میں نے مادر علمی میں آواگون دیکھا


آوا گون ہندو دھرم کا ایک بنیادی عقیدہ ہے جو اِس کو نہ مانے وہ ہندو مذہب کا فرد نہیں۔ اِس کے مطابق موت کے بعد جسم اگرچہ فنا ہوجاتا ہے مگر روح قا ئم رہتی ہے، اعمال کے مطابق دوسرے اجسام کا روپ دھارلیتی ہے اوریوں ایک سفرِمسلسل جاری رہتا ہے۔ ہندومت کا یہ نظریہ میں نے سنا تو تھا مگر اِس پر یقین نہ تھا، لیکن ایک واقعہ نے میرے خیالات پر اثر ڈالا۔ میں آواگون کے نظریے کو مکمل مانتا تو ابھی بھی نہیں مگراِس پراب کسی حد تک یقین رکھتا ہوں۔

بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرکے جب میں وطن واپس آیا تو اپنی مادرِعلمی میں ہی بحثیت استاد متعین ہوگیا۔ یہ ایک عجب تجربہ تھا، وہی کمرے جہاں آپ کبھی بحثیتِ طالبعلم بیٹھے تھے، وہ ڈیسک جس پرآپ سر رکھ کرسوئے تھے، وہ راہداریاں جہاں آپ اپنے اسا تذہ کو سلام کرتے گزرے تھے، وہ فضا جہاں آپ اپنے ساتھی طالبعلموں کے ہمراہ دھماکا چوکڑی مچا تے تھے، اب آپ کواستاد کی صورت دیکھ رہی تھی۔

پہلے دن کلاس میں لیکچر کے لیے کھڑا ہوا توماضی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ وہ ڈیسک جس پر پندرہ برس قبل میں نے بچپنے میں پرُکارکی نوک سے اپنا نام کھودا تھا، اب اُس پرکوئی اوراپنا نام لکھ رہا تھا۔ وہ سامنے والی کرسی پرمیں بیٹھتا تھا اورساتھ والی نشست پرمیرا دوست مظہرزیدی جو جوانی میں ہی اگلے جہان کے سفر پر چل نکلا۔ ایسا محسوس ہوا کہ وہ ابھی پچھلا دروازہ کھول کرآئے گا، بیٹھے گا اور سرگوشی میں کہے گا، ”گرمی بہت ہے، آج تو مر گئے۔

یہ نیا استاد بھی بالکل بے کار ہے ”۔ اسی کمرے میں ہم نے شاید یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلا امتحانی بائیکاٹ کیا تھا۔ جواں خوں تھے، استاد کسی ذاتی بنا پرامتحانات کے ہفتے سے قبل ہی اپنے مضمون کا امتحان لینا چاہ رہے تھے، ہم راضی نہ تھے مگراستاد صاحب نہ مانے۔ یہ رعایت دی کہ امتحان کثیر انتخابی یعنی ملٹیپل چوائس ہوں گے کہ چار ممکنی جوابات میں سے ایک درست کا انتخاب کرنا ہوگا۔ سو ہمیں امتحان سے گزرنا تھا، ہم نے مل کر اِس امتحان کے بائیکاٹ کا لائحہ عمل بنایا۔

اُدھرپرچہ تقسیم ہوا، اِدھرتین منٹ بعد پہلا طالبعلم جوابی کاپی واپس کررہا تھا، اوراُس کے پیچھے بارش کے قطروں کی مانند پوری کلاس پیپرواپس کررہی تھی۔ کسی نے سوال پڑھنے کی زحمت بھی نہ کی تھی۔ منصوبے کے مطابق پہلے سوال کا جواب سب سے پہلا ممکنہ جواب، دوسرے سوال کا جواب دوسرا ممکنہ جواب، تیسرے سوال کا جواب تیسرا ممکنہ جواب اور چوتھے سوال کا جواب چوتھا ممکنہ جوا ب چناُ تھا۔ یہی ربط اگلے سوالات کے جوابات میں دیا، درست یا غلط کے پیمانے سے قطٰع نظر تمام جماعت کے برابر نمبر تھے۔ ایسا پرچہ پھر کبھی نہ حل کرنے کا موقع ملا۔ ڈانٹ تو بہت پڑی مگراستاد صاحب کو پرچہ دوبارہ لینا پڑا اور کلاس کی مرضی کی تاریخ پر۔

ا پنی مادرِعلمی میں پڑھانا آسان کام نہیں، عجب محسوسات تھے۔ میرے سامنے بڑی قد آورمثالیں تھیں، شعبہ ریاضی کے ڈاکٹرامین تھے جو کہ اپنے شاگردوں کے لیے پدرانہ شفقت رکھتے تھے، محبت آمیز، کھلے ڈلے پنجابی۔ اُنکا ایک واقعہ مشہورتھا جب ہمارے ایک طالبعلم ساتھی نے اُنہیں امتحانی پرچے چیک کرتے دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب کے دفتر کا دروازہ کھلا تھا اور وہ دنیا سے بے خبرپرچے چیک کررہے تھے۔ اُنکی لگن اورشاگردوں سے محبت اِسی چیکنگ سے ہی ظاہرہورہی تھی، جواب کے ایک ایک قدم پردرست کا نشان لگاتے تھے اور خوش ہوکراونچی آواز میں کہتے تھے، ”شاوا پتر“۔

ہمارا دوست چُھپ کراُنکے اِس والہانہ پن سے محظوظ ہونے لگا۔ ”شاوا پتر، شاوا پتر“ کی آوازیں سنُ کراُس کے لبوں پرمسکراہٹ تھی، مگریہ مسکراہٹ قہقہے میں بدل گئی جب ڈاکڑ صاحب نے درست نشان لگاتے لگاتے امتحانی پرچے پرغلط کا نشان لگایا اوراُسی روانی میں باآوازِ بلند بولے، ”حرام دا پتر“۔ اب ایسے شفیق اور خیال کرنے والے استاد کے نقشِ قدم پر چلنا آسان تو نہ تھا۔

ہمارے ہم جماعت کے والد ڈاکٹربٹ تھے جنہوں نے پوری ڈگری کے درمیان ہمیں کوئی کورس نہ پڑھایا کہ اپنے بیٹے کو کسی رعایت دینے کا خیال بھی ذہن میں نہ آئے۔ ایسے استاد جو پرچہ بانٹ کر طا لبعلموں کو کہتے تھے کہ ہمیں آپ پر بھروسا ہے اورپھر کلاس روم سے چلے جاتے تھے اور کیا مجال کہ کوئی طالبعلم کسی دوسرے کے پرچے کی جانب آنکھ بھی اُٹھا کر دیکھے۔ اعتماد اوراُس کی آبیاری میں نے اسی یونیورسٹی میں سیکھی۔

اس تمام پس منظرمیں میں اپنی ہی یونیورسٹی میں پڑھانے سے گبھرایا ہوا تھا۔ پہلے دن شعبہ کے سربراہ، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ، ڈاکٹرندیم سے اُنکے دفترمیں ملاقات ہوئی۔ میری طرح اپنی پہلی ڈگری اِسی یونیورسٹی سے حاصل کی تھی اوربعد میں امریکہ سے ڈاکٹریٹ کرکے آئے تھے۔ میں نے اپنی پریشانی کا ذکرکیا کہ اِس سے قبل پڑھانے کا کوئی تجربہ نہیں اوراپنے پرانے اساتذہ کی قدآوریت دیکھتا ہوں توخود کوایک بونا پاتا ہوں۔ کہنے لگے کہ آپ اِسی ادارے کے فارغ التحصیل ہیں، یہاں کی اقدارسے بخوبی واقف ہیں، ماحول آشنا ہیں، محنت کیجیئے، ایمانداری سے کام کریں۔ آپ کے سامنے تابندہ مثالیں ہیں، مجھے امید ہے کہ آپ اِس ادارے کے لیے اچھا اضافہ ثابت ہوں گے۔ میری ہمت بندھائی، میری اُن سے پہلی ملاقات تھی، اچھے لگے، پرُاعتماد اورخوش اخلاق۔

جب ڈیپارٹمنٹ میں کچھ عرصہ گذارا توعلم ہوا کہ ڈاکڑ ندیم پرُ اعتماد ہونے کے ساتھ ساتھ موقع شناس ہیں، زبان دانی کو آسانی سے بڑھا کرچرب زبانی پر لے جاتے ہیں، کردار کے نہیں بلکہ گفتار کے غازی ہیں۔ اپنے اُوپروالوں کے سامنے بچھ بچھ جاتے جبکہ ماتحتوں کو بلاوجہ بے نقط سنانے لگ جاتے۔ اکثراُن کے متعلق مختلف قصے سننے کو ملنے لگے۔ اُن کے ساتھ میرے بیتے ایک واقعہ سے ہی آواگون پرمیرے یقین کی بنیاد پڑی۔

ہماری یونیورسٹی کا شمارملک کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا تھا۔ معاشرے کی ہرسطح سے ذہین طلبا یہاں داخلہ لیتے تھے، اِن طلبا میں سے چند لاپرواہ بھی ہوتے تھے مگر پڑھائی کی چھلنی ہمارے ہاں بڑی سخت تھی کہ دانے دانے کوالگ کردیتی تھی۔ اُس سال پانچویں سمسڑ کے طلبا کو میں نے ایک کورس پڑھایا، یہ ایک بنیادی کورس تھا کہ اس کے بعد آنے والے کورسز اس پرانحصار کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سمسڑ سسٹم میں طلبا کو پورا سمسڑ باقاعدگی سے پڑھنا پڑتا ہے، حقیقتاً ”سمسڑ سسٹم میں استاد کو بھی پورا سمسڑ باقاعدگی سے کام کرنا پڑتا ہے۔

لیکچرز کے ساتھ ہفتہ وارانہ کام طلبا کو تفویض کریں، ہفتے میں ایک غیر اعلانیہ مختصر امتحان جسے کوئز کہتے ہیں، لیجیے۔ لیب کے کام میں پہلے رہنمائی کریں پھرطلبا کو کام دیں اور بعد میں اِسکی درستگی کریں۔ سمسڑ کے دوران عموماً تین عدد ایک گھنٹہ دورانیہ کے امتحانات لیں جن کو ہماری یونیورسٹی میں ون آورکہا جاتا تھا بعض جگہ اِسے سیشنل کہا جاتا ہے۔ اگرکوئی طالبعلم کسی وجہ سے غیر حاضرہوتواس کے لیے علیحدہ امتحان بنا ئیں۔

امتحانی پرچوں کا تیارکرنا اورتمام امتحانی کاپیوں کی وقت پرتصحیح کرکے واپس دینا استاد کے لیے اچھا خاصا کام ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ طلبا کی رہنمائی، تعلیم و تربیت سے لے کر انفرادی واجتمائی معاملات تک آپ کو خوب مصروف رکھتے ہیں۔ غرض صحیح استاد بننا سہل کام نہیں مگر یقیناً بہت ثمرمند ہے۔ تمام چھوٹے سے چھوٹے امتحان بھی چیک کر کے واپس کیے جاتے کہ طلبا اپنی غلطیوں سے باخبر ہوں اورانہیں نہ دہرائیں۔ اِن تمام امتحانی چیکنگ کی بنیاد پر نتیجہ بنتا۔

سمسڑ کے آخرمیں فائنل امتحان ہوتا۔ اساتذہ اُس وقت خوب مصروف ہوتے کہ سمسڑ کے تمام امتحانات کی بنیاد پر مکمل نتیجہ تیار کریں اوروقت پررجسڑارکو جمع کرائیں۔ رجسڑار کو جمع کرانے سے قبل صدرِ شعبہ یعنی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نتیجہ کو دیکھتے، اگر کوئی رائے ہوتی تو بتا دیتے اوراپنے دستخط ثبت کرتے۔ یہ رائے استاد کی رضامندی پرمنحصرہوتی کہ ہماری یونیورسٹی کی روایات میں استاد مقدم تھا اور اس وجہ سے بھی کہ وہ مضمون اُس نے پڑھایا ہوتا سو تمام معاملات وہ ہی بہتر جانتا۔

سواُس سمسڑ کے آخری دن تھے اورمیں وقت پرکام مکمل کرنے کی کوشش میں تھا۔ فائنل امتحان چیک کرکے اپنی کلاس کو دکھایا کہ وہ اپنے نمبروں کی جانچ کرلیں۔ یہ بھی ایک عجب تجربہ ہوتا ہے، طلبا اپنے نمبر بڑھوانے کی کو شش کرتے ہیں اورمختلف توجیہات دیتے ہیں، بعض درست اور بعض ہنسی آمیز۔ اسی یونیورسٹی کے سابقہ طالبعلم ہونے کے ناتے میں ان تمام پینتروں سے عملی طور پرواقف تھا۔ طالبعلم آپ کے پاس پرچہ لے کر آئے گا، ”سر، آپ نے میرے نمبر یہاں پر کاٹے ہیں، میں اصل میں یہ کہنا چاہ رہا تھا، مگر صحیح طور پر لکھ نہیں سکا، سر میرے نمبر بڑھتے ہیں“۔

اُس وقت تک اُسے درست جواب کا علم ہوچکا ہوتا تھا، اب استاد مخمصے میں ہے کہ کیا کرے، اُسی وقت دو تین سوال پوچھنے پر طالبعلم کی موضوع پر گرفت کا اندازہ ہوجاتا۔ ایک اور کسی ساتھی کا پرچہ اُٹھائے آجائے گا، ”سر، آ پ نے میرے ساتھی طالبعلم کو تو میری طرح کے جواب کے اتنے نمبر دیے ہیں اور دیکھیے مجھے کم نمبر دیے ہیں، سر میرے نمبر بھی بڑھایے“۔ ان معرکوں کا ایک عمومی حل یہی تھا کہ آپ پرچے کا حل پہلے بنائیں جس میں ہرجواب اوراُس کے عمل کے واضح نمبر متعین کر دیں اورتمام پرچے اِس کے مطابق چیک کریں۔ کسی طالبعلم کے نمبری استفسار پر یہ حل شدہ پرچہ آپ کی بہت مدد کوآ تا۔ طلبا کو فائنل پرچہ دکھانے اور رجسڑار کو رزلٹ جمع کرانے میں چند دن کا وقفہ ہوتا ہے۔ جب یہ آخری پرچہ دکھا دیا جاتا ہے تو طلبا کو اپنے گریڈ کا اندازہ ہو جاتا ہے کیونکہ اب ان کے پاس پورے سمسڑ کے تمام نتیجے ہوتے۔

اُس سمسڑمیری جماعت کے کچھ طلبا میرے مضمون میں فیل ہو رہے تھے، اُنہیں میں ایک میری لیکچرشپ سے قبل نوکری کے بڑے افسر کا بیٹا تھا۔ شام کو اُن صاحب کا فون آ گیا، کھل کرتو نہ کہا مگر اشارے کنائے میں عندیہ دیا کہ کسی طرح فرزند کو پاس کردوں۔ میں مروتا ”فون بند نہ کرسکا مگرکوئی حامی بھی نہ بھری۔

اگلے دن صبح یونیورسٹی میں دفتری نے آ کرپیغام دیا کہ صدرِ شعبہ اپنے دفتر میں رزلٹ کے ہمراہ یاد کرتے ہیں۔ ڈاکڑندیم خلافِ معمول بڑے ملنسار ملے، بٹھایا اور رزلٹ پرنگاہ ڈالی۔ کہنے لگے، آپ کے پڑھانے کی تعریف سُنی ہے۔ آپ پڑھاتے بھی محنت سے ہیں مگرمیں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے مضمون میں کچھ طلبا فیل ہیں، اِس سے آپ کا اچھا تاثر نہیں جاتا۔ میں نے کہا کہ یہ تو طلبا کی کارکردگی ہے۔ اگر کچھ فیل ہیں تو دوسرے بھی تو ہیں جنہوں نے اپنی محنت سے نوے فیصد کے قریب نمبرحاصل کیے ہیں۔ میں باقاعدگی سے سمسٹر کے دوران طلبا کو اُنکی کارکردگی بتا تا رہا ہوں۔ یہ فیل شدہ طلبا مسلسل تنبیہ کے باوجود پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دے رہے تھے۔ میں نے انہیں فیل نہیں کیا بلکہ یہ خود فیل ہوئے ہیں۔ کہنے لگے کہ بہتر ہے کہ آپ اِنہیں پاس کردیں۔

یہ ایک لمحہ تھا، ایک ساکت لمحہ۔ ایسا لمحہ جو پھیلے تو کئی برسوں پرمحیط ہوجائے۔ زندگی لمبی نہیں صرف لمحوں پر مشتمل ہے۔ ایک لمحہ ہی زندہ ہوتا ہے، باقی تو ہم صرف سانس لیتے ہیں۔ لمحہ فیصلہ مانگتا ہے، اپنے گردوپیش سے بالاترہوکر۔ ایک لمحے کا غلط فیصلہ زندگی بھر کا پچھتاوا بن جاتا ہے، برس ہا برس کا ما تم، سینہ کوبی کرتا۔ وقت ایک لمحے کا غلام ہو تا ہے، زنجیر بپا، کڑیوں میں جکڑا ہوا، کسی پیرول یا رہائی کے امکان کے بغیر۔

میں چپُ چاپ بیٹھا تھا۔ ڈاکٹرصاحب نے میری ہچکچاہٹ بھانپ لی۔ ملائم لہجہ میں کہنے لگے، ”میں آپ کا بڑا ہوں، آپ کی بہتری چاہتا ہوں۔ آپ اِن فیل شدہ کو پاس کر دیں“۔ کسی کرم کے طفیل میں اُس لمحے کا ادراک کر پایا تھا۔ میں نے کہا، ”ڈاکٹر صاحب، میں اِسی یونیورسٹی کا طالبعلم رہا ہوں، یہاں کی روایات کا امین، میرے لیے یہ ممکن نہ ہوگا“۔ ڈاکٹر ندیم نے میری جانب دیکھا اورنیا پینترا بدلا، کہنے لگے، ”دیکھیے، میں آپ کے ساتھ ہوں، مگر مجھے اوپر سے کہا گیا ہے کہ اِن طلبا کو پاس کریں۔

اِن کو پاس کرنا ہوگا ”۔ میں نے اُنکی جانب نظر اُٹھا کر دیکھا۔ منظر بدل چکا تھا۔ کرسی پر گہرے رنگ کا گھنگریالے بالوں والا پالتو کتا تھا، بھاگ کر اپنے مالک کی گود پرچڑھ جانے والا۔ گیند پھینکوتو لپک کر اٹھا لائے، شاباش پائے۔ مالک کے چہرے کی جانب منہ اُٹھا کردیکھنے والا، متواتردم ہلانے والا۔ وفادار، مالک کے کردار سے بالاتر ہو کر وفادار۔ میں نے سوچا کہ کیا یہی آواگون ہے۔

میں نے ڈاکٹر صاحب سے معذرت کی مگر وہ پینترے بدل بدل کر آتے رہے۔ گھنٹہ گزرچکا تھا اورمیں ذہنی طور پرتھک چکا تھا۔ ڈاکٹرصاحب کا لہجہ تلخ ہوتا جارہا تھا۔ کہنے لگے، ”لیکچرر صاحب، میرا خیال تھا کہ آپ زندگی کے حقائق سمجھتے ہیں، مگر لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ آپ کو سبق ملے گا تو تب ہی سمجھیں گے“۔

یہ دھمکی تھی اور ڈاکٹرصاحب کا روپ بدل چکا تھا۔ اُنکی آنکھوں میں غصہ، نفرت، تضحیک سب کچھ تھا، اُنکی باچھیں لٹک رہی تھیں۔ میں نے اپنے مضافاتی قصبے کے باہرسالانہ منعقدہ میلے میں کئی دفعہ کتوں کی لڑائی دیکھی تھی۔ میری نظروں کے سامنے اب ایک بلُ ڈاگ تھا، پلا ہوا، چھوٹے کان، جسم گٹھا ہوا، سیاہ رنگ، باچھیں لٹکی ہوئیں، آ نکھیں نفرت آمیز، چہرہ نشان زدہ، منہ دوسرے کی گردن دبوچنے کو بیتاب۔ میں نے سوچا کہ کیا یہی آواگون ہے۔

کتوں کی لڑائی میں لوگ رسے اورڈنڈے لیکرکھڑے ہوتے ہیں۔ اگرایک کتا دوسرے کی گردن دبوچ لے تو آپ جتنا مرضی رسا ڈال کرکھینچیں، وہ گردن نہ چھوڑے گا جب تک گوشت کا لوتھڑا الگ نہ کر لے۔ ایسے میں کتے کے منہ میں ڈنڈا ڈال کر منہ کُھلوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بپھرے ہوئے کتے کے ساتھ آسان کام نہیں، مگر پھر بھی کامیاب ہونا یقینی نہیں۔ اِس پرآخری حربہ کتے کے کان میں پانی ڈالنا ہوتا ہے۔ پانی کی تھوڑی سی مقدارکان میں جاتے ہی کتا دوسرے کی گردن چھوڑ دیتا ہے۔

کان میں پانی ڈالنے کا موقع آ گیا تھا۔ میں نے انہیں کہا، ”ڈاکٹر صاحب، میں تو نتیجہ نہ بدلوں گا۔ آپ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت سے اپنے دستخط کر کے تبدیل کردیں۔ اور ویسے بھی آج سے قبل توآپ بھی ایمانداری کا درس دیتے تھے“۔ ڈاکٹر صاحب کا منہ کھل گیا۔ کہنے لگے، ”جائیے، میں سمجھ گیا آپ نہ مانیں گے، مجھے کچھ اور کرنا ہوگا“۔

می٘ں اُٹھا اوراپنے دفترآگیا۔ تھوڑی دیرمیں ایک اورلیکچرر تشریف لائے اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے حکم کے مطابق تمام رزلٹ کی کاپیاں لے گئے۔ نتیجے میں ردوبدل ہوئی اورتمام جگہ پرپڑھانے والے استاد کی جگہ پردوسرے لیکچرر نے دستخط کیے اور صدرِشعبہ کے سائن کے بعد رجسڑار کے پاس نتیجہ جمع ہوگیا۔ وہ پتھرجسے میں نے بھاری جان کر چھوڑ دیا تھا، دوسرے لیکچرر نے چوم کر اُٹھا لیا۔

اس واقعہ کے بعد سے میں آواگون پر یقین رکھتا ہوں۔ موت کے بعد کا تو علم نہیں مگر زندگی میں لوگ اپنی جون بدلتے ہیں۔ اگلا روپ اُن کے اعمال کے مطابق ہوتا ہے، خوبصورت یا بدصورت، خوش آمیز یا زہر آلود، خوشبودار یا بدبودار۔ بس ذرا وقت گذاریے، واسطہ پڑے گا اور آپ جان جائیں گے۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor