عثمان قاضی کاسابلانکا کی جیل میں


کاسا بلانکا کے چینکی چائے کے ریستوران میں اس خادم نے سڑک کے رُخ باہر فٹ پاتھ پر دھری بہت سی میزوں میں سے ایک کا انتخاب کیا۔ طنجہ کے تجربے کی روشنی میں کاونٹر پر گزارش کر دی تھی کہ ”سکر خفیف“ یعنی چینی کم۔ ہمارے وطن میں مستونگ کی چائے مشہور ہے، جسے پیتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ گویا روح افزا کا گلاس بھر کے اس میں ایک چمچ چائے ملا دی گئی ہو۔ قبلہ والد صاحب بتاتے ہیں کہ گئے دنوں میں اس کی ہم زاد کراچی میں ”کھڑا چمچا چائے“ کے نام سے بکتی تھی، گویا اتنی چینی کہ اس میں چمچا کھڑا ہوجائے۔

کچھ دیر میں چائے آ گئی۔ میز پر کسی پہلے گاہک کی چھوڑی ہوئی چینی کی مکعب ڈلی رہ گئی تھی۔ یہ خادم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے سڑک پر رواں انسانوں کے جمِّ غفیر، دھواں چھوڑتی پُر شور رواں دواں ٹریفک اور گرم مرطوب ہوا کے ماحول میں کراچی میں گزری جوانی دیوانی کو یاد کر رہا تھا مگر کسی شے کی کمی سی بار بار محسوس ہو رہی تھی۔

غور کیا تو پتا چلا کہ میٹھی چائے اور چینی کی ڈلی کے باوجود مکھیوں کا نام و نشان تک نہیں۔ آس پاس نظر دوڑائی تو ہر جانب یہی عالم دیکھا۔ اس اچنبھے کو دور کرنے کے لیے بعد میں فیس بک پر خصوصا صومالیہ، ہندوپاک اور بنگلا دیشی دوستوں سے استفسار کیا کہ ایسی ہی آب و ہوا میں ہمارے ہاں کیوں مکھیوں کے بھنبھناتے جتھے یلغار کیے رکھتے ہیں۔ دل کو لگنے والی توجیہہ عزیزم کامران کھیمانی کی رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ مکھیوں کی جائے افزائش کچرے اور فضلے کے کھلے ڈھیر ہوتے ہیں۔ ان سے چھٹکارا پا لیا جائے تو یہ مصیبت ناپید نہیں تو کم ضرور ہوجائے گی۔

واقعی، یہ یاد آیا کہ اول تو بلدیہ کا عملہ صفائی نہایت مستعد ہے اور مذکورہ آدھ گھنٹے کے دوران ایک اہل کار ڈانگری پہنے دورہ کرتے ہوئے گزرا۔ ہر تھوڑے فاصلے پر سرکاری اور دکان داروں کے رکھے ہوئے کچرا دان ملے جنہیں یہ اہل کار ایک گہری پہیوں والی گاڑی میں خالی کر رہا تھا۔ شاید اس حکومتی مستعدی کے باعث عوام میں بھی شعور پایا جاتا ہے اور غرباء کے محلّوں سے گزرتے ہوئے بھی کوڑے کے انبار دکھائی نہیں دیتے۔ نکاسی آب کا انتظام سارا زیرِ زمین ہے اور پلاسٹک کے تھیلے یا شاپر بیگ پر پابندی کے سبب نکاس کی نالیوں کے بند ہونے کا خدشہ بھی کم کردیا گیا ہے۔

آوریلی بی بی سے پوچھا تو انہوں نے کھیمانی صاحب کی رائے پر صاد کیا اوربتایا کہ بالعموم دن میں چار بار بلدیہ کچرا جمع کرتی ہے۔ مزید یہ اضافہ کیا کہ ہفتے میں ایک بار کرم و جراثیم کش دوا کی دھونی بھی باقاعدہ دی جاتی ہے۔ اس خادم کی رائے عربی مقولے ”الناس علی دین ملوکہم“ کے موافق ہے۔ اگر لوگوں کو یہ احساس ہو کہ حکومت اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے تو گند ڈالتے ہوئے کچھ نہ کچھ احساس ندامت ضرور ہوگا۔ ایسا ہی قیاس دیگر فرائض مثلا ٹیکس جمع کروانے پر کر لیجیے۔

بقول احمد ندیم قاسمی صاحب، ”اگر ہو جذبہِ تعمیر زندہ۔ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے“۔ لیکن اس خادم کی رائے میں یہ پرنالہ اوپر سے بہتا ہے۔ پاکستان میں حکم رانوں کی نجی اور سرکاری قیام گاہیں چندے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خوش نما محلات کے آگے پیچھے اکثر کوڑے کا انبار لگا دکھائی دے گا۔

کاسا بلانکا کے باب مراکش کی بغل میں سیدھی مگر انتہائی تنگ گلیوں کے سلسلے پر نظر پڑی جن پر چھت پڑی ہوئی تھی۔ باہر دیوار پر لکھی عبارت سے پتا چلا کہ یہ ایک ”ماڈل مارکیٹ“ ہے جو قدیم بازار کو بحال کرکے بنائی گئی ہے۔ گلی کی چوڑائی بہ مشکل سات فیٹ رہی ہوگی اور دکانیں دس فیٹ ضرب دس فیٹ کی۔ کوئٹہ کی ہاشمی مارکیٹ اور کراچی کے صدر کے کچھ حصے یاد آ گئے۔ اس پر یہ کہ دکانوں کا سامان گلی میں ابلا پڑ رہا تھا۔ اچنبھے کی بات یہ لگی کہ تمام دکان دار اور تقریبا تمام گاہک سیاہ فام تھے۔

یہ خادم ایک گلی میں ہی چند قدم جاپایا۔ پہلی چار دکانوں میں دو خواتین کی آرائشِ گیسو کی تھیں۔ سیاہ فام مشاطائیں سیاہ فام خواتین کے گھنگھریالے بالوں کو سیدھا کرنے اور ایک عرب خاتون کے سیدھے بالوں کو گھنگھریالا کرنے میں سرِ عام مصروف کار تھیں۔ ایک جگہ کوئی شوربہ نما نامعلوم چیز پک رہی تھی۔ کسی نے بتایا کہ خصوصا مغربی افریقی ممالک کے، زیادہ تر سابق فرانسیسی نو آبادیوں کے لوگ قانونی اور غیر قانونی طور پر کشتیوں کے ذریعے یورپ سمگل ہونے یا مزدوری ڈھونڈنے یا پناہ لینے مراکش آجاتے ہیں۔ کچھ یہیں رہ پڑتے ہیں۔ حکومت بھی سستی افرادی قوت کی دست یابی کی وجہ سے ان سے صرفِ نظر کرتی ہے۔ سو یہ بازار انہی کے دم قدم سے آباد ہے۔

یہاں سے نکل کر کسی سے ”حبوس“ جانے کا راستہ پوچھا تو بتایا گیا کہ اگلے چوک پر کھڑے ہو جاؤ اور سفید رنگ کی ”سروس“ کر لو جو چھے دینار لے گی۔ شاید کسی گزشتہ مضمون میں لبنان اور شام میں ”سروس“ کے رواج کا ذکر ہوا ہو۔ یہاں یہ چلن ہے کہ آپ ٹیکسی میں بیٹھیں تو ڈرائیور پوچھتا ہے کہ ”تاکسی او سروس؟ “۔ ٹیکسی کو آپ پرانے زمانے کا سالم تانگہ سمجھ لیجیے۔ البتہ ”سروس“ میں اسے دیگر سواریاں بٹھانے کا اختیار ہوتا ہے۔

بیروت میں مثلا اگر ”ٹیکسی“ کی جائے تو کرایہ بالعموم دس امریکی ڈالر یا مقامی کرنسی میں پندرہ ہزار لیرا بنتا ہے جب کہ ”سروس“ میں یہی فاصلہ دوہزار لیرا میں پڑتا ہے۔ خیر، حسبِ ہدایت یہ خادم اگلے چوک پر کھڑا ہوگیا۔ اکثر ”سروس“ غالبا اسی مقصد کے لیے خصوصا تیار کی گئی سٹیشن ویگن یا سیلون طرز کی گاڑیاں ہیں جن میں پیچھے ڈکی کی جگہ بھی نشستیں ہوتی ہیں۔ افغانستان میں ”سرائچہ“ کہلاتی ہے۔ قسمت سے پانچ چھے گاڑیاں گزریں جو بھری ہوئی تھیں۔ بالآخر ایک پرانی کھٹارا قسم کی مرسیڈیز خالی نظر آئی۔

ڈرائیور سے پوچھا کہ ”حبوس“ جانا ہے تو اس نے تصحیح کی کہ یہ جگہ ”قصر الملکی“ نامی سٹاپ کے قریب ہے۔ مردہ بدست زندہ کے مصداق بیٹھ گیا۔ راستے میں چار پانچ سواریاں مزید چڑھائی گئیں اور ایک سرسبز قطعہ ارض کے قریب، طے شدہ کرایہ وصول کر دائیں جانب اشارہ کیا گیا کہ وہ رہا حبوس۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2