جنگ ستمبر میں کیا جیتا اور کیا ہارا


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"چھے ستمبر۔ یوم دفاع۔ آئیے کچھ بھولی بسری تاریخ یاد کر کے اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں اور یہ عہد کریں کہ مستقبل کی غلطیاں تیسری مرتبہ نہ دہرائیں گے۔

اس سال سنہ پینسٹھ کی جنگ کی اکانویں سالگرہ ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں نہایت جوش و خروش سے اپنی اپنی فتح کا دعوی کرتے ہوئے یہ تقریبات منا رہے ہیں۔ بھارت میں عام طور پر اس جنگ کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی تھی لیکن نریندر مودی کی انتہاپسند حکومت اسے بھارتی فتح قرار دیتے ہوئے بڑے اہتمام سے منانے لگی ہے۔

کسی بھی جنگ کی فتح یا شکست کا فیصلہ ان اہداف کے حصول یا حصول میں ناکامی پر کیا جاتا ہے جن کے لیے وہ جنگ شروع کی گئی تھی۔ اس مضمون میں ہم رن آف کچھ کے معرکے کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف جنگ اگست و ستمبر کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستان سنہ باسٹھ کی چین بھارت جنگ سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں تھا کہ اس وقت بھارت پر حملہ کر دیتا تو کشمیر میں کافی پیش قدمی کی جا سکتی تھی۔ لیکن امریکہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل پر تعاون کی یقین دہانی اور اس کی امداد کے لالچ میں اس جنگ سے دور رہا۔ لیکن پینسٹھ تک پاکستان کو احساس ہوا کہ امریکہ نے اسے بہلاوا دیا ہے۔

اس پر اگست سنہ پینسٹھ میں پاکستان نے کشمیر کو بزور قوت حاصل کرنے کی خاطر وہاں آپریشن جبرالٹر کے نام سے قبائلیوں، اور ان کے روپ میں اپنے فوجیوں کو داخل کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بھٹو کے شدید اصرار پر ہوا تھا اور ایوب خان اور موسی خان اس کے بارے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ اس کے دو تین اہداف کہے جا سکتے ہیں۔ پہلا مسئلہ کشمیر کو سرد خانے سے نکال کر بین الاقوامی سطح پر بھارت پر دباؤ بڑھانا، اور دوسرا کشمیر میں مقامیوں سے بغاوت کرانا اور تیسرا اکھنور پر حملہ اور قبضہ کرنا تھا۔

بھارت نے کشمیر کو خطرے میں دیکھ کر اعلان کیا کہ وہ کشمیر کی مہم جوئی کا جواب اپنی پسند کے محاذ پر دے گا، اور اس کے چند دن بعد لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر حملہ کر دیا جو میدانی علاقہ ہونے کی وجہ سے دفاعی لحاظ سے کافی کمزور تھے۔ میجر عزیز بھٹی، فضائیہ کے ایم ایم عالم، سرفراز رفیقی، یونس حسرت، سیسل چوہدری اور ان جیسے بے شمار افسروں اور جوانوں کی بے مثال بہادری کی وجہ سے بھارت لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں پر اپنی بالاتر پوزیشن کے باوجود یہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ ان اہداف کو حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے یہ جنگ بھارت کی شکست تھی۔

دوسری طرف کیا پاکستان اپنے اہداف حاصل کر سکا تھا؟ اس فوجی مہم جوئی کے بعد مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ہمیں بین الاقوامی سپورٹ سے محروم کر گیا اور بعد کے شملہ معاہدے نے اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے ہوئے ہمیں یہ لکھ کر دینے پر مجبور کر دیا کہ مسئلہ پاکستان اور بھارت باہمی طور پر حل کریں گے۔ کشمیری آبادی نے بھی ہماری حمایت میں بغاوت نہیں کی۔ اور اکھنور پر قبضہ بھی نہیں ہو سکا۔

یعنی دونوں ممالک اپنے اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ دونوں ممالک اپنی اپنی فتح کا دعوی کرتے ہیں، لیکن بین الاقوامی فوجی ماہرین اس جنگ کو دونوں کی ناکامی ٹھہراتے ہوئے غیر نتیجہ خیز قرار دیتے ہیں۔

\"Lal_Bahadur_Shastri\"

ہماری درسی تاریخ اور اردو اخبارات پڑھنے والوں کو یہ یقین ہے کہ جنگ میں ہماری مکمل فتح ہوئی تھی اور تاشقند میں مذاکرات کی میز پر ہم ہار گئے۔ سوال یہ ہے اگر مذاکرات کی میز پر ہماری ہار ہوئی تھی، اور معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد دل کے دورے میں جان کو لال بہادر شاستری کیوں ہارے تھے، ایوب خان کیوں نہیں؟ روایت ہے کہ جب معاہدے کی خبر عام ہوئی تو بھارت میں لال بہادر شاستری پر اتنی زیادہ لے دے ہوئی کہ ان کی دھرم پتنی نے ان کو فون کر کے قوم کے جذبات اپنے الفاظ میں ان تک منتقل کر دیے، اور لال بہادر شاستری وہیں ڈھیر ہو گئے۔ تاشقند سے ان کی میت ہی واپس ہندوستان گئی۔

ہماری کوتاہی یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ہم اس پر بحث مباحثہ کرنے اور مستقبل میں ایسی حماقت سے بچنے کی بجائے اپنے بچوں کو یہ پڑھاتے رہے کہ ہم بے خبر سوئے پڑے تھے کہ بھارت نے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کر دیا۔ محض اپنی کامیابیوں کا ذکر کرنے اور اپنی کوتاہیوں سے نظر چرانے کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟

کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور جو اس سے سبق نہ سیکھیں وہ دوبارہ پہلے کی طرح ٹھوکر کھاتے ہیں۔ ٹھیک چونتیس برس بعد جنرل مشرف اور ان کے چند جرنیلوں نے کارگل کر دیا۔ اس موضوع پر تفصیلی روشنی مقبول فوجی مصنف اور فوج میں ان ایام کے گواہ کرنل اشفاق حسین صاحب کی کتاب ”جنٹل مین استغفراللہ“ ڈالتی ہے۔ اس کتاب کے مطابق جنرل مشرف صاحب کو ان کے نظریاتی پیر صاحب نے جن کا نام میجر جنرل جاوید حسن تھا اور وہ جنرل مشرف کی نظر میں ایک ملٹری جینئیس تھے، یہ یقین دلایا کہ ہندوستان پر جب بھی مغرب سے حملہ ہوا ہے، ہندوستان کو شکست ہوئی ہے۔ ان دونوں حضرات اور جنرل عزیز خان نے آپس میں مل بیٹھ کر غور کیا تو معلوم ہوا کہ پاکستان کا خطہ بھارت کے مغرب میں ہے۔ یعنی حملے کی صورت میں سو فیصد کامیابی یقینی تھی۔ سو انہوں نے سنہ پینسٹھ کا ری پلے کرتے ہوئے کارگل کی چوٹیوں پر مقامیوں کے بھیس میں بے وردی کی فوجیں بھجوا دیں۔

\"pervez_musharraf_nawaz-sharif\"

انہوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ایسی پچھلی مہم جوئی کے نتیجے میں بھارت نے متنازع جنگ بندی لائن سے ہٹ کر تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد پر جنگ چھیڑنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ اور نہ ہی یہ سوچا کہ 1999 میں پاکستان اور بھارت دونوں تسلیم شدہ ایٹمی طاقتیں تھیں اور کوئی بھی براہ راست جنگ دونوں ممالک کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتی تھی۔

تاریخ سے نہ سیکھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پھر بین الاقوامی برادری اور خاص طور پر ہمالہ سے اونچے اور سمندروں سے گہرے چین کی طرف سے جواب ملنے پر، جنرل مشرف نے نواز شریف کو امریکہ بھیجا کہ کسی بھی طرح منت خوشامد کر کے صدر کلنٹن کے ذریعے بھارت کو جنگ بندی پر تیار کیا جائے۔

اور کہا جاتا ہے کہ جن بہادر فوجیوں کی لاشیں کارگل سے واپس آئیں ان کے معدے میں سے کھانے کے نام پر گھاس نکلی تھی۔ اور بین الاقوامی برادری کی نظر میں پاکستان کا کشمیری موقف مزید کمزور ہو گیا۔

ہماری تاریخ کچھ ایسی ہی ہے۔ ہمارے فوجی اور کارکن ایسے بہادر اور دل والے ہوتے ہیں کہ گھاس کھانے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں اور اپنے مورچے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ اور جو فیصلہ کرنے والے اوپر بیٹھے ہوتے ہیں وہ ان کو ہزار سال تک گھاس کھلانے کا وعدہ پورا کر دیتے ہیں۔

کرنل اشفاق حسین کی ستمبر 2008 میں شائع ہونے والی کتاب ”جنٹل مین استغفراللہ“ سے، جو انگریزی میں ”وٹنس ٹو بلنڈر“ کے نام سے دستیاب ہے، چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ نوٹ کریں کہ کرنل صاحب نے کتاب کا یہ عنوان کس وجہ سے تجویز کیا ہے۔

اقتباسات:

\"witness-to-blunder\"

ڈاکٹر مطیع الرحمان سابق مشیر سائیکلوجیکل آپریشنز جی ایچ کیو لکھتے ہیں کہ ”بھارت دنیا کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ تو علاقے میں امن کے فروغ کا خواہاں ہے جبکہ پاکستان ایج جنجگو قوم کا مسکن ہے۔ ۔ ۔ کرنل اشفاق حسین نے اپنی کتاب وٹنس ٹو بلنڈر میں پوری سچائی سے آپریشن کے وہ واقعات بیان کر دیے ہیں جو ان کے ذاتی علم میں آئے۔ اس میں وہ گفتگو بھی شامل ہے جو اس آپریشن کے منصوبہ سازوں کے درمیان ہوتی رہی۔ اس کتاب کا منفرد پہلو یہ ہے کہ یہ ان اطلاعات پر مبنی ہے جو مصنف نے ان لوگوں سے براہ راست رابطہ کر کے حاصل کیں جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا تھا“۔

لیفٹننٹ جنرل علی قلی خان، پرویز مشرف کی تقرری کے وقت چیف آف جنرل سٹاف تھے، کہتے ہیں کہ ”بے شمار معصوم جانیں بلامقصد ضائع کر دی گئیں“۔

کرنل اشفاق حسین لکھتے ہیں کہ ”جنرل جاوید نے جنرل مشرف کو اس بات پر بھی قائل کر لیا کہ وہ اس منصوبے کی ہوا دوسروں کو نہ لگنے دیں، انہوں نے کہا، \’راز نچلی سطح سے نہیں، اوپر کی سطح سے افشا ہوتے ہیں\’۔ جنرل مشرف مان گئے اور جب تک فوجی دستے لائن آف کنٹرول عبور کر کے مختلف پوسٹوں پر قابض نہیں ہو گئے انہوں نے کور کمانڈروں یا فضائیہ اور بحریہ کی قیادت تک کو اعتماد میں نہیں لیا۔“

باقی ایسا کچھ ہے کہ اس کے لیے کتاب سے خود پڑھنا ہی مناسب ہے۔ ایک فوجی کی لکھی کتاب کو شاید وہ لوگ قابل اعتبار جان لیں جو ایک سویلین کے یہ بات کہنے پر اسے غدار قرار دیتے ہیں۔

یہ واضح رہے کہ اس کتاب کے مندرجات پر مہر تصدیق جنرل اسلم بیگ، اور سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد جیسے لوگ بھی لگاتے ہیں۔ اور مجاہدین کی طرف سے پروفیسر خورشید احمد بھی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments