پاکستان اور کابل کی ترقی پسند قوتوں کا دھڑن تختہ


تاریخ کے کچھ اوراق زمانے کی گرد وغبار سے بے انتہا اٹ چکے ہیں۔ حبس اتنا بڑھا ہے کہ الامان ولاحفیظ لوگ لُو کی دعا مانگنے لگے ہیں۔ پاکستانی نوجوان نسل کچھ تاریخی واقعات سے کٹ کر رہ گئی ہے۔ وہ ایک ایسے بیانیے کی امین بنا دی گئی ہے جو تاریخی حقائق کے درست زاویوں سے کوسوں دور ہے۔

اگر افغان نوجوان نسل نمک حرام ٹھہری تو کیا حقائق تاریخ کے گرد وغبار میں جھونک دینے سے سچائی کا چہرہ مسخ ہوجائے گا؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے! یہ کبھی ہوا نہیں اور نہ ہی ایسا ہونے کو ہے۔ یہ مرا عین الیقین ہے۔

یقین رکھیئے کہ جب دونوں اطراف کی نوجوان نسل کو درست تاریخی پس منظر کی آگاہی نصیب ہوگی تو بیانیوں کی ریاستی تشکیلی قوتوں کو اپنا منہہ چھپائے بنا کوئی چارہ نہیں ملے گا۔

یہ دوچار برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے۔ ان کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ باونڈری لائن تو آج کا قصہ ہے۔ لیکن جو ہوا سو ہوا۔ کہیں تو اس تلخ حقیقت کی تالیف قلب کرنے کا ساماں ہوتا؟ پر ایسا نہیں ہوا، اور نہ ہونے دیا گیا۔ بلکہ ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھ دی گئی!

جب دنیا ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ترقی پسندی ایک نئی کروٹ لے رہی تھی تو ہمارے علاقائی پس منظر میں تہران اس خواب ناک تبدیلی کا سرخیل تھا۔ جو اس کے ساتھ ہوا وہ تو ایک الگ داستان الم ہے، لیکن اس صبح دلنوازکی کرنوں کا ظہور کابل کی گلی کوچوں میں ہونے لگا۔ کیا یہ غلط ہے کہ کابل کے شب و روز اک نئی دنیا کی دلکشی کا موجب نہ تھے؟ یہاں اک نئی صبح گلستان کی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں اورسرمایہ دارانہ نظام کے بوجھ تلے بلبلاتا یورپ یہاں امڈا چلا آتا تھا!

تاریخی تضادات کی روشنی میں ہم جو نئے نئے آزاد ہوئے تھے، ہمارے قلعہ بقا کی تعمیر کچھ اور ہی اصولوں پر استوار ہونے لگی؛ تو یہ وہی دور تھا جہاں عوامی بیانیے کی بجائے ریاستی بیانیے کا طوق عوام الناس کے گلوں میں لٹکانے کا دور رذیل شروع ہوا۔

”جو ہم چاہیں سو وہی سود و زیاں ہے۔ جو کسوٹی ہم طے کریں، وہی آپ کی جاں کی اماں ٹھہرے ہے۔ یہ ہم ہی ہیں جو نصیب دوستاں و دشمناں کے لکیکھ ہیں۔ “ یہ کہا سنا کچھ نامانوس تو نہیں ہے ناں؟

کابل جو اپنے نصیب کی آبیاری میں مگن تھا، وہ باب جو وہ اپنے مستقبل کے لئے محفوظ کرنا چاہتا تھا، وہ دنیا کی اُس وقت کی بساط میں نا مقبول ٹھہرا۔ حقوق نسواں، انسان دوستی اور تشکیل از سر نو انسانیت ہی تو وہ جرائم تھے نا مقبول ہوئے۔ کیونکہ پش منظر پس منظروں کی ضد ہیں۔

تاریخ کے ان روزو شب میں یہاں ایک بھٹو صاحب تھے جو اپنی تمام تر فکری و ذہنی سبقت کے باوجود ریاستی بیانیوں کی تشکیلی قوتوں کے مرہون منت تھے۔ سو یہ طے پایا کہ کابل کی ترقی پسندی اور اسلامی بلاک کا ہماری تاریخ کے پلڑے میں یکساں ہونا قوم و ملت کے لئے موزوں نہیں۔ مرحوم نصیر اللہ بابر اس کاروان عزیمت کے سربراہ چنے گئے۔

سو جو تاریخ جدید ہے وہ اسی مخمصے سے آج بھی دوچار ہے۔ کوئی تو ہو جو تاریخ کی اس ریاستی ملمع کاری سے ہمیں نجات دلائے!

افغان جہاد تو بہت دور کی بات اور بہت بعد کا سوداہے! آغاز تو کابل کی ترقی پسند قوتوں کے دھڑن تختے سے ہوا تھا۔ جن گل بدین حکمت یاروں اور بُرہان الدین ربانیوں کو پشاور میں مہمان بنایا گیا اس کا مقصد تو ایک ’معاندانہ پڑوسی ملک‘ کو نکیل ڈالنا تھا؛ نہ کہ ایک ایسے عالمی جہاد کی بنیاد ڈالنا جو آج انسانیت کے گلے کا ناسور بن چکا ہے۔

سو تاریخ کے جس پہیے کو ہم نے جو چرکا دیا وہ آج تک جاری ہے! تاکہ ریاستی بیانیے اور عوامی بیانئے کی تشکیلی قوتوں میں ازل کی جنگ کی تاریخ گرد گرد و غبار میں الجھی رہے، اور تب تک الجھی رہے جب تک ہمیں جھوٹی دستار بندیوں اور حقائق کی سربلندیوں کا فرق کرنا نہیں آئے گا۔

تاریخ کے کچھ اوراق زمانے کی گرد وغبار سے بے انتہا اٹ چکے ہیں۔ حبس اتنا کہ لوگ لُو کی دعا مانگنے لگے ہیں۔ اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو! کیونکہ ہم تو ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).