کیا آپ سورن کرکیگارڈ کو جانتے ہیں؟


سورن کرکیگارڈ وجودیت کے فلسفے کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے عیسائیوں کو بتانے کی کوشش کی کہ عیسائت کئی صدیاں پیشتر اپنے صحیح راستے سے بھٹک چکی ہے اور لوگوں نے مذہب کو نظریے اور عقیدے سے جوڑ لیا ہے۔ کرکیگارڈ کا موقف تھا کہ خدا کسی عقیدے یا نظریے کا نام نہیں ایک تجربے اور واردات کا نام ہے۔

کرکیگارڈ کا کہنا تھا کہ انسان جو خدا کا عقیدہ بچپن میں وراثت میں پاتا ہے اسے چاہیے کہ جوان ہو کر وہ ایسے خدا کو خدا حافظ کہہ دے اور پھر شک کے راستے سے گزر کر ایسے خدا کو تلاش کرے جس کی بنیاد اس کا اپنا تجربہ۔ مشاہدہ۔ مطالعہ اور تجزیہ ہو جسے اس کا اپنا ذہن اور ضمیر قبول کرے۔

کرکیگارڈ 1813 میں ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ایک سادہ اور ان پڑھ لیکن دانا خاتون تھیں۔ کرکیگارڈ نے ان کے اقوال اپنے کتابوں میں شامل کیے۔

کرکیگارڈ کی خواہش تھی کہ وہ مذہب کو گرجے اور پادری کی قید سے نکال کر عوام تک لے کر آئیں۔ کرکیگارڈ چاہتے تھے کہ ہر انسان اپنا سچ خود تلاش کرے ایسا سچ جس کے لیے وہ زندہ رہے اور اگر ضرورت پڑے تو مر سکے۔

کرکیگارڈ کا موقف تھا کہ جب تک کوئی انسان اپنے آپ کو نہیں سمجھے گا وہ کسی اور چیز یا انسان کو نہیں سمجھ سکتا۔

کرکیگارڈ نے سکول کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کے بعد ادیب بن کر ایک ڈائری لکھنی شروع کی جو وہ ساری عمر لکھتے رہے۔

کرکیگارڈ جب 24 برس کے تھے وہ ایک دخترِ خوش گل ریجائنا اولسن کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔ 27 برس کی عمر میں ان کی منگنی بھی ہوگئی لیکن 28 برس کی عمر میں انہوں نے وہ منگنی توڑ دی اور شادی نہ کی۔ اس کی ایک وجہ کرکیگارڈ کا مالیخولیا کا مریض ہونا تھا۔ کئی اور ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کی طرح کرکیگارڈ بھی یاسیت اور ڈیپریشن کا شکار رہتے تھے اور وہ اپنی ڈیپریشن میں اپنی محبوبہ اور منگیتر کو شامل نہیں کرنا چاہتے تھے۔

کرکیگارڈ کا کہنا تھا کہ ہر انسان کی طرح ہر دور کا اپنا جداگانہ سچ ہوتا ہے۔ انسانوں کو ماضی اور مستقبل کے سچ کی بجائے اپنے دور کے سچ کے ساتھ جڑ کر زندگی گزارنی چاہیے۔

کرکیگارڈ کا فلسفہ تھا کہ مذہب کے نمائندے ہمیشہ ایمان پر زور دیتے ہیں اور وہ بھی اندھے ایمان پر۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایمان جو شک کے راستے سے ہو کر نہیں گزرا وہ ایمان سچا ایمان نہیں ہے۔ کرکیگارڈ کو یقین تھا کہ دنیا میں بہت سے سچ ہیں اور ہر انسان کو اپنا سچ خود تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی کتاب کا نام بھی EITHER/ OR رکھا۔

کرکیگارڈ نے اپنے دور کے گرجے اور پادری کو چیلنج کیا تو ان پر کفر کے فتوے لگے اور انہیں اپنی کئی کتابیں فرضی ناموں سے چھاپنی پڑیں۔ کرکیگارڈ نے عام انسانوں سے کہا کہ وہ پادری کے آگے گھٹنے نہ ٹیکیں بلکہ اپنی عقل اور اپنے ضمیر اور اپنے ذاتی تجربے پر انحصار اور اعتبار کریں۔ انہوں نے عام انسانوں کو خود اعتمادی کے تحفے دیے۔

کرکیگارڈ نے اپنے عہد کے ادیبوں کو مشورہ دیا کہ وہ روایتی فلافروں کی پیچیدہ ’گنجلک اور مشکل زبان میں لکھنے کی بجائے عام فہم زبان میں لکھیں تا کہ عوام ان کی تحریروں کو سمجھ سکیں اور ان سے زندگی میں رہنمائی حاصل کر سکیں۔

کرکیگارڈ 42 برس کی عمر میں 1855 میں فوت ہو گئے۔ انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں 7000 صفحات کی ڈائری لکھی جو ان کے فوت ہونے کے بعد 25 جلدوں میں چھپی۔ ان کی ڈائری کے کئی زبانوں میں تراجم ہوئے۔ انگریزی میں ان کی ڈائری کا ترجمہ پہلی بار 1938 میں ایلیگزینڈر ڈریو نے چھاپا۔ میرے ڈنمارک کے عزیز شاعر و ادیب دوست نصر ملک نے مجھے کرکیگارڈ کی جو ڈائری تحفے کے طور پر دی اور جو مجھے بہت عزیز ہے۔ اس ڈائری پر لکھا ہے

THE DIARY OF SOREN KIERKEGAARD

خالد سہیل کے نام۔ جن کی تخلیقات نے میری کئی الجھنوں کی گنجلیاں سلجھا دیں۔ محبت اور خلوص کے ساتھ۔ نصر ملک۔ کوپن ہیگن۔ 24 دسمبر 1991۔

کرکیگارڈ کو اپنی عوام دوستی اور انسان دوستی پر اتنا فخر تھا کہ ان کا کہنا تھا کہ میرے مرنے کے بعد لوگ میرے آدرشوں کو سراہیں گے اور میرا ادبی اور فلسفیانہ حق ادا کریں گے۔

کرکیگارڈ کا کہنا تھا کہ لوگ آزادیِ اظہار و گفتار کے لیے اپنے خاندان ’اپنے معاشرے اور اپنی حکومت سے جنگ لڑتے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ آزادیِ اظہار و گفتار سے زیادہ اہم داخلی آزادیِ افکار ہے جس کے لیے کسی خارجی طاقت کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اکیسویں صدی میں وجودیت اور انسان دوستی کی روایتوں کو چاہنے والے کرکیگارڈ کے افکار کو بہت سراہتے ہیں۔ کرکیگارڈ نے جس فلسفے کی بنیاد رکھی تھی اسی بنیاد پر فرانس کے دانشور ژان پال سارتر نے وجودیت کی بلند و بالا عمارت تعمیر کی تھی اور عوام و خواص کو بتایا کہ انسان کا تجربہ زیادہ اہم ہے اور نظریہ اور عقیدہ کم۔ جب انسان اپنے تجربے کو اہمیت دیتا ہے تو وہ اپنی آزادی کو استعمال کرتا ہے اور پھر اپنے اعمال کی ذمہ داری لیتا ہے۔ وجودیت کا فلسفہ انسان کو ایک ذمہ دار زندگی گزارنے کی تحریک دیتا ہے۔

کرکیگارڈ اپنی زندگی میں صرف ان ادیبوں کی کتابیں پڑھتے تھے جن ادیبوں نے اپنی کتابوں کے لیے جان کو خطرے میں ڈالا تھا کیونکہ ان کی نگاہ میں صرف ایسے دانشوروں کو ہی اپنے سچ کی اہمیت ’افادیت اور معنویت کا پوری طرح اندازہ تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail