ریپ ہونے والے مظلوم فرد سے کیسا سلوک کیا جائے؟


اسماء نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن جیسے باز اپنے شکار کو دبوچتا ہے ویسے ہی راشد نے اسے کندھوں سے پکڑ کر صوفے پہ دے مارا۔

”جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا کروں اور میں تمہیں جانے دوں گا“

راشد نے اسما کے کان میں دھیمے سے کہا۔

اسماء ایک 17 سالہ نازک اور نفیس سی لڑکی تھی۔ موٹی بھوری آنکھیں، لمبے ریشمی بال، گورا بھرا بدن۔ جبکہ راشد، اسما کا چچازادبھائی؛ 21 سالہ قد و کاٹھ والا خوبرو نوجوان تھا۔

بیچاری اسما صوفے پہ پڑی خود کو ظالم کی مضبوط گرفت سے آزاد کرانے کی ناکام سی کوششیں کررہی تھی۔ راشد نے اسما کے دونوں ہاتھ اپنے نیچے دیے اور خود ڈیڑھ من وزن کے ساتھ نرم صوفے پہ موجود نرم گرم بدن پہ چڑھ بیٹھا۔

”خدا کے واسطے مجھے جانے دو“

یہ کہتے ہی اسما کی موٹی آنکھوں سے پانی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ راشد کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ سی تھی۔

راشد نے اسما کے گلے میں موجود دوپٹہ کھینچا اور زور سے دور پھینکا اورجس طرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں، بالکل اسی طرح راشد نے اسما کی قمیض اتاری اور نیچے پھینک دی۔ اسما کی نئی قمیض، راشد کی پرانی جوتی پہ پڑی تھی۔

اسما کی مفلوج موٹی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور وہاں کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں جو اس کا درد سن سکتیں۔ لیکن گھر میں کوئی نہ تھا۔

مزاحمت میں اسما نے اپنے ناخن راشد کو مارے۔ اسے خاص فرق نہ پڑا۔ راشد کی سرخ آنکھوں میں وحشت سی تھی اسے اپنے اردگرد کا کوئی ہوش نہ تھا وہ بس شروع کیا کام مکمل کرنا چاہتا تھا۔

اسما درد سے کراہ رہی تھی، آنسو اس کے گورے رخساروں سے ہوتے منہ میں آرہے تھے۔

”میں تمہاری اس بکواس سے تھک گیا ہوں، جیسا میں کہہ رہا ہوں ویسا کروں پھر میں جانے دوں گا“

راشد نے ذرا غصیلے لہجے میں کہا۔

”وہ مجھے جانے دے گا، وہ مجھے جانے دے گا“

اسما نے تھک کے خود سے کہا۔

** 8 سال بعد**

”اسما؟ کیا تم سن رہی ہو جو میں کہ رہی ہوں؟ انھیں ہال میں لے آو! “

اسما کی ماں ساجدہ نے اسما سے پھلوں، جلیبیوں اور سموسوں سے بھری پلیٹیں پکڑاتے ہوئے کہا۔ اسماء ماتھے پہ بل لائے ہال میں داخل ہوئی اور ٹرے کھانے کی میز پہ رکھی۔ نظر راشد پہ پڑی جو وہاں اسماء کے والد کے قریب صوفہ پہ بیٹھا تھا؛ اس نے سیاہ جینز کے ساتھ سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی، بال پیچھے کی طرف کیے ہوئے تھے، چہرے پہ ہلکی سی داڑھی، ہونٹوں پہ شیطانی سی مسکراہٹ!

اسما وہاں بے چینی سی محسوس کر رہی تھی، اس واقعے کے بعد سے وہ پوشیدہ داغ اس سارے عرصے میں اسما پہ حاوی رہے۔ وہ ہر روز اس بھیانک یاد کو زندگی سے ہمیشہ سے نکال پھینکنے کی کوشش کرتے اٹھتی اور ناکام ہوتے موٹی آنکھوں میں آنسو اور بہتی ناک لیے سوجاتی۔ وہ ہر روز اپنی زندگی سے لڑتی اور روز ہی پہلے دن والا محسوس کرتی۔ اس عرصے میں شرمندگی اور پریشانی میں کسی کو بتانے کی ہمت نہ ہوپائی۔ اس نے تنہا یہ بوجھ اٹھا رکھا تھا جو ایسے معاملات میں ہر دفعہ ایک لڑکی کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔

”وہ ایک ظالم عصمت پسند (Rapist) ہے جس نے میری ہی دادی اماں کے گھر مجھ سے عصمت دری (Rape) کی جب باقی سب میری بہن کی شادی کی خریداری کے لیے باہر گئے ہوئے تھے اور میری امی مجھے اس کے پاس چھوڑتی گئیں۔ میرا کنواراپن مجھ سے زبردستی لے لیا، مجھے تکلیف پہنچائی، اپنا جسم میری اجازت کے بغیر میرے جسم میں داخل کیا۔ میں نے کسی سے نہیں کہا اور اب وہ میرے گھر میں بیٹھے میرے ہی والد سے باتیں کیے جارہا ہے، اور اس کے والدین (میرے چچا، چچی) میرے والدین سے اپنے بیٹے کے لیے میرا ہاتھ لینے آئے بیٹھے ہیں“

اسما، راشد کے بالکل سامنے اپنے امی ابو کے درمیان بیٹھی، فرش کو تکے خود سے کہہ رہی تھی۔

اسما کی پریشانی میں الٹی نکل گئی تھی جب پہلی بار اس کی امی نے اس رشتہ کے بارے میں بتایا کہ ”راشد کارپوریٹ کمپنیوں کے لیے عمارتوں کو ڈیزائن کرنے کا کام کرتا ہے، میری جان تمہارا بہت خیال رکھے گا“

”اسما آپ کیسی ہیں؟ “ راشد نے دریافت کیا۔

”میں ٹھیک ہوں“ اسما نے آہستہ سے جواب دیا۔

”اب بہت ہوچکا، میری زندگی پہلے ہی اس کی وجہ سے بہت خراب ہو چکی ہے۔ میں مزید برداشت نہیں کر سکتی۔ مجھے سب کو بتانا ہوگا“

سوالوں جوابوں میں پھنسی اسما خود سے کہہ رہی تھی۔

”میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ ہمارے دونوں خاندان مزید قریب آئیں، راشد میرا داماد نہیں بیٹا ہے۔ “

اسما کے والد نے فخر سے کہا۔

بے یقینی کے عالم میں اسما اپنے باپ کو تک رہی تھی۔ لیکن وہ اپنے باپ کو بھی الزام نہیں دے سکتی تھی کیونکہ اس بارے میں وہ لاعلم تھے۔

”تو تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے اسما؟ “

چچی نے اسما سے دریافت کیا۔

یہی پوچھنا تھا اور اسما غصے سے اپنے والدین اور چچا چچی سے پرے کھڑی ہو گئی۔ اسما کے والدین آنکھوں میں غصے لیے اسے دیکھنے لگے کہ یہ کیا کرنے جارہی ہے۔ جبکہ چچا چچی حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور راشد اپنے دونوں ہاتھ سینے پہ رکھے اسما کی طرف دیکھ رہا تھا۔

”دیکھیں میں راشد سے شادی نہیں کرسکتی“

اسما نے اعلانیہ کہا۔

”تم کیا بات کررہی ہو؟ “ خالدہ نے غصے میں کہا۔

”میں وہی کہہ رہی ہوں جو اخلاقی طور پہ ٹھیک ہے، آپ مجھ سے اس عصمت پسند سے شادی کرنے کی توقع نہیں کر سکتے۔ اس نے میرے ساتھ عصمت دری کی۔ یاد ہے جب آپ سب باجی کی شادی کی خریداری کے لیے باہر گئے ہوئے تھے اور مجھے اس کے ساتھ اکیلا چھوڑ گئے تھے۔ اس نے اس کا فائدہ اٹھایا اور میرے ساتھ عصمت دری کی۔ “

اسما اتنے عرصے کی خاموشی کے بعد آخرکار بول پڑی۔ سب آنکھیں جمائے اسما کو دیکھ رہے تھے۔

اس پہ راشد نے اپنی خاموشی توڑی اور دھیمی آواز میں کہا:

” تم جانتی تو ہو کہ تم مجھ پہ عصمت دری کا الزام لگا رہی ہو جو بڑا گناہ ہے“

”تمہیں یاد نہیں کس طرح تم نے عصمت دری کی تھی؟ مجھ پہ بیٹھ گئے تھے، تب سے میں کس تکلیف میں ہوں؟ آج تک سب سے یہ بات چھپائی، معاشرے کے خوف سے کسی سے ایک لفظ نہیں کہا کیونکہ میں لڑکی ہوں۔ مجھے خوف تھا کہ مجھے خاموش کرا دیا جائے گا۔ میں پوری زندگی سب سے ڈرتی رہی اور تمہاری ہمت تو دیکھو کس منہ سے میرے رشتے کے لیے آئے ہوئے ہو؟ پتا نہیں کیسے ہمت کر کے میں یہ سب بول رہی ہوں! “

اسما یہ سب کہہ کے رکی اور اپنے والدین کی طرف دیکھنے لگی جن کو آنکھوں میں آنسو تھے انھوں نے بولنے کے لیے منہ کھولا لیکن خاموش رہے۔

اسما کے چچا چچی حیرانی سے اسما کو تک رہے تھے اور چاہ رہے تھے کہ راشد اس پاگل پن کو روکے۔

اس سے پہلے کہ راشد کچھ کہہ پاتا، اسما اس کی طرف گئی اور کہنے لگی:

”اس سے پہلے کہ تم اس سب کو جھوٹ کہو، یاد رکھو اللہ پاک ہم سب کو دیکھ رہا ہے۔ اگر تم اس سب سے انکار کرو گے وہ روزمحشر تمہیں سزا دے گا۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی جو تم نے میرے ساتھ کیا“

راشد کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا، چہرے پہ خوف لیے اسما کی طرف دیکھ رہا تھا۔

”اسما۔ میں۔ “

وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ اسما نے اس کی بات کاٹی۔

”نہیں۔ سب ختم ہوا، میں تم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی“

اسما یہ سب کہتے اپنے کمرے کی طرف دوڑی اور کمرہ بند کر لیا۔ بستر پہ لیٹ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اتنے میں دروازے پہ زور سے دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو آنکھوں میں سینکڑوں سوال لیے اسما کے والدین کھڑے تھے۔ دونوں کی آنکھوں سے پانی پھوٹ رہا تھا۔

”تم نے ہمیں بتایا کیوں نہیں؟ اتنے سال ہم سے کیوں چھپایا؟ “ اسما کی امی نے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا۔

”میں نہیں جانتی تھی کہ کیسے بتاؤں آپ لوگوں کو۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ آپ میرا اعتبار کریں گے، آپ لوگ مجھے وقت ہی کہاں دیتے تھے“ اسما کی آنکھوں سے بھی فوارا پھوٹ پڑا۔

اسما کے والد نے اسے گلے لگایا؛

میں نے ان لوگوں کو باہر کا راستہ دکھایا۔ میں ان کے چہرے پھر کبھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ مجھے دکھ ہے میں ایسے درندے کو بیٹا کہہ رہا تھا۔ تمہیں اس بارے میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں میری بیٹی ایسی بات پہ جھوٹ نہیں بول سکتی۔ مجھے تم پہ فخر ہے بیٹا ”

اسما کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ علی صاحب نے اسما کا سر اپنے سینے سے لگایا۔

”تم سب سے بہادر بیٹی ہو، مجھے ایسے لوگوں کو رشتے کے لیے نہیں بلانا چاہیے تھا، ہمیں فخر ہے کہ تم ہماری بیٹی ہو۔ اب راشد ساری زندگی بھگتے گا“

خالدہ نے اسما کے آنسو پونچھے اور گلے لگایا۔

”میں اللہ پاک کی بہت شکرگزار ہوں جس نے مجھے آپ جیسے والدین دیے جو میرا اعتبار کرتے ہیں۔ جہاں تک راشد اور اس کے گھر والوں کا تعلق ہے اب وہ لوگوں کی باتیں سنیں گے۔ راشد اسی تکلیف سے گزرے گا جس سے میں اتنے سال گزرتی رہی۔ “

اس کے بعد یہی ہوا راشد کی نوکری چھوٹ گئی اور وہ نشہ کی لت میں لگ گیا۔

ہمارا معاشرہ عصمت دری سے بچنے والے کو ایسے دیکھتا ہے جیسے اس نے اپنے خاندان کی عزت ڈوبا دی ہو۔ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ بجائے عصمت دری کا شکار ہونے والی سے سوال جواب کرنے کے ایسا کرنے والا کو پکڑا جائے، اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور اپنے انجام تک پہنچایا جائے۔ لڑکی کے معاملے میں منافقت سے کام نہیں لینا چاہیے۔

آج کل کے دور میں جب سب سے زیادہ خطرہ اپنے قریبی لوگوں سے ہی ہوتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہوئے ریپ کیسز میں زیادہ تر قریبی لوگ اور رشتہ دار شامل رہے۔ والدین کو اپنے بچوں کا دوست بننے کی ضرورت ہے، انھیں نظرانداز کرنے کی بجائے وقت دیا جائے۔ ہو سکتا ہے بچے کو کسی مشکل وقت میں آپ کی ضرورت ہو۔ ایسی کئی اسما ہم میں ہیں جنھیں ہمارے ساتھ کی ضرورت ہے۔ سوچیے گا ضرور اسما کے ماں باپ بن کے، اسما کے بہن بھائی بن کے، اسما بن کے، یا راشد بن کے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).