سیاسی مفاد یا ذاتی مفاد؟


جب ہر سیاستدان دوسرے سیاستدان کی سیاسی نظریہ سے اختلاف کرنے کے بجائے ذاتی کردار کشی میں وقت ضائع کریں گے۔ تو یقیناًایسے حالات ہی پیدا ہو نگے۔ بچپن میں ہم ایک کہانی سنا کرتے تھے لکڑہارا اور اس کے چار بیٹے جب وہ الگ الگ لکڑیوں کی گٹھڑی توڑتے ہیں تو ناکام رہتے ہیں لیکن جب مل کے توڑتے ہیں تو کامیاب ہو جاتے۔ مگر افسوس کہ ہمارے سیاستدانوں میں اتفاق نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہر کوئی ایک دوسرے پر تنقید، گالم گلوچ کرتا نظر آتا ہے تاریخ گواہ ہے جو قومیں بھی کامیاب ہیں ان کی کامیابی کے پیچھے سب سے پہلے ان کے ملک و ملت سے محبت کا جذبہ اور باقی اختلافات بعد میں منظر عام پر آتے ہیں ہم کسی باہر کی طاقت سے کیا خاک لڑیں گے ہمارے ملک کے اندر ذاتی اختلافات ختم نہیں ہوتے۔ ہر پارٹی دوسری پارٹی پہ تنقید کے علاوہ کچھ نہیں کرتی کسی بھی ملک کی پارلیمنٹ عوام کی بالادستی کے لیے کام کرتی ہے لیکن افسوس یہاں سیاستدانوں کی کردار کشی لعن طعن کے علاوہ کچھ نہیں ملتا یہاں نہ کسی مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے آواز اٹھاتا ہے نہ ہی ملک کے حالات بہتر کرنے کے لیے کوئی اقدام اٹھائے جاتے ہیں۔

ٹیلی ویژن میں روزانہ درجنوں سیاسی پروگرام چلتے ہیں ان پروگرامز میں نہ تو کہیں ملکی مسائل پہ بات ہوتی ہے نہ ہی عوام کے مسائل حل کرنے کیلے کوئی بات کی جاتی ہے سیاستدان گھنٹوں پریس کانفرنس کرتے ہیں جن میں ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کس سیاستدان کا کردار کیسا ہے ایسے ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جو ہم عام زندگی میں بولتے ہوئے ہچکچاتے ہیں لیکن وہ لائیو پریس کانفرنس میں بغیر کچھ سوچے بولے جارہے ہوتے ہیں پہلے تو پھر بھی سیاستدان ہم سے جھوٹے وعدے کرتے تھے اب جلسوں میں کسی لیڈر کو سڑکوں پہ گھسیٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا رہا ہوتا آخر کب تک یہ لڑائیاں تہمت بازی چلتی رہے گی؟

آخر کب تک ہمارے حکمران ہمیں پاکستان کی تقدیر بدلنے کے خواب دکھاتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟ ہر سیاستدان آتا ہے اپنے حصے کی کرپشن کرتا ہے اور ایسے ہی پانچ سال گزار دیتا ہے پھر الیکشن کا دور آتا ہے نئے خواب دکھائے جاتے ہیں جیسے ہی حکمران حکومت میں آتے ہیں وہی سلسلہ جو برسوں سے چلا آرہا ہے دوہرایا جاتا ہے اور ہمیشہ کی طرح ہمارے خوابوں کو ذاتی مفادات کی نظر کر دیا جاتا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے ہم اپنے حالات کوبدلنے کی طرف گامزن ہو جاہیں کیونکہ اب نہ کوئی اقبال آئے گا ہمیں جگانے نہ قائداعظم جیسا لیڈر اب ہر شخص کو خود جاگنا ہوگا جس قوم میں اتحاد نہ ریے وہ قومیں ناپید ہو جاتی ہیں کوریا نے اگر ترقی کی تو اتحاد کی بنیاد میں کوئی بھی ملک تب تک کامیاب نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس کی لیڈر شپ مضبوط نہ ہو عوام کو اس پہ اعتماد ہو اس کے قول وفعل میں تضاد نہ ہو جس روز ایک اچھا لیڈر اس ملک کو مل گیا اس روز پاکستان ترقی پزیر سے ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).