ہوئے مر کے ہم جو رسوا


ہماری پیاری بہنو اور ان کے بھائیوں آج ہم اپکو اپنا ایک واقعہ سناتے ہیں۔ حالانکہ شاعر نے تو کہا تھا کہ جو ہم پہ گزرتی ہے ستاروں سے پوچھیے، مگر ہم اپکو خود ہی بتا دیتے ہیں، پتہ نہی آپ کی سمجھ میں ستاروں کی بات آئے یا نہ آئے، چلیں تو سنیں۔

ہم اپنے چھ فٹے بیڈ پہ دراز خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے کہ اچانک ہی سانس میں رکاوٹ سی ہوئی اور گلے سے خرخر کی آواز آنے لگی، سارے جسم کی جان کھنچ کے جیسے پھیپھڑوں میں سما گئی۔ سخت تکلیف کا عالم تھا۔ گھر والے سب سوئے، بلکہ مرے پڑے تھے۔ کوئی اٹھ کے بھی نہ ایا اور ہم اکیلے ہی بستر پہ ہاتھ پاؤں پٹختے رہ گئے۔ پھر اچانک پتہ نہیں کیا ہوا کہ خود بخود ہی سکون سا آگیا۔ یوں لگا، جیسے ہم آزاد ہو گئے اور ہم نے خود کو بلندی پہ ہوا میں تیرتے دیکھا۔ مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ کہ ہم بستر پہ بھی پڑے ہیں اور ہوا میں تیر بھی رہے ہیں۔

پھر کیا دیکھا کہ ہمارے میاں جی ہم کو آواز دے رہے ہیں۔ ارے بھئی بیگم اٹھو، نماز کا وقت نکل رہا ہے۔ ہم نے کہا، ارے سنیں ہم اوپر ہیں، پلیز اوپر دیکھیں ہماری طرف اور ہمارا ہاتھ پکڑیں ہم کو نیچے آنا ہے۔

مگر یہ کیا؟

وہ تو ہماری آواز سن ہی نہی رہے اور بدستور ہمیں ہلا جلا کے اٹھانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اب تو ہمیں بڑی تشویش ہوئی کہ الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ یہ اوپر کیوں نہی دیکھ رہے اگر دیکھتے تو ہم فورا اشارہ ہی کر دیتے کہ ہم ادھر ہیں۔ خیر جی ہم اوپر سے دیکھ رہے تھے کہ میاں جی نے بھوں بھوں کر کے رونا شروع کردیا، افففففف، کتنے برے لگ رہے تھے وہ روتے ہوئے۔ حالانکہ ہماری بڑی خواہش تھی کہ کبھی ہم ان کو رلائیں، مگر آج جب دیکھا تو ہماری تو ہنسی ہی نکل گئی۔

حیرت ہے، کہ وہ ہنسی کی آواز بھی نہی سن سکے۔ اب تو ہمیں پکا یقین ہوگیا کہ وہ ان کی قوت سماعت مکمل طور پہ چلی گئی ہے، مگر یہ کیا اب وہ چلا چلا کے بچوں کو پکارنے لگے بچے بھی دوڑے چلے آئے اور ہمارے میاں جی بچوں کی تو سب باتیں سن رہے تھے تو یہ آخر ہماری ہی کیوں نہی سن رہے۔ حیرت در حیرت، خیر انھوں نے پہلے ہماری کب سنی تھی جو اب سنتے۔ تو جناب ہم نے اوپر تیراکی کے مزے لیتے ہوئے دیکھا سب رو رہے تھے۔ ہماری بیٹی ہم سے لپٹ گئی اور بیٹا بھی اور رو رو کے کہنے لگے مما ہمیں چھوڑ کے چلی گئیں اففففف، ہم نے کہا، فری میری جان اوپر تو دیکھو ہم تو ادھر ہیں مگر کوئی بھی نہی سن رہا ہم نے اسامہ کو بلانا چاہا، غفران ہمارا اکلوتا لاڈلا بیٹا جس کی آنکھوں میں آنسو دیکھنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے وہ رو رہا تھا ہم نے نیچے اترنے چاہا مگر ناکام رہے۔ ہمارے بچے تڑپ تڑپ کے رونے لگے میاں جی الگ بھوں بھوں کر رہے تھے (خیر ان کو تو رونے دو اچھا ہے کہتے ہیں رونے سے آنکھوں کی صفائی ہو جاتی ہے ) ۔

آب ہماری سمجھ میں کچھ کچھ آنے لگا کہ ہم مر گئے ہیں اور یہ اوپر ہم نہیں بلکہ ہماری روح ہے اور جسم بستر پہ پڑا ہے۔ اچھا تو یہ بات ہے، اب سمجھ میں آئی۔

آہستہ آہستہ گھر لوگوں سے بھرنے لگا آس پڑوس کے لوگ آگئے کچھ بچوں کو تسلی دینے لگے کچھ میاں جی کو، فری نے آنسو پونچھے اور فون سنبھال لیا رشتے داروں کو اطلاع کرنے سے پہلے اسٹیٹس اپلوڈ کرنا تھا بلیک کلر کے بیک گراؤنڈ میں گوگل سے اٹھا کے ایک دردیلا سا شعر ٹھونکا اور خبر لگا دی۔ ایک سے دوسرے کو خبر ہوتی چلی گئی دوپہر تک گھر رشتے داروں دوستوں ساتھی شعراء اور ادیبوں سے بھر چکا تھا ہمارے بھائی بھانجے نہایت غمزدہ دکھائی دے رہے تھے بھائی بار بار آنسو پونچھتے اور کہتے آج کیوں مرگئی آج تو بدھ بھی نہیں ہے۔

بلال بھانجا تڑپ کر کہتا آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ماموں خالہ ہمیں زندگی میں بھی تنگ کرتی تھیں آج مر کے بھی نقصان کردیا مجھے بھی کلینک بند کرنی پڑی۔ عجیب بات یہ کہ ہمیں یہ دیکھ کے بڑا مزا آرہا تھا، چلو بچو اب آیا نا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ ہم لہک کے پکارے مگر کسی نے سنا ہی نہیں، اور اچانک رونے کی تیز آواز آئی ارے یہ کون رو رہا ہے دیکھا تو ہماری سب سے چھوٹی نند کی آمد ہوئی تھی، ارے یہ بھی رو رہی ہیں اور پچھاڑیں کھا رہی ہیں ہائے، ہائے میری بھاوج، تم کہاں چلی گئیں؟

ابھی تو میں نے تم سے دو سوٹ سلوانے تھے اور اماں کی برسی آنے والی ہے اس پہ بریانی کون بنائے گا؟ آہ میری بھابھی، ارے ارے ہم حیران رہ گئے تو یہ اس بات پہ رو رہی ہیں، ہم سوچنے لگے ہمیں دکھ کیوں نہیں ہورہا پھر سمجھ میں آیا کہ اب ہم تمام دنیوی دکھوں اور خوشی سے بے نیاز ہوچکے ہیں۔ اچانک ہماری بھانجی عائشہ بلکنے لگی تو چھوٹی سعدیہ نے اسے تسلی دی کہ سب کو جانا ہے، خالہ بھی جا چکیں اپیا تمھارے رونے سے کہیں واپس نہ آجائیں سو چپ ہوجاؤ، وہ وہ وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولی میں کیک بیک کرہی تھی وہ اوون ہی میں بھول آئی ہوں، میرا بھی نقصان کردیا خالہ نے، بڑی باجی کا اب تک کہیں پتہ ہ تھا فری کے فون پہ انھوں نے روتے ہوئے کہا تھا کہ ابھی حسام یا بلال آئیں گے تو آوں گی میں تو صرف اپنے محرم کے ساتھ ہی سفر کرتی ہوں، میاں جی منہ دیوار کی طرف کیے فیس بک میں مصروف تھے کبھی کبھی اٹھ کے بھوں بھوں کرتے پھر فری یا کوئی دوسرا انھیں روح افزاء کا گلاس پیش کرتا جسے چڑھا کے وہ پھر لیٹ جاتے، فون پہ دوستوں کے مبارکباد سے بھرے میسج پہ میسج چلے آ رہے تھے مبادہ کوئی دیکھ نہ لے وہ دیوار سے لپٹے جارہے تھے۔

فری بے چاری کبھی فیس بک پہ کمنٹس کے جواب دیتی کبھی رشتے داروں کو سنبھالتی روئے جارہی تھی۔ اس کے میاں ہمارے لاڈلے داماد اندر باہر انتظامت میں مصروف ایک پیر سے گھوم رہے تھے کبھی رک کے فری کو تسلی دیتے کبھی ہمارے پیارے بلے رومیوں سے کھیل کے خود کو تسلی دیتے ہمارا پیارا راج دلارا بلا رومیو آج کھیل بھی نہیں رہا رہا تھا، مغموم صورت بنائے ایک طرف بیٹھا تھا۔ ہمارے اکلوتے بیٹے اسامہ نے فیس بک اسنیپ چیٹ انسٹاگرام سب جگہ تین دن کے سوگ کا اعلان کردیا تھا، ساتھ ہی یہ بھی کہ چہلم تک وہ صرف عیسی خیلوی کے دردیلے گانوں پہ ہی ٹک ٹاک بنائے گا۔ اسی ہڑبونگ میں فری کے موبائل پہ حمیرا کی

اسی ہڑبونگ میں فری کے موبائل پہ حمیرا کی وڈیو کال آنے لگی ہماری جان سے پیاری بیٹی رو رو کے نڈھال ہوچکی تھی اس کے شوہر ہمارے بھتیجے انس اسے سنبھال رہے تھے، حمیرا بار بار کہتی ہائے میری پیاری امی ابھی تو میری کتاب آنی تھی ابھی تو مجھے بہت کچھ کرنا تھا آپ اتنی جلدی کیوں چلی گئیں۔ پارے بھائی اور نشاط بھابھی بھی آن لائن ہوگئے ہماری بھابھی بہت رورہی تھیں چند منٹ انھیں چپ کرانے کی کوشش کرنے کے بعد پارے بھائی کہنے چلو میں تمھین شاپنگ کرانے لے چلتا ہوں وہاں جا کے تمھارا دل بہل جائے گا، اوے یہ شاپنگ کا کون سا وقت ہے ہم چلائے مگر انھوں نے ہماری سنی ہی نہیں اور آف لائن ہوگئے۔

پھر غسل کی بات ہونے لگی، ہم تو پریشان ہی ہوگئے نہیں بھئی یہ کیا بات ہوئی ہم توکبھی اپنی امی سے بھی نہیں نہاتے تھے اب کیسے نہالیں؟ مگر وہی مسئلہ کہ کوئی ہماری سن ہی کب رہا تھا پھر ہماری نند بولیں کیا حمیرا کا انتظار نہ کروگے میں تو کہتی ہوں حمیرا کے آنے تک برف میں رکھوادو۔ اففففففففف ہمیں کپکپی طاری ہونے لگی نہیں خدا کے لئے یہ نہ کرنا، اللہ بھلا کرے ہمارے بھائی کا وہ بول پڑے کہ نہیں یہ چیز خلاف شرع ہے حمیرا کو کیمرے پہ چہرہ دکھا دو ویسے بھی میں دوبارہ کلینک بند نہیں کرسکتا۔

چلو ٹھیک ہے۔ اب نہلانے لے چلو بڑی باجی نے آتے ہی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے، چلو شیریں تم اٹھاؤ باجی نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نند پنا دکھایا، باجی میں؟ شیریں نے کچھ کہنا چاہا مگر باجی نے ان سے پہلے ہی کہہ دیا کہ بی بی یہ تمھاری سگی نند ہے کچھ فرض تمھارا بھی بنتا ہے چلو اٹھاؤ، اور شیریں بیگم کو ہاتھ لگانا ہی پڑا۔ ہم اوپر کھلکھلانے لگے واہ بڑا مزا آرہا ہے، شیریں کو کمر کے درد سے کراہتے دیکھ کے ہمیں بڑی کمینی سی خوشی ہوئی۔

خدا خدا کرکے غسل ہوا تو نند جی نے ایک بار پھر ٹانگ اڑا دی بولیں فری ان کی پیشانی پہ انگلی سے کلمہ لکھ دو اور کفن کے اندر عہد نامہ بھی رکھ دینا۔ ارے آپا کیا کرتی ہیں؟ ہم بلبلا کے چیخ پڑے کلمہ تو ہمارے دل پہ رقم ہے اور عہد تو ہمارے اور اللہ کے درمیان تھا اب اس کو کیا رکھنا اللہ کا کرنا کہ منجھلی بہن بجو نے یہی جواب ان کو دیا اور ہم اس بدعت سے بال بال بچ گئے، ہمُ نے باآواز بلند ایک شعر پڑھا،

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

ابھی چہرہ دکھانے کا عمل ہونا تھا ہم نے سوچا کہ ایک چکر کیوں نہ فیس بک کا لگا لیا جائے۔ سو وہاں پہنچے تو ہر طرف سیاہ پٹیاں لگی دیکھیں، ارے کوئی بڑا آدمی گزر گیا کیا ہم نے حیران ہوکے سوچا پھر غور کیا اوہو، یہ تو سب ہمارے ہی غم میں شریک ہیں ایک طرف یاران نمکدان میں سوگ کا سما تھا۔ سب عہدے داران و ممبران ہمارے سرپرست اعلی اصغر خان کے گھر پہ جمع تھے ہماری کتاب میں سے اقتباسات پڑھ پڑھ کے ہمیں ایصال ثواب کیا جارہا تھا۔ خان صاحب نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے غمزدہ اشعار سنانے شروع کردیے تھے۔

دوسری طرف نگار ادب والے ہمارا تعزیتی اجلاس کرنے کی پلاننگ کررہے تھے، اکادمی ادبیات میں بھی تعزیتی اجلاس کی خبر لگی تھی۔ انفرادی پوسٹوں پہ ہمارے دوست احباب ہماری وہ وہ خوبیاں بیان کررہے تھے جو اگر ہم میں ہوتیں تو ہم ملک کے بلکہ اقوام متحدہ کے پریزیڈینٹ ہوتے۔ کئی مہربانوں نے ہم پہ فی البدیہ قطعات لکھ ڈالے، ایک ادیب بھائی نے ایک تعزیتی مضمون لکھا تھا تو بے شمار افراد نے دعائے مغفرت بھی کی تھی جس کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت تھی۔

سچی بات ہے کہ خون کے رشتوں کی بے حسی دیکھنے کے بعد ہمیں ان سچی محبتوں نے بہت متاثر کیا۔ ہم بھاری دل کے ساتھ واپس لوٹ آئے جہاں اب جنازہ اٹھایا جارہا تھا ہمارے دل کا ٹکڑا اسامہ اس کی وڈیوبنا رہا تھا، قبر میں اتارنے تک کوئی نہ کوئی جھگڑا اٹھتا رہا۔ کون سا قبرستان مناسب رہے گا؟ سوئم ہوگا یا نہیں؟ مختلف النوع تجاویز سے نمٹتے آخر کار ہم وہاں جا پہنچے جہاں جانا ازل سے لکھا تھا۔ سب نے مٹی ڈالی، دعا کی اور ہاتھ جھاڑتے چل دیے ہم نے سکون سے آنکھیں موند لیں، اب معاملات ہمار ے رحیم و کریم رب کے ہاتھ میں تھے ہم نے ایک شعر پڑھا اور ٹانگیں پسار کے لیٹ گئے۔

دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہوگئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کنج مزار میں
ختم شد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).