہ نہیں بلکہ ایسی گم کردہ راہ ہے، جس پر چل کر سوائے ذلت اور بے شناختگی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ برقینی نے فرانس کی عدالت سے اپنے حق میں مقدمہ جیت کر یہ ثابت کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments