زلیخا کے دیس میں


دنیا کو دیکھنے کا آ غاز تھا یہ۔ بہت سے دوستوں نے مجھ سے سوال کیا آ خر تم اپنی سیاحت کا آ غاز ”مصر“ سے ہی کیوں کررہی ہو؟ کسی اور طرف نکلو لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ مصر مجھے کھینچتا ہے کیونکہ وہ صحراؤں، پہاڑوں، سمندروں سے مملو اللہ کے اوالعزم پیغمبروں کی سرزمین ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام اسی دھرتی سے ہو گزرے ہیں۔ اور پھر وہ زلیخا اور قلوپطرہ کی سرزمین بھی تو ہے۔

زلیخا تمہیں کیوں پسند ہے؟ یہ سوال ڈاکٹر فہمہ نے مجھ سے کیا جو اس سفر میں میری ہم رکاب ہی نہیں بلکہ سنگی ساتھی ( roommate) تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ پیشے کے اعتبار سے ریڈیالوجسٹ ہیں۔ ان کا تعلق پشاور کے ایک بہت پڑھے لکھے خاندان سے ہے۔ ان کی نانی صاحبہ نے بائیو کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کررکھا تھا۔ ان کی والدہ اور ان کے شریک حیات کی والدہ دونوں تعلیمی اداروں کی پرنسپل رہی ہیں۔ دو پیارے بچوں کی یہ ماں مکمل شرعی حجاب کرتی ہیں اور قرآن مجید کی بڑی منفرد عالم ہیں۔ فرعون اور موسی والی آ یات پہ ان کی تشریح کے انداز نے دل چھو لیا۔

مجھے یوسف اور زلیخا کا قصہ ہمیشہ سے اچھا لگتا ہے۔ میں نے جواب دیا۔

زلیخا کوئی خوبصورت عورت نہیں تھی۔ قلوپطرہ بھی خوبصورت نہیں تھی۔ میں ان دونوں عورتوں کے متعلق تمہارے خیالات بدل دوں گی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا اور ہنس دیں

آ پ خیالات بدل سکتی ہیں لیکن میں ان کے حسن کی پرستار نہیں ہوں مجھے ان کا عورت پن پسند ہے۔

ہماری یہ گفتگو قاہرہ پہنچنے کے بعد اگلے دن ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مہیا کردہ بس میں بیٹھ کر ہوئی۔ مصر جا کر ہم تین گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔ میرے حصے میں جو گروپ آ یا وہ بی گروپ تھا۔ مجھے ہنسی آ گئی کیونکہ میں اسکول اور اس کے بعد کالج میں بھی ہمیشہ بی سیکشن میں رہی ہوں۔ میری پہلی کتاب بیکن بکس اور دوسری بک کارنر سے چھپی ہیں۔ اور ”آ ئینہ گر“ کا انڈیا سے چھپنے والا ایڈیشن براؤن بک پبلشرز نے چھاپا ہے۔ یہ محض ایک اتفاق ہے کہ بی ہمیشہ میری زندگی میں اہم رہا ہے۔ ہمارے اس گروپ میں تقریباً تیس لوگ تھے۔ سب سے واقفیت نہیں ہوسکی کہ دن بہت کم تھے لیکن ایک دو سے ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی۔

جب بس قاہرہ کی شاہراہوں پہ نکلی تو اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحبہ ٹھیک کہتی ہیں۔ میرا جغرافیائی مطالعہ کافی ناقص ہے۔ مصر کا غالب حصہ براعظم افریقہ میں آ تا ہے جس کی وجہ سے قدیم مصری باشندے گہری سانولی رنگت کے ہیں۔ پتلے جسم، کوتاہ قد اور رخساروں کی ہڈی ابھری ہوئی ہے۔ اہرام مصر سے نکلنے والی ملکاوں کی اصلی ممیوں کو دیکھیں تو ان عورتوں کے ناک نقشے بھی ایسے ہی ہیں۔

ملکہ ہتشپسوت کی ممی کے پاؤں پہ میں نے غور کیا۔ ان کی پاؤں کے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی انگوٹھے سے لمبی تھی۔ دانت کسی قدر اونچے اور رخسار کی ہڈی ابھری ہوئی تھی۔ وہ کافی دبنگ عورت رہی ہوگی۔ شیشے کے ڈبوں میں بند پڑی بے بس لاشوں نے اپنی زندگی میں کیا کیا رنگینیاں نہیں دیکھی ہوں گی۔ فرعون میوزیم قاہرہ میں رکھی ان ممیوں تک جانے کے لیے دوسو اسی مصری پاؤنڈز کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے جو ان دنوں ہماری پاکستانی کرنسی میں اٹھائیس سو روپے بنتے ہیں۔ وہاں تصویر لینے کی یا ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں۔

لیکن ہم بھی پاکستانی ہیں۔ ہمیں کوئی کیسے باز رکھ سکتا ہے۔ میوزیم بہت بڑا ہے اور تین منزلہ ہے۔ یہاں مختلف سیکشن میں مختلف مجسمے رکھے گئے ہیں۔ یہاں موجود سارے مجسمے، برتن اور زیورات وہ ہیں جو اہرام مصر کی کھدائی کے دوران فراعین مصر کے مقبروں سے نکلے تھے۔ بادشاہوں کی کرسیاں، مورپنکھ، پلنگ، ملکاوں کے لبادے اور زیور ابھی تک اپنی آ ب کے ساتھ تابندہ ہیں۔

بی گروپ کے حصے میں جو گائیڈ آ یا اس کا نام امیر تھا۔ امیر کی عربی زدہ انگریزی کو ڈاکٹرصاحبہ سمجھ رہی تھیں لیکن مجھے بہت زور لگانا پڑتا تب اس کی کچھ سمجھ آ تی، امیر نے میوزیم میں جا کے ایک ڈیوائس گروپ کے ہر فرد کو دیا اور ساتھ ہیڈ فون دیے اور ایک ڈیوائس خود پکڑ لیا۔ مقصد تھا کہ وہ جہاں بھی ہوا گروپ کا ہر فرد اس کی بات سنتا رہے گا۔ میں نے جب ہیڈ فون کان میں لگایا تو سوائے کھڑکھڑاہٹ کے کچھ سنائی نہیں دیا سو میں نے جلد ہی اتار کے اپنے ہینڈ بیگ میں ڈالا اور آ زادی کی سانس لی اور ایک طرف کو نکل گئی۔

سیاحت کے میرے اپنے اصول ہیں۔ میں اپنی قوت تخیل کے ساتھ سیاحت کرتی ہوں۔ میں ان زیورات کے پیچھے ایک ایک ملکہ کا چہرہ اور گردن دیکھ رہی تھی۔ ایسے ہی میں نے وادیٔ سینا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مٹی اور پتھر کے گرم، بلند اور بے آ ب و گیاہ پہاڑوں میں اپنے گدھے کے ساتھ سفر کرتے دیکھا۔ پسینہ ان کے پورے بدن سے پھوٹ رہا تھا لیکن ان کے تابناک چہرے پر سچائی اور عزم کی قوت تھی۔ پیغمبر عام شخص نہیں ہوتا وہ غیر معمولی فرد ہوتا ہے۔

اب تو جبل موسیٰ کے نیچے تک پتھروں کا راستہ بنا دیا گیا ہے۔ سینٹ کیتھرین کے چرچ تک بھی راستہ بنادیا گیا ہے۔ لیکن بسیں اور گاڑیاں وہاں سے دوکلومیٹر پہلے ہی روک لی جاتی ہیں۔ جہاں ایک چیک پوسٹ بنادی گئی ہے۔ وہاں آ گے پتھروں سے بنے ٹریک پہ جابجا ٹیکسی ویگن والے کھڑے رہتے ہیں جو سیاحوں کو راستے کی طوالت سے ڈرا کر پانچ سے سو ڈالر تک کرایے میں وہاں پہنچانے کا لالچ دیتے ہیں۔ کمزور یا بڑی عمر کے افراد ان کی سروس لے لیتے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ لوگ لکڑی کے چھوٹے چھوٹے بکچوں میں گول پتھر اور وادی سینا کے وہ پتھر بیچ رہے تھے جن کے اندر درخت نما پرنٹ ہے۔

اس کو توڑیں تو بھی اندر سے یہ درخت کا پرنٹ نکلتا ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جس پہ موسیٰ علیہ السلام کو تجلی ملی۔ ایک عرب پتھر فروش نے کہا تو ڈاکٹر صاحبہ متوجہ ہوئیں۔ یہ پتھر بھی ڈالرز میں بیچ رہے ہیں۔

کیا کریں ان کے پاس کھانے کو اور ہے بھی کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کی یہ بات میرے دل میں ترازو ہوگئی۔ اس چٹیل صحرا اور لامتناعی مٹیالے پہاڑوں میں کھانے کو کچھ نہیں، نہ وہاں پانی کا کوئی چشمہ ہے نہ فصل اگنے کے کوئی امکانات ہیں۔ سوائے سیاحوں کی طرف سے پتھروں کی خریداری یا خوراک کی بخشش کے۔ کچھ لوگوں کے پاس بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ جانور جو میری نظر سے گزرے ان کی حالت ابتر تھی۔

جب ہم سینٹ کیتھرین چرچ کی زیارت کے بعد واپس بسوں کی طرف لوٹے تو کچھ عرب بچے بہت میلے کچیلے کپڑوں میں ( فود، فود ) کہتے میری طرف لپکے۔ میں سمجھی تھی شاید یہاں کوئی ریستوران ہے اور یہ بچے اس ریستوران کے لیے گاہک کو کھینچ کر لانے والے ہیں۔ لیکن وہ کھانا مانگ رہے تھے۔ سو ہمیں شرم الشیخ سے نکلتے وقت ڈریم ریزارٹ والوں نے کھانے کا جو تھیلا پکڑایا تھا وہ میں نے اس بچے کو تھما دیا۔

رعمسیس دوم غیر معمولی انسان تھا۔ وہ نابغہ تعمیرات تھا۔ مصری قوم آ ج بھی اس کی کھٹی کھارہی ہے۔ اہرام دیکھنے کے لیے سیاح پوری دنیا سے جوق در جوق آ تے ہیں۔ فراعین کی ممیوں کے نمونے اور چھوٹے چھوٹے مجسمے ہر بازار اور دکان میں بھرے پڑے ہیں۔ اہرام اور فراعنہ کی تصویریں ہر چیزکے اوپر پرنٹ ہیں اور لوگ خریدتے ہیں۔ کیا یہ بت پرستی نہیں؟ میں نے ڈاکٹر فاہمہ سے سوال کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سوال بنتا نہیں تھا۔

مصری بتوں کی پوجا نہیں کرتے وہ بت بیچ کر کھا رہے ہیں۔ وہ سمندر بیچ رہے ہیں کہ بحیرہ عرب سے لے کر میڈیٹیرین سمندر تک انہوں نے ساحلوں پہ ریزارٹس بنارکھے ہیں۔ جہاں یورپ سے سیاح آ تے ہیں غسل بحری کے بعد غسل آ فتابی کرتے ہیں۔ شرم الشیخ اس حوالے سے بالخصوص مشہور ہے۔ مجھے یہاں سے جاتے وقت بہت دوستوں نے کہا کہ مصر کا ”بیلی“ رقص ضرور دیکھنا۔ بیلی belly جیسا کہ نام سے ظاہر ہے پیٹ کی مختلف اعصابی حرکات کا نام ہے۔

لیکن بیلی رقص میں فقط پیٹ نہیں بلکہ عورت کے بدن کے وہ تمام حصے تھرکتے ہیں جو پردے کے حکم میں آ تے ہیں۔ چھاتیوں اور کولہوں کی تھرتھراہٹ کو میں رقص کا نام نہیں دے سکتی۔ لیکن بیلی رقص پہ اعتراض کرنے کا بھی میرے پاس کوئی جواز نہیں کیونکہ یہ کئی ہزار سال سے عرب تہذیب کا حصہ ہے۔ اور تہذیب کسی بھی خطے کی مٹی اور پانی میں رچی ہوتی ہے اسے بدلنا اتنا آ سان نہیں ہوتا۔ عرب مزاجا بھرے بدن کی تھلتھلاتی عورت کو پسند کرتے ہیں۔ میں نے اپنے چھے دن کے مشاہدے میں بہت کم کسی پتلی عورت کو دیکھا ہے۔ عرب عورتیں دانستہ خود کو بھرا ہوا رکھتی ہیں اور سینہ تان کے چلتی ہیں۔ جب میں نے ڈاکٹر صاحبہ کی توجہ اس طرف دلائی تو ہنس کر کہنے لگیں ان کی طرح چلنا سیکھو۔ اب میں تمہاری چال ڈھال بلکہ چال چلن ٹھیک کروں گی۔

جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).