ادبی خواتین


فراغت کے لمحات میں جب آپ اپنے ماضی کو یاد کریں تو ایک کے بعد ایک یاد آپ کے ذہن پردستک دیتی رہے گی۔ ایسے ہی اپنے ماضی کا ایک رنگین ورق پیش کرتا ہوں، جب والد مرحوم محسن علی عمرانی کے دیرینہ دوست اور مہان شاعر و ادیب جناب خاطرغزنوی صاحب کے توسط سے کوہاٹ کے میاں راشد نذیر بمعہ اہلیہ کسی سرکاری کام کے سلسلے میں ڈیرہ آئے، کام سے فراغت کے بعد جب ہمارے گھر آئے تب والدہ مرحومہ کو معلوم ہوا کہ آئے ہوئے مہمان کی اہلیہ شاعرہ ہیں تو والدہ مرحومہ کیونکہ ادب پرست تھیں تو انہوں نے محترمہ زہرہ لَقا صاحبہ کے اعزاز میں گھر پر ہی اسی رات خواتین کے محفل مشاعرہ کا انعقاد کر ڈالا اور محترمہ بیگم شمبلید اور بیگم خورشید سعداللہ کو کرسی صدارت سپرد کرنے اور ادب و قلم سے وابستہ علاقے کی تمام خواتین کو خواتین مشاعرے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ تمام انتظامات مکمل کر لئے۔ میرا بچپن تھا اور پہلی دفعہ دیکھا کہ شعراء بھی خواتین، سامع بھی خواتین، مہمان خصوصی اور صدرات بھی خواتین کی۔ ہر شعر پر خواتین کی داد و تحسین اور مکرر مکرر کی صدائیں فضا کو عجیب رنگ سے معطر کر رہی تھیں۔

ماضی کے اس واقعہ کے لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ازل سے لے کر اب تک زندگی کا وہ کون سا شعبہ ہے جہاں خواتین کا عمل دخل نہیں ہے، اللہ رب العزت نے خواتین کو ماں کے عظیم درجے پر فائز کر کے انسانی تخلیق کا جو فرض ان کو سونپ دیا ہے، اسی سے تو زندگی رواں دواں ہے، ماں کے قدموں تلے جنت رکھ کر رب کائنات نے انسانوں کو یہ سمجھا دیا ہے کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ، اور ان رنگوں کی بوقلمونی کا وصف صرف عورت ذات کے ساتھ مخصوص ہے بلکہ تخلیق انسان کے ساتھ ہی عورت تخلیق ادب میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیتی ہے، یعنی وہ اپنی اولاد کی تربیت کے کٹھن مراحل سے گزرتے ہوئے اسے زبان وبیان کے محتاط استعمال کا درس دیتی ہے، معاشرے میں قدم قدم پر بچے کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سے نبرد آزما ہونے، ان سے برتنے کا درس، ادب کی تخلیق نہیں تو اور کیا ہے۔

ادب اور شاعری کو مرد اور عورت کے خانوں میں تقسیم کرنا، اس سے ذاتی طور پر اختلاف رکھتا ہوں، لیکن اس کے باوجود ہم جب شاعری کا ذکر کرتے ہیں اور اس میں خواتین شعراء کا کلام زیرِ بحث آتا ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح شعر و ادب کے میدان میں بھی انتہائی مشکل حالات کے باوجود شعر و ادب میں خواتین نے اپنا مقام بنایا اور خاص کر ڈیرہ اسماعیل خان جیسی ادبی سرزمین پہ خواتین لکھاریوں نے اپنی ہمت اور حوصلے سے مردوں کے شانہ بشانہ ادب تخلیق کیا اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

ادب کی ہر شاخ سے وابستہ ہر صاحب قلم یہ تسلیم کرے گا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کا ادب آج جس تناور درخت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اسے سینچنے، سنوارنے میں مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین قلم کاروں نے بھی اہم کردار ادا کیاہے۔ ناول نگاری، افسانہ، شاعری، بلکہ ہر صنف میں خواتین لکھاریوں کی تخلیقات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جنسی فرق تو ضرور ہے لیکن ادبی مقام ایک جیسا ہے۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ ماضی میں ڈیرہ کے ادبی اُفق پر مرد حضرات کا ہی غلبہ اور بول بالا تھا، لیکن جب وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کو اپنی بات کہنے اور اپنی تخلیقات کو منصئہ شہود پر لانے کا موقع ملاتو انہوں نے بھی تمام اصناف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ادب کے فروغ میں اہم کردار اداکیا۔

بہت سی ایسی خواتین ہیں کہ جن کے ذکر کے بغیر ڈیرہ کی ادبی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی جب بھی ادب کا ذکر آئے گا یا ا سکی ترویج پر بات کی جائے گی تو بیگم شمبلید، بیگم خورشید سعداللہ، ممتاز محسن عمرانی، غلام فاطمہ، نزہت رمضان، نین الہی، ناہید اختر اور دیگر کئی ادب پرست خواتین کے ساتھ ساتھ

صاحبان قلم و صاحبانِ کتب خواتین شعراء مسرت لغاری، نگہت لغاری، نسیم سحر بلوچ، فرح بخاری، روبینہ قمر، ناہید غزل، عزرا بخاری، پروین عظیم، صفیہ بشیر، شمیم حنا، نبیلہ خان، صائمہ قمر، ثناء خان، نگہت عروج، ناہید اختر بلوچ، ان خواتین کی تخلیقات آج ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں اور ان کی شاعری زوق و شوق سے پڑھی اور سُنی جاتی ہے ان کے علاوہ ادب سے وابستہ اور کئی خواتین لکھاری بھی موجود ہیں جنہوں نے ڈیرہ کے سرمایۂ ادب کو ثروت مند بنایا جن کے ذکر اور ان کے ادبی کارناموں کے بغیر ڈیرہ کی ادبی تاریخ نامکمل رہے گی۔

یہ حقیقت ہے کہ گھر کے قفس میں قید، چوڑیوں کی زنجیر بکف عورتوں نے ادب کو وہ کچھ دیا ہے، جس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ مریخ و زہرہ کے اتصال سے ہی کائنات میں حسن ہے۔ اس لیے الگ الگ جزیرے صرف دکھوں کو جنم دے سکتے ہیں۔ ادب میں نہ کوئی جزیرہ نسواں ہے نہ کوئی جزیرہ مرداں۔ دونوں جزیرے ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).