جمہوریت اندھیرے میں مر جاتی ہے


اندھیرا، اندھیرا، ہر طرف گھپ اندھیرا۔ کیا ہو رہا ہے، کیسے ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟ سب پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ بولنے پر پابندیاں، لکھنے پر پابندیاں اوراب سوچ پر بھی پابندی لگنا شروع ہو چکی ہے۔ 5 جولائی 1977 کے بعد اخبارات سفید آیا کرتے تھے کیونکہ ضیا الحق نے جمہوری حکومت کے خلاف قرطاس ابیض جاری کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ کچھ نہ نکل سکا تو اخبارات کے صفحات ہی سفید کردیے۔ اب اس حکومت نے چوروں، ڈاکووں کو بند کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جب کچھ نہ مل سکا تو حالات حا ضرہ کے پروگراموں کی آواز بند کردی۔

سابق صدر کا انٹرویو بند کر دیا۔ رانا ثنا اللہ نے گفتگو میں لیڈرز کے گھریلو معاملات زیر بحث لانے سے منع کرتے ہوے کہا، ”بس چپ رہو، ہمارے بھی منہ میں زبان ہے“ تو اس کو جیل میں بند کردیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے راولپنڈی/ اسلام آبادکی اندھیر نگری میں اودھم مچانے والوں کے خلاف فیصلہ دیا تو حکم آیا کہ بدل دو، اگر فیصلہ نہیں تو جج ہی بدل دو۔ اور اس عمل کو بھی اندھیرے میں کرو، کسی کو خبر بھی نہ ہونے دو۔

یہ عوام کا حق ہے کہ ان کے منتخب نمائندگان پارلیمنٹ میں ان کی نمائیندگی کریں۔ قانون کہتا ہے کہ ہر ممبر کو اسمبلی کے اجلاس میں آنے کا حق حاصل ہے، چاہے وہ جیل میں ہو۔ حکم ہوا کہ اس قانون کو بھی اندھیرے میں دھکیل دو، آئندہ سے کوئی نا پسندیدہ آدمی اِدھر نظر نہ آے۔ مولانا کے جلسے بلیک آوٹ، اے این پی کے نعرے بند، زرداری کے بیانات پر پابندی، مریم کے ٹویٹ زیر عتاب، مذاکرات میں بولنے والوں کو دھکے اور تھپڑ، ٹی وی پرموجود سیاسی مخالفین اور صحافیوں کے لئے ٹویٹر ٹرینڈ، #Arrest Anti Pak Journalists وہ وکیل جو رشوت اور دباؤ کے باوجود حکومتی لکیر کے اُس طرف کھڑے رہے، ان پرٹی وی اور اخبارات میں مکمل پابندیاں۔ غرض ستر اور اسی کی دہائی کے کوڑوں، پھانسیوں، جیلوں، خود سوزیوں اور قربانیوں کے بعد جو تھوڑی سی روشنی حاصل کرنے میں کامیاب ہوے تھے، اب اس پر پھر سے اندھیرے کی دبیزچادر ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں۔

دی واشنگٹن پوسٹ امریکہ کا ایک بڑا اخبار ہے۔ یہ اخبار ایک لمبے عرصہ سے اطلاعات، خبریں، ان کے تجزیات اور اندرونی کہانیاں بیان کرنے میں نام کما چکا ہے

امریکی انتخابات سے کچھ پہلے اس کے نئے مالک نے پوسٹ کے چیف ایگزیکٹو کودیے گئے ایک انٹرویو میں اخبار کو خریدنے کی بات کرتے ہوے ایک فقرہ کہا،

”میرا خیال ہے کہ ہم میں سے اکثرلوگ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ جمہوریت اندھیرے میں مر جاتی ہے۔ اور کچھ اداروں کا سب سے اہم کام اس بات کی تسلی کرنا ہے کہ روشنی ہمیشہ موجود رہے۔ “

واشنگٹن پوسٹ کا سرورق پر اب یہ فقرہ مستقلاًتحریر ہے، ”Democracy Dies in Darkness، “

تحقیقاتی رپورٹر ووڈورڈ کے مطابق یہ فقرہ سب سے پہلے نکسن کے واٹر گیٹ سکینڈل میں جج نے امریکی آئین میں انسانی حقوق کے متعلق پہلی ترمیم کا ذکر کرتے ہوے استعمال کیا تھا۔

نائین الیون کے بعد اٹارنی جنرل کے جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے عرب اور مسلم تارکین وطن کوخفیہ عدالتی کارروائی کے بعد ملک سے نکالنا شروع کردیا۔ امریکی شہری حقوق کی تنظیموں نے اس کو وفاقی عدالت میں یہ کہتے ہوے چیلنج کر دیا کہ امیگریشن کے مقدمات کی پیشیوں کو پریس اور پبلک سے چھپانا پہلی آئینی ترمیم کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ تین ججوں پر مشتمل بنچ نے حکومت کے خلاف فیصلہ دیا۔

اس فیصلہ میں عدالت نے لکھا کہ آج ایگزیکٹو برانچ اپنے مقدمات کو عوام سے چھپا کر عوام کا اطلاعات کے حصول کا بنیادی حق چھین رہی ہے۔ یہ لوگوں کوخفیہ طور پر ملک بدر نہیں کر سکتے اگر چہ وہ ہمارے شہری نہ بھی ہوں۔ ایگزیکٹو برانچ مقدمات کو عوام کی آنکھوں سے اوجھل رکھ کر، بند دروازوں کے پیچھے فیصلے سنا کر، لوگوں کواکھاڑ کر، ملک سے باہر نہیں پھینک سکتی۔ عدالت نے اس سے اگلا فقرہ واضح حروف میں لکھا، ”جمہوریتیں بند دروازوں کے پیچھے مر جاتی ہیں۔ “

امریکی آئین کی پہلی ترمیم، آزادیِ صحافت اور عوام کے معلومات کے آزادانہ حصول کو ممکن بنا کر حکومتی اقدامات کے جائزیا ناجائز اور قانونی یا غیر قانونی ہونے کا فیصلہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جب حکومت دروازے بند کر لیتی ہے تو وہ کچھ معلومات مہیا کرتی ہے اورکچھ چھپا لیتی ہے۔ عدالت نے لکھا کہ ”سلیکٹڈ اطلاعات کا مطلب غلط اطلاعات“ ہے۔ پہلی ترمیم کے لکھاریوں نے اطلاعات کی فراہمی کے معاملہ میں کسی حکومت پر بھروسا نہیں کیا اور اس طرح عوام پر خفیہ حکمرانی کرنے کے راستہ میں رکاوٹ ڈالی۔

ہمارے ملک میں کیا ہوتا رہا ہے اور اب کیا ہو رہا ہے؟ سب کچھ اندھیرے میں ہے۔ تمام فیصلے بند دروازوں کے پیچھے کیے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے کیا طے پایا؟ کوئی بتانے کو تیار نہیں۔ عدالت عظمیٰ میں کیا ہو رہا ہے؟ ایک پریس ریلیز بھی جاری نہیں کی جا رہی۔ جسٹس صدیقی نے مطالبہ کیا کہ ان کا مقدمہ کھلی عدالت میں چلا یا جاے۔ ان کی یہ درخواست مسترد کر دی گئی حالانکہ قانون انہیں یہ حق تفویض کرتا ہے۔

ریاست مدینہ میں، فتح مکہ کے لئے جب جنگی تیاریوں کا حکم ہوا تو ایک صحابی، حضرت حاطب نے یہ اطلاع خط میں لکھ کر ایک عورت کے ہاتھ مکہ بھیج دی۔ وہ عورت راستہ سے پکڑ کر واپس مدینہ لائی گئی تو اس کا مقدمہ اتنا اہم اور خفیہ ہونے کے باوجود کھلی عدالت میں مسجد نبوی میں سنا گیا۔ ابن ہشام کے بقول سورۃ ممتحنہ کی پہلی چارآیات اس سلسلہ میں نازل ہوئیں۔ چوتھی آ یت حضرت حاطب اور ان کے اہل خانہ کی توجیہہ کے لئے نازل ہوئی۔ ان آیات کے نزول سے پورا مقدمہ عوام الناس کے سامنے پیش کر دیا گیا۔

پاکستان میں بڑی مشکل سے میڈیا نے کچھ آزادی حاصل کی تھی، عدلیہ میں کچھ فیصلے آزادانہ اور منصفانہ ہونے کی نوید ملی تھی اور الیکشن میں احتشام ضمیر ( 2002 کی اسمبلیوں کے معمار) کی بجاے عوامی ضمیر کی آواز سنائی دینا شروع ہوئی تھی کہ سب کچھ الٹانے کی تیاری شروع ہو گئی۔ وہی نعرے اور الزامات پھر بہانہ بنے جو لیاقت علی خاں سے لے کرآخری وزیر اعظم کے نامہ اعمال میں لکھے گئے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات، پروفیسرسٹیفن لیونسکی اپنی مشہور کتاب ”جمہوریتیں کیسے مرتی ہیں :تاریخ ہمارے مستقبل کے بارے میں کیا بتاتی ہے۔“ میں لکھتے ہیں، ”سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ آمر ہمیشہ معاشی بحران، قدرتی آفات، سیکیورٹی کے خدشات، جنگوں اور دہشت گردی کے حملوں کوغیر جمہوری اقدامات کے لئے بہانہ بناتے ہیں حالانکہ ان مسائل کا اصل حل جمہوریت ہی ہے۔“ اب کی بارپھر غیر جمہوری طریقے اپنانے کی کوشش کی گئی۔ پی ٹی آئی کے صدرجاوید ہاشمی نے بھانڈہ پھوڑ دیا تو طریقہ کار میں مناسب تبدیلیاں لائی گئیں اور جمہوریت کو اپنے سلیکٹڈ حکمران کی مدد سے مارنے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔

”جمہوریتیں، جنرلوں کی بجائے ہمارے منتخب قائدین، صدور یا وزرائے اعظم کے ہاتھوں سے مر سکتی ہیں جو کہ اسی عمل کو الٹا دیتے ہیں جو ان کو اس جگہ تک لایا تھا۔ ان میں سے کچھ لیڈر جمہوریت کو بری طرح اور تیزی سے توڑ پھوڑ دیتے ہیں، جیسے ہٹلر۔ “ سٹیفن لیونسکی۔

اب پاکستاں میں آزاد میڈیا، عدلیہ، اعلیٰ ایوان، سیاسی پارٹیاں اور سب سے بڑھ کر جمہوریت شدید خطرے میں ہے۔ کیونکہ آج جمہوریت کے لبادے میں فسطائی سوچ کا دور ہے۔ ہر کسی کو مارنے اور بند کرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ بولنے والوں کو کسی نہ کسی بہانے سے جیلوں میں بھیجا جارہا ہے۔ سٹیفن نے لکھا ہے، ”چنے ہوے لیڈر جمہوریت کو آمریت میں بدل دیتے ہیں۔ وہ عدالتوں اور غیر جانبدار ایجنسیوں کو اپنے تابع کر دیتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ہتھیار تھما دیتے ہیں، میڈیا اور نجی شعبہ کو خرید لیتے ہیں یا ڈرا کر خاموش کروا دیتے ہیں۔ سیاست کے اپنے نئے قانون بناتے ہیں تاکہ کھیل کے اس میدان کو مخالف کے مقابلے میں اپنی حمایت میں ہموار کرلیں۔ “

پاکستانی جمہوریت پر ایک برا دور دور ستر اور اسی کی دہائی میں آیا تھا۔ لیکن وہ اتنا برا نہیں تھا کیونکہ اس وقت ایک جرنیل آئین توڑ کر حکمران ہوا تھا۔ پوری دنیا اس کے خلاف تھی۔ وہ خود بھی کہتا تھا کہ آئین آسمانی صحیفہ نہیں، میں جب چاہے اس کو پھاڑ دوں۔ اس وقت نصرت بھٹو اور بی بی بے نظیر نے جمہوریت کا علم اٹھایا۔ عوام دبا اور ڈرا دیے گئے۔ کچھ قربان ہو گئے۔ اکیلی دو عورتوں نے گلیوں، سڑکوں، اورچوراہوں میں مار کھائی۔ قذافی سٹیڈیم میں خون میں نہلا دیا گیا اور بالآخر تمام جمہوری قوتیں ساتھ چل پڑیں۔ آخر کار ظلمت کو ضیا کہنے والے مٹ گئے اور جمہوریت کی شمع روشن ہوئی۔ اب پھر بلاول اور پی پی پی اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔ ان کے خون سے لکھی ہوئی جمہوریت کی داستان ان کوکچھ حد تک یہ حق دیتی ہے کہ اُس خاندان سے مزید قربانیا ں نہ لی جائیں کیونکہ اب اُن کا کوئی بھی نقصان ملک کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ عوامی نیشنل پورٹی بھی جمہوریت کے لئے کئی دہائیوں سے غداری کے فتووں، پابندیوں اور جان کی قربانیوں سے تاریخ رقم کرتی رہی ہے۔ علاقائی سیاسی پارٹیاں بھی ہمیشہ سے قربانی دیتی رہی ہیں۔ اب باری مسلم لیگ کی ہے۔

لگتا ہے کہ نواز شریف کو توڑنے کے حربے ناکام ہو چکے ہیں۔ قریبی ساتھی بھی جیل پہنچ چکے ہیں۔ اب سڑکوں پر کون نکلے گا؟ جمہوریت کی صلیب کون اپنے کندھے پر اٹھائے گا؟ جو بڑھ کر اٹھا لے گا، وہی ہمارا مستقبل ہوگا۔ جمہوریت بند کمروں کے کواڑ توڑ کر کھلی فضا میں ضرور آئے گی۔ یہ اندھیروں میں نہیں رہ سکتی پاکستان کی جمہوریت اب پھر قربانی مانگ رہی ہے۔ اس کو روشنی چاہیے۔ کون اپنے خون سے چراغ جلائے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).