یاد بھی نہ رکھا اسے بھول بھی نہ پائے


جب سے میں اور وہ تھائی ریسٹورنٹ سے الگ ہوئے وہ جیسے میرے ساتھ ساتھ تھی۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ لڑکی اپنے پورے وجود کے ساتھ میرے جسم و جان میں حلول کرگئی۔ کوئی بات تھی اس میں، ایک خاص بات۔ میں نے اپنی گزری ہوئی زندگی میں آنے والی لڑکیوں کے بارے میں سوچا۔ پاکستان کی وہ لڑکیاں جو کالج میں ساتھ تھیں، ان میں جو خوب صورت تھیں تو ان کی شخصیت میں وہ نرمی، وہ گدازپن، وہ کائنڈنیس نہیں تھی جو اس لڑکی میں تھی جو خوبصورت نہیں تھی۔

ان میں وہ گرم جوشی نہیں تھی جو دوستی میں ہونی چاہیے۔ خاندان کی لڑکیوں کو شاید میرا لا اُبالی پن پسند نہیں تھا یا شاید وہ مجھ سے خائف سی رہتی تھیں۔ آئرلینڈ اور انگلینڈ میں زیادہ تر کسی ڈاکٹر یا نرس سے دوستی ہوئی مگر ان سے مل کر ایسا لگتا جیسے ان کی دوستی بھی ایک ڈیوٹی ہے۔ ہسپتال کی پارٹیاں، ڈسکو میں ملنا، ہسپتال کے قریب کے پب میں بیٹھ کر شراب پینا، سب کچھ نپے تلے اصول کے مطابق ہوتا تھا۔ ایک اجنبیت کے احساس کے ساتھ۔

ایسا نہیں ہوا کہ لڑکیاں اچھی نہیں لگی تھیں۔ اچھی بھی لگی تھیں، پسند بھی آئی تھیں۔ انہوں نے بھی مجھے چاہا۔ میں نے بھی کچھ کو چاہا، کچھ کے بارے میں خواب دیکھے۔ ایک دوسرے کو تحفے اور کارڈ بھی دیے مگر کہیں کچھ ہوجاتا تھا۔ کسی کے لیے بھی ملاقات کے پہلے دنوں میں ہی اتنی بے چینی نہیں ہوئی جتنی بے چینی شنین سے مل کر ہوئی تھی۔

ہندوستان کی بینڈیڈ کوئن کی کہانی تھی جس نے ایک عورت ہونے کے ناتے اپنی عزت کے پامال ہونے کے بعد عزت لوٹنے والوں سے بدلہ لیا تھا۔ جنہوں نے اس کو، اس کے خاندان کو اور اس کے گاؤں والوں کو کسی قابل نہیں چھوڑا تھا۔ فلم ہم دونوں کو پسند آئی۔ موت سے ڈرنا کیا ہے لیکن اگرزندگی داؤ پر لگانی ہے تو اسی طرح سے لگانی چاہیے۔ فلم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہم دونوں پاکستانی ریسٹورنٹ آئے میری پسند کے کھانے ہم دونوں نے بہت مزے لے لے کر کھائے تھے۔ وہ شام، وہ رات، وہ لطف، وہ مزہ، وہ سب کچھ مجھے یاد ہے۔ ایک بہت اچھے خواب کی طرح۔

وہ لندن یونی ورسٹی میں آئرلینڈ کی تاریخ پر پی ایچ ڈی کررہی تھی۔ تاریخ اس کا خاص مضمون تھا۔ ہم نے اس دن بہت ساری باتیں کیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہندوستان اور آئرلینڈ کی تاریخ میں کافی چیزیں ملتی جلتی ہیں، مثلاً مذہب کا سیاست میں استعمال۔ اگنریزوں نے بہت منظم طریقے سے آئرلینڈ میں پروٹسٹنٹ اورکیتھولک کا جھگڑا کھڑا کیا اورآج تک یہ مسئلہ چلا آرہا ہے۔ اس طرح سے ہندوستان میں مسلمان ہندو کا جھگڑا کھڑا کرایا گیا جن کے مسائل سے ابھی تک ہندوستان پاکستان نہیں نکل سکے ہیں۔

شاید اس کی بات صحیح تھی۔ وہ بلا کی ذہین تھی۔ تاریخ اور سیاست پہ بے تکان بول سکتی تھی۔ میں اس سے بہت زیادہ امپریس ہوگیا۔ پھر ہماری دوستی بڑھتی ہی گئی۔ لندن میں وہ بھی اکیلی تھی میں بھی اکیلا۔ اس کے سارے گھر والے آئرلینڈ کے شہر کورک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے۔ جہاں اس کے باپ کا فارم تھا۔ وہ لوگ کٹر کیتھولک تھے۔ وہ چار بھائیوں کے بعد سب سے چھوٹی بہن تھی۔ بڑا بھائی فارم پر ہی اپنے باپ کے ساتھ کام کرتا تھا اورباقی چھوٹے آئرلینڈ میں ہی مختلف کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ مضبوط خاندانی رابطوں کے ساتھ گھریلو قسم کی پڑھی لکھی آئرش لڑکی تھی وہ۔

مجھے اسکیٹنگ کا شوق ہے اور ہر سال موسم سرما میں اسکیٹنگ کرنے سوئٹزرلینڈ جاتا تھا۔ اُس سال شنین بھی میرے ساتھ گئی۔ ہماری دوستی، دوستی سے بڑھ کر شدید محبت میں بدل گئی۔ میں خواب دیکھنے لگا تھا کہ وہ میرے ساتھ رہے گی تمام زندگی۔ میری دوست، میری ساتھی، میری بیوی، میری شریکِ حیات بن کر۔ مجھے کون سا پاکستان واپس جانا تھا۔ پاکستان سے میرا مضبوط تعلق رہا بھی نہیں تھا۔

میں خواب سے جیسے جاگا۔ ایئرہوسٹس کھانا لے کر آئی تھی جسے میں نے منع کردیا۔ مجھے بھوک لگ رہی تھی لیکن دل نہیں کررہا تھا۔ دل کہیں اور تھا اور دماغ نجانے کیا کیا سوچ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ پھر بائی اوپسی ہوئی ہوگی۔ چھاتیوں سے ایک ٹکڑا کاٹ کر نکالا گیا ہوگا۔ پیتھالوجسٹ نے مائیکرواسکوپ کے نیچے بہت سارے سلانڈوں کو ایک کے بعد ایک رکھا ہوگا۔ سوچا ہوگاکہ یہ کسی لڑکی، کسی عورت کے جسم کا ٹکڑا ہے، اس کی چھاتیوں کے ٹشوز کو کاٹ کاٹ کر نکالے جانے والے خلیوں کا ہجوم ہے۔

ان خلیوں می س نے وہ خلیے تلاش کیے ہوں گے جو عام خلیوں سے مختلف ہوں گے۔ ٹیڑھے میڑھے غیر منظم، اسے لکھنا ہوگا، رپورٹ دینی ہوگی۔ کینسر کینسر کینسر! روز کی طرح۔ ایک معمول کے مطابق۔ شاید یہ سوچا بھی ہ ہو کہ مریض پر کیا گزرے گی۔ وہ تھرّاجائے گی جب اسے ڈاکٹر بتائے گا کہ اسے کینسر ہے، اب چھاتی کو سینے سے جدا کرنا ہوگا۔ چھوٹے سے چاقو کی تیز دھار سے کھال کاٹ کر بغلوں تک چھوٹے چھوٹے گلینڈ نکالنے ہوں گے۔ گول گول چھاتی کی خالی جگہ پر چھوٹی چھوٹی خون کی رگوں کو جلانا ہوگا۔

اس کے پاؤں بوجھل ہوگئے ہوں گے، سر گھوم گیا ہوگا، آنکھوں کے سامنے جیسے کالی کالی جھائیوں کا جالا بن گیا ہوگا۔ شاید اس نے مجھے تلاش کیا ہو، میری کمی محسوس کی ہو، میرے بارے میں سوچا ہوگا۔ مجھے تو پتا بھی نہیں تھا۔ میں تو ایک مشین کی طرح صبح شام دن رات کام کررہا تھا۔ کچھ پتا ہی نہیں تھا مجھے، کیا کماتا ہوں، کہاں رکھتا ہوں، کدھر خرچ ہوتے ہیں۔ میں زندگی گزار رہا تھا یا زندگی مجھے گزار رہی تھی۔ آنسوؤں کی ایک بڑی سی لہر خود بخود میری آنکھوں میں امڈآئی۔

میں اس کے گھر پر اس کے گاؤں گیا تھا، اس کے گھر والوں سے ملنے کے لیے۔ مجھے یاد ہے، ہفتے کے وہ چار دن ہم نے کورک میں گزارے، بھرپور دن تھے وہ۔ اس کے گھر والوں نے مجھے خوش آمدید کہا۔ گرم جوشی سے ملے۔ کورک کے سمندر کے ساتھ ساتھ خوب صورت ساحل پہ طویل چہل قدمی کی۔ ایک کیسینو میں جوا کھیلا۔ شہر میں ایک جگہ پر فش اور چپس کھائے اور کورک کے ایک روایتی پب میں وہ گنس پیتی رہی اور میں جیک ڈینیل کے کڑوے گھونٹ پی پی کر مدہوش ہوگیا۔ رات گئے تک آئرش گانوں کی لے پہ اور موسیقی کی دھمک پر تھرکتے رہے۔ اُٹھے تو نجانے اس نے گاڑی کیسے چلائی تھی اس رات۔ اتنی شراب کے بعد قانونی طور پر گاڑی چلانا منع ہوتا ہے۔ میں وہ دن وہ رات کبھی بھی نہیں بھول سکوں گا۔ واپسی کے بعد بہت دنوں تک ہم دونوں وہ سب کچھ یاد کرتے رہے۔

لندن واپس آکر میں نے ایک دن اسے اپنے فلیٹ میں کھانے پر بلایا اوراپنی طرف سے بہترین چاول، آلو قیمہ، مرغی اور دال پکائی۔ سرخ فرنچ وائن کے ساتھ دل کھول کر اس شام کا مزہ لوٹا تھا ہم دونوں نے۔ اسی شام کومیں نے اسے پروپوز بھی کردیا۔ شادی کروگی شنین مجھ سے؟ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4