اے این پی پھر نشانے پر: ’ہمارا قصور شدت پسندی پر دوٹوک موقف اپنانا ہے‘


اے این پی

حالیہ دنوں میں دہشت گردی کا شکار قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں پر مسلح حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے

حالیہ دنوں میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں کئی برسوں سے دہشت گردی کا شکار قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں پر مسلح حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور پارٹی قیادت اس حوالے سے شدید تشویش کا شکار ہے۔

چار روز قبل عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر سرتاج خان کو دن دہاڑے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ‘ہدف بنا کر’ قتل کیا گیا۔

پولیس کے مطابق سرتاج خان کو گردن کے نیچے سے ایک گولی ماری گئی جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما قاتلانہ حملے میں ہلاک

پشاور: خودکش دھماکے میں 20 ہلاکتیں، شہر سوگوار

قصہ خوانی: خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

اس واقعے کے ایک روز بعد سوات میں اے این پی کے سینیئر رہنما عبد اللہ یوسفزئی کے بھائی اور بیٹے سمیت تین افراد کو مسلح موٹر سائیکل سواروں کی طرف سے شدت پسندی کی کارروائی میں نشانہ بنایا گیا جس سے تینوں افراد شدید زخمی ہوئے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے پشاو اور سوات میں ہونے والے دونوں حملوں میں جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے ان سے بظاہر لگتا ہے کہ یہ کام دہشت گردوں کا ہو سکتا ہے۔

تاہم سرکاری طور پر اس ضمن میں تاحال کچھ نہیں کہا گیا ہے جبکہ ابھی تک کسی تنظیم کی طرف سے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی گئی۔

عوامی نیشنل پارٹی نے صوبہ بھر میں پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں پر حملوں کے خلاف منگل کو پشاور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرے کا بھی انعقاد کیا جس کی قیادت مرکزی اور صوبائی رہنماؤں کی طرف سے کی گئی۔

قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی گذشتہ تقریباً ایک دہائی سے شدت پسندوں کے حملوں کی زد میں رہی ہے۔

یہ حملے پہلی مرتبہ اس وقت شروع ہوئے جب سوات میں امن معاہدے کے بعد طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قریبی ضلع بونیر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔

اے این پی

اے این پی گذشتہ تقریباً ایک دہائی سے شدت پسندوں کے حملوں کی زد میں رہی ہے

خیبر پختونخوا میں اس وقت برسرِ اقتدار عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اس وقت کھل کر طالبان پر امن معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور ان کو ’دہشتگرد’ کے نام سے پکارا جانے لگا۔

یہ وہ وقت تھا جب وزیرستان سے لے کر سوات تک ہر طرف شدت پسندی کی آگ بھڑک رہی تھی اور طالبان تنظیموں کا اثر و رسوخ قبائلی علاقوں سے نکل کر خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں میں بھی کافی حد تک بڑھ چکا تھا۔

شدت پسند تنظیمیں اس وقت ہر جگہ اپنے مخالفین کو چن چن کر قتل کر رہی تھیں جبکہ کوئی ان کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔

اس وقت صوبے میں برسرِ اقتدار اے این پی واحد سیاسی جماعت تھی جو کھل کر طالبان کی مخالفت کر رہی تھی۔

اے این پی رہنماؤں کا دعوی ہے کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران ان کے لگ بھگ ایک ہزار کے قریب رہنما اور کارکن شدت پسندوں کے حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔

مرنے والوں میں وزرا، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور عام کارکنان کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ تاہم ان حملوں میں اے این پی سے دیرینہ تعلق رکھنے والا پشاور کا بلور خاندان سب سے زیادہ متاثر ہوا جن کے دو سپوت نہ صرف لقمہ اجل بنے بلکہ یہ خاندان بدستور دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔

بلور خاندان کے بڑے سپوت اور اے این پی کے سب سے زیادہ متحرک سمجھے جانے والے رہنما بشیر احمد بلور کو سنہ 2012 میں اس وقت ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا جب وہ سینئر وزیر کے عہدے پر فائز تھے۔

تاہم یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا بلکہ اس خاندان کے ایک اور چشم و چراغ اور بشیر احمد بلور کے صاحبزادے ہارون بلور کو گزشتہ عام انتخابات میں الیکشن مہم کے دوران اپنے والد ہی کی طرح ایک اور خودکش حملے میں ہلاک کیا گیا۔

اس کے علاوہ اس خاندان کے بڑے سمجھے جانے والے حاجی غلام احمد بلور پر سنہ 2013 میں الیکشن مہم کے دوران حملہ کیا گیا جس میں وہ خود تو محفوظ رہے لیکن واقعے میں اے این پی کے پندرہ کارکن مارے گئے تھے۔

حالیہ حملوں کا مقصد کیا ہے؟

سوال یہ ہے کہ اب نہ تو اے این پی اقتدار میں ہے اور نہ ہی وہ شدت پسند تنظیموں کی اس طرح کھل کر مخالفت کر رہی ہے جیسا کہ ماضی قریب میں کرتی تھی، تو پھر وہ کیوں دہشت گردوں کے نشانے پر ہے؟

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک کا کہنا ہے کہ شدت پسندی اور شدت پسندوں کے خلاف ان کی پارٹی کا ابتدا ہی سے ایک واضح اور دوٹوک موقف اور بیانیہ رہا ہے۔

’ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں اور یہی ہمارے رہنماؤں اور کارکنوں پر حملوں کا سبب بھی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا شدت پسندی کے حوالے سے موقف وقت کے ساتھ ساتھ بدلا ہے لیکن ہمارا بیانیہ آج بھی وہی ہے جو آج سے ایک دہائی پہلے تھا۔‘

سردار حسین بابک کے مطابق ملک میں کھلے عام جہادی تنظیموں کے نوجوان چندے اکھٹے کرتے نظر آتے ہیں اور یہ سب کچھ حکومت کے ناک کے نیچے دن دہاڑے ہو رہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں اور جب کوئی ان کی مخالفت کرتا ہے تو اس کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔

اے این پی

‘ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کی مخالفت کرتے ہیں اور یہی ہمارے رہنماؤں اور کارکنوں پر حملوں کا سبب بھی ہے’

اے این پی کے رہنما نے کہا کہ ملک میں جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں تو ان کی پارٹی کے رہنما شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ قبائلی اضلاع میں ان کے امیدواروں کے خلاف ایف آئی ار درج کر کے ان کو انتخابی مہم سے روکا جا رہا ہے تاکہ ’لاڈلے‘ امیدواروں کو کامیاب کروایا جا سکے۔

شدت پسندی پر نظر رکھنے والے سینیئر تجزیہ نگار اور مصنف عقیل یوسفزئی کا کہنا ہے کہ طالبان تنظیموں، پاک امریکہ تعلقات اور بالخصوص افغان پالیسی کے حوالے سے ریاستی اداروں کا جو کردار رہا ہے اس کے بارے میں این اے پی کا ایک خاص موقف رہا ہے جو شاید پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کو زیادہ پسند نہیں رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اے این پی جب بھی اٹھتی ہے اور عوامی حمایت حاصل کرلیتی ہے تو انہیں ایسے ہی ‘نان سٹیٹ ایکٹرز’ کے ذریعے سے نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا بار بار پارٹی رہنما کھلے عام اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ ماضی میں اے این پی کے وزرا اور ممبران اسمبلی پر ہونے والے بیشتر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور بعض دیگر شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp