معذور افراد کو باعزت روزگار دینے والے میکڈونلڈز کی مثال سے سیکھیں


بڑی بہن کے ساتھ لاہور فورٹریس کے میکڈونلڈز کی برانچ میں جانا ہوا۔ بہن نے ذاتی طور پر انتظامیہ سے درخواست کرتے ہوئے کچن دکھانے کی اجازت لی اور پروڈکشن ہاؤس سے چلر روم تک وزٹ کروایا۔ کچن وزٹ کرتے ہوئے وہاں ایک شخص کو سٹاف کے لباس میں ملبوس، ایک وہیل چئیر پر کچھ دستایزات سنبھالتے دیکھا۔ خیز اس منظر کو وقتی طور پر دیکھ کر آگے گزرتے ہوئے پورے کچن کا وزٹ مکمل کیا اور واپس ہال میں آکر بیٹھتے ہی بہن سے پوچھا کہ میں بھی ریسٹورنٹ فیلڈ سے تعلق رکھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ معذور افراد اس فیلڈ میں کام نہیں کرسکتے یا کر نہیں پاتے یا عام طور پر کرنے نہیں دیا جاتا۔

انہوں نے بتایا کہ میکڈونلڈز کی پالیسی کے تحت دو معذور افراد کو لازمی ہر برانچ میں نوکری دی جاتی ہے پھر چاہے جسمانی معذوری کسی بھی نوعیت کی ہو۔ یا پھر چاہے وہ کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہ ہوں لیکن ان کو نوکری لازمی دی جاتی ہے۔

کسی بھی طرح کی تعلیمی قابلیت کے بغیر یہ روزگار فراہم کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ باقاعدہ میانہ روی کے ساتھ برتاؤ کیا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر یوں نوکری ملنا بھی اب کافی دشوار ہوچکا ہے لیکن ایک پرائیوٹ ادارہ احسن طریقے سے معذور افراد کے لئے ذمہ داری اٹھارہا ہے تو کیونکر یہ رجحان بڑھنے کی بجائے صرف ایک ہی ادارے تک محدود ہے۔

اسی طرح اقبال ٹاؤن کی برانچ میں بھی ایک ایسا فرد کام کررہا ہے جو ذہنی طور پر بالکل معذور ہے لیکن اس کا بدن کوئی بھی کٹھن کام کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ کام پر آتا ہے اور اطمینان سے ماہانہ کما رہا ہے۔ اور گذشتہ دو سال سے وہ وہاں نوکری کررہا ہے۔

میرا مدعا حقیقتاً یہ ہے کہ اگر فی برانچ وہ دو معذور جو کہ پندرہ سولہ ہزار پر کام کررے ہیں اور مانگنے کی بجائے باعزت روزگار کمارہے ہیں نیز پرسکون ماحول میں سڑکوں پرخوار ہونے کی بجائے زندگی گزار رہے ہیں تو اگر یہی پالیسی پاکستان کا ہر پرائیوٹ ادارہ اپنائے اور کم از کم ایک معذور کو ادارہ میں اس کی نوعیت کا کام کرنے کی غرض سے نوکری دی جائے تو سڑکوں سے یہ اذیت کم کی جاسکتی ہے۔

یہ لوگ کسی کا نہیں تو کم سے کم اپنا بوجھ خود اٹھا سکتے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد ایسے ہیں جو پڑھے لکھے بھی ہیں لیکن جسمانی مشقت نہیں کرسکتے تو ان کا دماغ بہترین کام اور فیصلوں کے لئے صرف ہوسکتا ہے جیسے کہ سٹیفن ہاکنگ جو جسمانی حرکت کرنے کے قابل نہیں تھا لیکن دنیا کو ایک نیا رخ دے گیا ہے۔

ہمارے آس پاس کئی ایسے دماغ موجود ہیں، کئی ایسی زبانیں موجود ہیں۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی منیبہ مزاری جو کہ وہیل چیئر پر ہی زندگی گزار رہی ہیں لیکن بہترین موٹیویشنل سپیکر، پینٹر اور سب سے خوبصورت بات کہ انہوں نے ایک بچہ بھی گود لیا ہوا ہے اور ایک قابل رشک زندگی گزار رہی ہیں۔ اس جیسی کئی مثالیں ہمیں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں جن کو معاشرے کی مخصوص اور باشعور طبقے نے موقع دیا اور انہوں نے معاشرے کے سنہری پہلووں کو اجاگر کیا۔

درحقیقت معذور کوئی لنگڑا یا نابینا فرد نہیں بلکہ معاشرہ ہے جو ان اقدامات سے پرے کھڑا ہوکر ماضی پر بولتا اور حال کے بارے خاموش رہتا ہے۔ معاشرتی معذوری کو دور کرنے کے لئے سرے سے کام کرنے اور انفرادی مسئلے کو معاشرتی مسئلہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

کوئی بھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں چاہتا لیکن قبول نہ کیے جانے پر پیٹ کی بھوک یہ کروانے پر مجبور کردیتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے ادارے کو اس معاملے پر کام کرنا چاہیے اور ایسی کئی مثالیں پیدا کرنی چاہیں۔

شارون شہزاد
Latest posts by شارون شہزاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).