کرایہ داروں کا غم توجہ طلب ہے


ایسے ملک بھی دنیاکے نقشے پرموجودہیں جہاں ہرطبقے کوان کے حقوق ملتے ہیں اورانہیں اس کے لیے رونادھونانہیں پڑتا، انہیں اپناحق لینے کے لیے سڑکوں پرسراپا احتجاج نہیں بنناپڑتا، ایک نظام کے تحت سب کوان کے حقوق ملتے ہیں اورایسے ممالک کے شہری اپنی حکومتوں سے مطمئن رہتے ہیں مگرہمارے ہاں پاکستان میں ہمیشہ یہی المیہ رہا ہے کہ عوام کبھی بھی حکمرانوں سے خوش دکھائی نہیں دیے، انتظامی معاملات میں شکایات کے انبارہوتے ہیں اورجس کاجہاں بس چلتاہے وہ اپنی مرضی کرتاہے اوردوسرے کی خوب کھال اتارتاہے، خواہ وہ پھیری والا ہے، ریڑھی بان ہے، دکاندارہے، سیلزمین ہے، بڑاتاجر، صنعت کارہے یاپھروہ ایسامالک مکان ہے جس کاذریعہ معاش مکانات ہے، کرائے داری نظام کی بات کریں توشہروں میں ایک بڑی تعدادلوگوں کی ایسی قیام پذیرہوتی ہے جوروزگارکے لیے آتے ہیں اورآسمان چھوتی مہنگائی کی وجہ سے اپنامکان لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے جس کی بدولت مجبورا انہیں مکان کرائے پرلیناپڑتاہے جہاں وہ بادل نخواستہ مالک مکان کے رحم وکرم پرہوتے ہیں، یہ ایک ایسادردناک معاملہ ہے کہ جوکرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں یاکبھی رہ چکے ہیں ان سے بہترکوئی نہیں جانتا۔

کرائے داری کے حوالے سے مختلف پہلوایسے ہیں جن پربات کی جاسکتی ہے مگرہم یہاں ان میں سے صرف ایک پہلوپرہی بات کریں گے جس کے تحت کرائے داروں کومالکان کی جانب سے مسائل کاسامنارہتاہے، اس نظام میں ایسے پراپرٹی ڈیلرزجوکرائے کے مکانات تلاش کرکے اپنی کمیشن لیتے ہیں ان میں سے اکثر کی لوٹ مار، جھوٹ اورمکانوں کے ریٹ آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے میں سب سے بڑے قصوروار ہیں، چونکہ ڈیلرنے صرف مکان کی نشاندہی کرکے فریقین کوآپس میں ملاناہوتاہے اوراس کے بدلے اپنی کمیشن لیناہوتی ہے اس لیے وہ دونوں طرف جہاں ضرورت پڑے جھوٹ کاسہارا لے لیتے ہیں تاکہ یہ ڈیل ڈن ہوتے ہی ان کی جیب بھی گرم ہوجائے مگراس وقت وہ یہ نہیں سوچتے کہ اپنی کمیشن کے چکرمیں وہ ایک کرائے دارکوکسی جہنم میں دھکیل رہے ہیں جہاں ایک بے چارے کی فیملی نے سکونت اختیارکرنی ہے، بعض دفعہ وہ مالک مکان کوبھی کسی غیرسنجیدہ کرائے دارکے گلے ڈال دیتے ہیں جودیگرشریف کرائے داروں کے لیے بھی بدنامی کاسبب بن جاتے ہیں اورنتیجتا مالک مکان حضرات کے ذہنوں میں ایک تاثرپیداہوجاتاہے کہ کرائے داربہت تنگ کرتے ہیں، توڑپھوڑ کرجاتے ہیں، صفائی نہیں کراتے، کرایہ تاخیرسے دیتے ہیں وغیرہ۔ حالانکہ یہاں معاملہ ایسے ہی ہے کہ ایک مچھلی سارے جل کوگندہ کردیتی ہے۔

ہم کرائے کی اس دنیامیں یہ تودیکھتے ہیں کہ اب کرائے دارپولیس سٹیشن میں رجسٹرڈہوتے ہیں تاکہ شرپسندعناصرکی ملک دشمن سرگرمیوں کوروکاجا سکے جوکہ ایک اچھا اقدام ہے مگرافسوسناک صورتحال یہ ہے کہ یہ نظام کرائے دارکومالکان کی جانب سے نامناسب رویئے کی صورت میں تحفظ نہیں دیتا، آسمان چھوتے کرائے بڑھانے سے نہیں روکتا، اس معاملے میں کوئی ایساقانون اگرہمارے ہاں موجودبھی ہے تواس پرعملدرآمدنہیں کہ آخرکس اصول کے تحت مالک مکان یاڈیلرکرائے میں اضافہ کرتے ہیں، کس قانون کے تحت ایڈوانس رقم اپنی مرضی سے واپس کی جاتی ہے اورکس ضابطے کے تحت جب مکان خالی کرایاجاتاہے تواس کی کٹوتی کی جاتی ہے۔

اصولی طورپرہوناتویہ چاہیے کہ جیسے پرائس کنٹرول مجسٹریٹس بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پرنظررکھنے کے لیے مامورہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ یہ کام بھی کرتے کہیں دکھائی نہیں دیتے، اسی طرح مکانوں اوردکانوں کے کرائے کوایک مناسب حدتک رکھنے کے لیے بھی افسران کی ڈیوٹی لگائی جائے، یامکانوں کے سائز، کمرے اورسہولیات کے حساب سے نرخنامہ جاری کیاجائے تاکہ کوئی ڈیلریامالک مکان کسی کرائے دارکی جیب پرڈاکہ نہ ڈال سکے، نئے پاکستان میں حکمران اگراس جانب بھی توجہ دیں توایک بڑی تعدادمیں عوام کوریلیف مل سکے، دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حکومت لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، گوجرانوالہ، فیصل آباداورملتان سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں کم سے کم دس مقامات پرفلیٹس تعمیرکرائے جنہیں انتہائی کم کرائے پردیناشروع کردے، اس کافائدہ حکومت اورعوام دونوں کو ہوگا، ایک تو مالک مکان مجبورا اپنے گھروں کے کرائے کم کریں گے اوردوسرا سرکاری فلیٹس کم کرائے پرملنے سے کم آمدن والے بے گھرافرادکوفائدہ ہوگا، حکومت کواس منصوبے سے طویل عرصے تک خطیررقم بھی ملے گی جس سے ملکی خزانے میں پیسہ آئے گا، تیسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہیں فلیٹس میں سے اگرکوئی شخص خریدناچاہے تووہ کرائے کے ساتھ ساتھ اس کی ملکیت کے لئے الگ سے قسط بھی اداکرسکتاہے مگریہ صورت رہائشی کی مرضی پرمنحصرہو، شفافیت برقرار رہے توحکومت اورعوام دونوں کوبے حدفائدہ ہوگا۔

اوراگرایسانہ کیا گیا تو لاکھوں گھرانے تادم مرگ خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پرمجبوررہیں گے اوردربدرکی ٹھوکریں ان کا مقدر ٹھہریں گی، جیسا کہ وہ اس تکلیف دہ مرحلے سے گزر رہے ہیں، پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پرفلاحی ریاست بناناہے توایک ں ظربے چارے کرائے داروں پربھی ڈالناہوگی تبھی ہرکوئی خوش ہوگا ورنہ کرائے داروں کی موجودہ نسل کی اگلی نسل بھی اپنے گھرکاخواب ہی دیکھتی رہے گی اوریہ ان کی بھی ایسی خواہش رہے گی جوپوری ہوتے ہوتے ان کی زندگی کے دن پورے ہوجائیں گے۔ یہ بات ٹالنے والی نہیں، اسے نظرانداز کرنا زیادتی ہوگی کیوں کہ کرایہ داروں کاغم ایک توجہ طلب مسئلہ ہے جس پرفوری منصوبہ بندی وقت کاتقاضا ہے۔ یہاں مجھے امریکہ میں مقیم شاعرخالدعرفان کاشعریادآگیاہے۔

میں ایک بھی مکان کا مالک نہ بن سکا

بارش کی زد میں ہوں کبھی لو کے اثر میں ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).