کیا شدت پسندی صوفی محمد سے شروع ہوئی تھی؟


کالعدم تنظیم تحریک نفاذ شریعتِ محمدی (ٹی این ایس ایم) کے سربراہ اور تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر مولانا فضل اللہ کے سسر مولانا صوفی محمد طویل علالت کے بعد پشاور میں وفات پا گئے ہیں۔

ان کی عمر 95 برس کے لگ بھگ تھی۔

صوفی محمد کے صاحبزادے فضل اللہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جمعرات کی صبح اپنے والد کی وفات کی تصدیق کی۔

انھوں نے بتایا کہ کہ ان کے والد گذشتہ کئی برس سے گردوں کے دائمی مرض میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے انھیں اکثر اوقات ہسپتال لے جانا پڑتا تھا۔

خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن کے ایک چھوٹے سے گاؤں میدان سے ’نفاذ شریعت‘ کے نام پر مسلح تحریک کا آغاز کرنے والے مولانا صوفی محمد گذشتہ دس برس سے پشاور میں نظر بندی کی زندگی گزار رہے تھے اور اس دوران انہیں اپنے آبائی علاقے میں جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔

مولانا صوفی محمد پہلی مرتبہ اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنے جب 1980 کی دہائی میں وہ ہزاروں لوگوں کے ہمراہ ’اسلامی شریعت‘ کے نفاذ کے لیے مسلح ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور پورے ملاکنڈ ڈویژن کا نظام جام کر دیا۔

سوات کے سینیئر صحافی غلام فاروق کا کہنا ہے کہ اس وقت ایسی صورتحال پیدا ہو گئی تھی کہ جیسے پورے ملاکنڈ ڈویژن پر ٹی این ایس ایم کے مسلح افراد کا قبضہ ہو گیا ہو۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت کئی بڑے بڑے علما اور خوانین بھی صوفی محمد کی تحریک میں شامل ہو گئے تھے۔

اس تحریک کے ابتدائی دنوں میں سکیورٹی فورسز اور ٹی این ایس ایم کے مسلح شدت پسندوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جس میں اس وقت کے ایم پی اے بدرالزمان سمیت کئی افراد مارے گئے تھے تاہم حکومت نے صوفی محمد کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت پہلی مرتبہ ملاکنڈ ڈویژن میں ’شرعی نظام‘ کا نفاذ کیا گیا اور پہلی بار عدالتوں میں ججوں کی بجائے علما کو علاقہ قاضی اور ضلعی قاضی مقرر کیا گیا۔

صوفی محمد دوسری مرتبہ اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنے جب امریکہ میں نائن الیون کے واقعے کے بعد افغانستان پر حملہ کیا گیا اور وہاں طالبان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ صوفی محمد نے اس وقت ملاکنڈ ڈویژن اور اس وقت کی باجوڑ ایجنسی سے ہزاروں افراد کا مسلح لشکر تیار کرکے طالبان کا ساتھ دینے کے لیے افغانستان کا رخ کیا۔

اس مہم میں ان کے ساتھ ان کے داماد مولانا فضل اللہ بھی ہمراہ تھے جو بعد میں سوات میں طالبان کے امیر بنے ۔

بتایا جاتا ہے کہ اس وقت اس لشکر میں صوفی محمد کے ہمراہ بیشتر نوجوان اور ادھیڑ عمرکے ’جہادی‘ تھے جن میں سے زیادہ تر افغانستان میں جنگ کے دوران ہلاک ہوئے یا پھر لاپتہ ہوئے۔

افغانستان سے واپسی پر صوفی محمد اور ان کے داماد مولانا فضل اللہ سمیت سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا تاہم بعد میں فضل اللہ رہا ہوئے جبکہ صوفی محمد جیل میں تھے۔

صوفی محمد

صوفی محمد کو پشاور کے سیٹھی ٹاؤن سے 26 جولائی 2009 کو گرفتار کیا گیا

سوات میں دو ہزار سات میں جب مولانا فضل اللہ کی سربراہی میں شورش شروع ہوئی تو اس وقت کی صوبائی حکومت نے مولانا صوفی محمد کو رہا کر کے ان کے ذریعے سے طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ کرایا لیکن یہ معاہدہ جلد ہی ناکام ہوا اور حکومت کی طرف سے صوفی محمد کو ایک مرتبہ گرفتار کر لیا گیا۔

صوفی محمد کے خلاف حکومت کی طرف سے کئی مقدمات بنائے گئے تھے جس میں آئین پاکستان سے انکار، سکیورٹی فورسز اور تھانوں پر حملے اور اعلیٰ عدالتوں کے احکامات نہ ماننے جیسے مقدمات شامل تھے۔

مولانا صوفی محمد پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں اسلامی نظام کی آڑ میں شورش اور تشدد کے بیج بوئے اور بعد میں یہی تشدد طالبان تحریک کی صورت میں ظاہر ہوا اور آج تک موجود ہے۔

صوفی محمد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ انتہائی سخت گیر موقف کے حامل تھے۔ وہ اپنی انٹرویو میں کئی مرتبہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کو غیر اسلامی قرار دے چکے تھے اور ان کے احکامات ماننے سے صریحاً انکاری تھے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سوات میں شدت پسندی میں صوفی محمد کی تحریک کا بڑا عمل دخل رہا ہے کیونکہ بیشتر شدت پسند یا تو ان کے تحریک سے متاثر تھے یا پھر ان کے شاگرد تھے۔

سوات میں سب سے پہلے ملا فضل اللہ نے ’نظام عدل‘ کے نفاذ کےلیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جو نہ صرف صوفی محمد کے داماد تھے بلکہ ان کے شاگرد کے ساتھ ساتھ ان کے دست راست بھی بتائے جاتے تھے اور بعد میں یہی فضل اللہ تحریک طالبان پاکستان کے امیر بھی بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp