لاہور میں رنجیت سنگھ کا مجسمہ کس نے لگوایا؟


قلعہ لاہور کے دیوان خاص، شیش محل، دیوان عام میں مغل سلطنت کے حکمرانوں کی نشانیاں باقی ہیں۔ تاریخ کے نظریے کی بنیاد دراصل اُس بیانیہ پر منحصر ہوتی ہے جو سماج کے طاقت ور طبقات کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے اور یہ مخصوص بیانیہ سیاسی و معاشی فواٗئد کے تناظر میں قائم کیا جاتا ہے۔ لیکن جب تشکیل کردہ بیانیے کے پہلو میں قیاس اور مبالغہ آراٗئی کی آمیزش ہوتو پھر تاریخ دھندلا سی جاتی ہے۔ نوآبادیاتی عہد کے خاتمے کے بعد یہاں کی تاریخی و نصابی کتب کو مخصوص زاویوں میں مرتب کیا گیا جس نے سماج کی تکونی شکل کو بھی مبہم کر دیا یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان ماضی کے دریچوں میں اُترنے کو تیار نہیں ہوتا۔

سلاطین دہلی سے لے کر سلطنت مغلیہ کے بادشاہوں تک کے سیاسی سفر میں بہت کچھ پوشیدہ رہ گیا اور ہندستان پر انگریز قبضے کے بعد تو سیاسی تاریخ کو ہی پراگندہ کر دیا گیا۔ انگریز راج کا مراعات یافتہ طبقہ ہندستان کا بالاتر طبقہ بن گیا اور انھیں اس حد تک طاقت ور کر دیا گیا کہ تقسیم ہند کے 70 سال بعد بھی یہی اجارہ دار ہیں۔ تین روز قبل یعنی 27 جون کو پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ قلعہ لاہور میں نصب کیا گیا یہ مجسمہ رنجیت سنگھ کی 180 ویں برسی کی یاد میں بنایا گیا ہے۔

کوئی اسے خالصتان تحریک سے جوڑ کر سکھوں کو پیغام دے رہا ہے تو کوئی اسے سکھ سلطنت میں مسلمانوں کے ساتھ مظالم کو بھلانے سے تعبیر کر رہا ہے۔ مجسمے کے نصب ہونے سے زیادہ میرے لیے اس کے محرکات تک پہنچنا ضروری تھا۔ مجسمے کی تیاری این سی اے اور نقش سکول آف آرٹ نے کی لیکن اس کی سرپرستی فقیر سید سیف الدین نے کی یہ وہی سیف الدین ہیں جو اندرون لاہور میں فقیر خانہ میوزیم میں سینکڑوں نوادرات کی زیارتیں کراتے ہیں اور اس میوزیم میں سکھ عہد اور انگریز راج کے نوادرات انتہائی حفاظت میں رکھے گئے ہیں۔

(بازار حکیماں میں قائم میوزیم کی یہ عمارت دراصل رنجیت سنگھ کے وزیر فنانس راجہ ٹودر مال کی رہائش تھی) فقیر سیف الدین اس خانوادے کی چھٹی پشت ہیں۔ اب یہاں پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں : اول سکھ دور کے نوادارت اس میوزیم تک کیسے پہنچے، دوم فقیر سید سیف الدین کے خانوادے کی تاریخ کیا ہے؟ آئیں ذرا تاریخ سے پردہ اُٹھاتے ہیں۔

سلطنت مغلیہ میں ذکریا خان بہادر 1727 میں لاہور کا گورنر تھا جس نے اپنے والد عبد الصمد خان کی جگہ لی تھی، گورنر لاہور کے درباریوں ‌ میں غلام شاہ بھی شامل تھا۔ غلام شاہ کے آباؤ اجداد میں سے جلال الدین 1293 ء میں ‌بخارا سے اُچ شریف آکر آباد ہوا۔ بعد ازاں یہ خاندان 1550 ء میں اُچ شریف سے چونیاں آکر بس گیا۔ گورنر لاہور ذکریا خان کے درباری غلام شاہ کا دربائے بیاس پر انتقال ہوا تو اس کی اہلیہ اپنے تین مہینے کے بیٹے سید غلام محی الدین کو لے کر لاہور آگئیں اور لاہور میں اپنے خاوند کے دوست عبد اللہ انصاری سے رابطہ کیا۔

لاہور کا نامور فزیشن عبد اللہ انصاری غلام شاہ کا قریبی دوست تھا اور احمد شاہ کے دور میں کشمیر کا جج بھی رہا۔ عبد اللہ انصاری نے میڈیکل سائنس کی مشہور کتاب ”تذکرہ اسحاقیہ“ بھی لکھی۔ عبد اللہ انصاری نے سید غلام محی الدین کی پرورش کی، اسے میڈیکل کی تعلیم دلوائی اور جوان ہونے کے بعد اپنے بھائی خدا بخش کی بیٹی کے ساتھ شادی کرا دی۔

سید غلام محی الدین بھی لاہور کا فزیشن بن گیا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ کتابوں کی فروخت کا کام کرنے لگا اس دوران وہ فقیر امانت شاہ قادری کا مُرید ہوگیا اور اپنے نام کے ساتھ بھی ”فقیر“ سید غلام محی الدین لکھنا شروع کر دیا۔ غلام محی الدین کے تین بیٹے تھے، فقیر سید عزیز الدین، فقیر سید امام الدین اور فقیر سید نور الدین۔

فقیر سید عزیز الدین نے بھی اپنے باپ کا پیشہ اختیار کیا اور لاہور کے چیف فزیشن لالہ حکیم رائے کا شاگرد ہوا، 1799 ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی لاہور میں حکومت قائم ہونے کے بعد رنجیت سنگھ کی آنکھ خراب ہوئی جس کا علاج لالہ حکیم رائے نے کیا اور انھوں نے اپنے شاگرد فقیر سید عزیز الدین کو رنجیت سنگھ کی نگرانی پر معمور کر دیا۔ فقیر سید عزیز الدین نے رنجیت سنگھ کی خوب خدمت کی، اس خدمت کے عوض فقیر سید عزیز الدین کو رنجیت سنگھ نے اپنا معالج مقرر کر لیا، انعام کے طور پر فقیر سید عزیز الدین کو بادو اور شرق پور میں جاگیریں دی گئیں۔

یوں فقیر سید غلام محی الدین کے بیٹے فقیر سید عزیز الدین کو حکمران خاندان سکھوں کے ساتھ قریبی مراسم کا موقع میسر آیا اور وہ رنجیت سنگھ کے مشیروں میں سے ہوگیا۔ 1808 ء میں رنجیت سنگھ اور انگریز فوج کے درمیان معاہدہ ہوا کہ ستلج کے اس پار تک رنجیت سنگھ اپنی فوجوں کو محدود رکھے گا تاہم 1809 ء میں مسٹر میٹ کیلف نے اپنی فوج کے ہمراہ ستلج کے پار پیش قدمی کی تو رنجیت سنگھ جنگ کے لیے تیار ہوگیا اور فوج کو جنگ لڑنے کے لیے الرٹ کر دیا گیا لیکن فقیر سید عزیز الدین نے انگریزوں کے ساتھ جنگ لڑنے سے روکنے کا مشورہ دیا اس کے بعد انگریزوں کے ساتھ بات چیت کے لیے سید عزیز الدین کو نامزد کر دیا گیا جس کے بعد عارضی طور پر جنگ کا خطرہ ٹل گیا تاہم انگریزوں ‌کے ساتھ مسلسل بات چیت کے باعث سید فقیر عزیز الدین کے انگریز سرکار کے ساتھ روابط بڑھ گئے۔

اس کے بعد فقیر سید عزیز الدین پر اعتماد کر کے رنجیت سنگھ نے اسے متعدد جنگی محاذوں پر بھی بھیجا۔ رنجیت سنگھ نے فقیر سید عزیز الدین کو 1831 ء میں لارڈ ویلیم بینٹنک سے ملاقات کے لیے شملہ بھیجا اس کے ہمراہ سردار ہری سنگھ، دیوان موتی رام بھی تھے، سید عزیز الدین کی سفارتی صلاحیتوں کی بدولت اس کے بعد ہندستان کے گورنر جنرل لارڈ بینٹنک کی اکتوبر 1831 ء میں ہی رنجیت سنگھ سے روپر میں ملاقات ہوئی۔

نومبر 1838 ء میں انگریز فوج کابل مہم کے لیے تیار ہوئی تو رنجیت سنگھ نے فیروز پور میں لارڈ آک لینڈ سے ملاقات کی، جواب میں لارڈ آک لینڈ نے لاہور اور امرتسر میں آکر مہاراجہ سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں فقیر سید عزیز الدین کا سفارتی کردار انتہائی اہم تھا۔ رنجیت سنگھ کا 1839 ء میں انتقال ہوگیا۔ مہاراجہ کے انتقال کے بعد سکھوں کی حکومت پنجاب میں کمزور پڑنے لگی اور انگریز پورے ہندستان میں طاقتور ہو رہا تھا لہذا سکھ حکمران شیر سنگھ نے مارچ 1841 ء میں فقیر عزیز الدین کو گورنر جنرل کے ایجنٹ مسٹر کلیرک کے پاس لدھیانہ جنگی معاملات طے کرنے کے لیے بھیجا لیکن مسٹر کلیرک آمادہ نہ ہوئے اور سکھ فوج کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ عزیز الدین کے چھ بیٹے تھے۔ ناصر الدین، فضل الدین، شاہ دین، چراغ الدین، جمال الدین اور رکُن الدین۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3