روز بیتی کہنا سہل نہیں


چاہتا تو لوگوں کی ازدواجی یا محض خانگی زندگی کی دسیوں کہانیاں لکھ سکتا تھا اور لکھ سکتا ہوں۔ دو جمع دو چار کی مانند جان لیجیے کہ دو انسانوں کی باہم زندگیوں میں چلی سے لے کر جاپان تک اور ناروے سے لے کر نیوزی لینڈ تک، کوئی فرق ہوتا ہے تو بس اٹھارہ بیس کا ویسے کوئی فرق ہوتا نہیں ہے۔

بیاہتا ہوں یا باہم بسر، بے اولاد ہوں یا با اولاد معاملات قریب قریب ایک سے ہوتے ہیں بس کہیں زیادہ وقت اکٹھے گذارنے یا کم وقت باہم بتانے کا فرق ہوتا ہے۔

یہ درست ہے کہ ثقافتی تضاد ہو سکتا ہے، وہ تو ایک ہی ملک میں مختلف قوم یا قومیت کے مختلف زبان بولنے والوں اور مختلف جغرافیے کے مختلف رسوم و رواج سے شناسا اور ان پر کم یا زیادہ عمل کرنے والوں کے درمیان بھی ہو سکتا ہے۔

ہندوستان میں میرے والدین کے قصبوں میں کوئی سو ڈیڑھ سو میل کا فاصلہ تھا مگر ان دونوں کی تہذیب مختلف تھی، زبان مختلف تھی، پرورش اور اطوار مختلف تھے اس لیے ان کی زندگیوں میں ثقافتی تضاد موجود تھا۔

میں نے اپنی زندگی کی تازہ وارادات سے متعلق اس لیے لکھا کہ حال ہی میں میری خود نوشت سوانح کا پہلا حصہ ”پریشاں سا پریشاں“ کتابی شکل میں لوگوں تک پہنچا ہے، جس میں بیان کی بیباکی اور حق گوئی کو خاصا سراہا گیا ہے، عام لوگوں سے لے کے افتخار عارف جیسے عالم لوگوں تک نے۔ مگر جب گذشتہ دو مضامین فیس بک پر سامنے آئے تو ایسے ایسے ماہرین سماجیات، ماہرین نفسیات، نقاد اور شارح سامنے آئے کہ مجھے لگا جیسے میں فی الواقعی ”جہالت کی نہوست“ ہوں۔

میں کسی کی انسان دوستی، اصلاح سماج، اخلاقیات اور عمرانیات کی صلاحیتوں کے بارے میں طے کرنے والا کوئی نہیں ہوں، اسی طرح مجھے بھلا نہیں لگے گا کہ کوئی مجھے جانے بن ہزار ڈیڑھ ہزار الفاظ پڑھ کے مجھے خود پسند، مہم جو، خود اذیتی کا شکار اور نمعلوم کیسے کیسے القاب و اوصاف سے بہرہ ور کرے۔

ایک شخص اگر ایک تحریر کی بنیاد پر مجھے خود پسند کہتا ہے تو اسی تحریر کو پڑھ کے دوسرا قاری مجھے خود اذیتی کا شکار قرار دے دیتا اور تیسرا میری کہی اس بات کو کہ مجھے قانونی طور پر بیوی کے ساتھ ہی پیار ہے، جھوٹ قرار دے دیتا ہے، دلیل یہ کہ پیاری بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری بیوی کیوں کی؟

میں ابھی ہوئی ایک بات بتاتا ہوں کہ میں نے اپنے تین بچوں کی ماں سے کہا، تمہیں معلوم ہے نا میں تمہیں کتنا ناپسند کرتا ہوں اور یہ بات بچوں کے سامنے ہوئی تو اس نے ہنس کے کہا، تو کیا ہوا؟ اس سے مجھے نہ سردی محسوس ہوتی ہے نہ گرمی لگتی ہے۔ بچے ہیں، آپ ہیں بس ٹھیک ہے۔ میں نے کہا پوچھو تو سہی کیوں ناپسند ہو۔ بولی میں سوال نہیں کروں گی۔ خجل ہو کے مجھے خود ہی بتانا پڑا کہ پہلی بات تو یہ کہ تم مسلسل فون پر باتیں کرتی رہتی ہو دوسری بات یہ کہ تم بچوں کو ڈانٹتی رہتی ہو، اس لیے ناپسند ہو۔

دیکھیے مجھے تو آپ میری تحریروں کے حوالے سے کسی نہ کسی حد تک جانتے ہیں مگر میری بیوی کو تو بالکل نہیں جانتے کہ وہ کس قدر ضدی ہے، اگر وہ کسی سے، چاہے اس کا بڑا بھائی ہی کیوں نہ ہو، کسی بات پر منہ موڑ لے تو وہ سالہا سال اسے منہ نہیں لگاتی۔ وہ جب گھر کے کاموں میں مصروف ہو تو بچے جائیں بھاڑ میں اور ایسی بہت سی باتیں۔ چنانچہ محض نسائیت پرستی میں اس کے حق میں ہونا اگر آپ کو پسند ہے توہوتے رہیں میری بلا سے۔

ہر انسان اوصاف اور نقائص کا مرقع ہوتا ہے۔ ایک ہی طرح کے اوصاف آپ کو باہم کرتے ہیں اور ایک ہی طرح کے نقائص آپ کو ایک دوسرے سے ذہنی طور پر دور۔ نقائص جیسے اناپرستی اگر مجھ میں ہے تو اس میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے، اگر خودپسندی یا نرگسیت مجھ میں کسی حد تک ہے تو اس میں اس حد سے آگے ہی ہوگی۔

اسی لیے ہم نے شروع سے فیصلہ کیا تھا کہ نکاح کرنا ہماری مذہبی مجبوری یا فرض ہے مگر ہم اکٹھے مگر دور دور رہیں گے، جسے انگریزی میں ”Living apart together“ کہا جاتا ہے۔ لیکن حالات نے ہمیں اکٹھا ہونے پر مجبور کر دیا۔

بچے خوش ہوتے ہیں مگر بچوں کی خوشی لمحاتی اور عارضی ہوا کرتی ہے جس کے بعد ان کی اپنی دلچسپیاں ہوتی ہیں۔ زندگی تو بڑوں کی ہوتی ہے جو بچوں کے ہوتے ہوئے بھی عذاب ہو سکتی ہے اور بچے نہ ہوتے ہوئے بھی خوشگوار۔

محبت یا تعلق کی خاطر ذہنی ہم آہنگی ہونا بہت ضروری ہوتا ہے جبکہ جسمانی تعلق کے لیے جس کے سبب بچے پیدا ہو جاتے ہیں، محض ہیجان کافی ہوتا ہے۔ ذہنی ہم آہنگی کے لیے ایک سا مطالعہ، ایک سی سوچ، ایک سا انداز فکر ہونا ضروری ہے بصورت دیگر ایک اشفاق حسین کی بات کرے گا تو دوسرا قرہۃ العین کی، ایک آرٹ مووی دیکھنا چاہے گا تو دوسرا بلاک بسٹر، ایک لائبریری جانا چاہے گا تو دوسرا شاپنگ مال جانے کی جانب کھینچے گا۔

میں ٹھہرا ہمیشہ کا وجودیت پرست، اب اس پر کوئی کامریڈ لتے لینے لگے گا کہ تم تو مادیت پرست تھے۔ ہاں نا بھائی وہ بھی تھا لیکن اندر سے آدمی بکھرا ہوا، تشکیک پسند، زندگی گذارنے پر مجبور شخص بھی تو ہوں۔ یوں جناب اگر آپ مجھ سے بہت نزدیک نہیں ہیں میمونہ اور نینا کی طرح تو آپ مجھے بالکل بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اب آپ کا شکوہ ہوگا اگر میمونہ اور نینا سمجھتی تھیں تو وہ چھوڑ کیوں گئیں۔ بھیا میمونہ معیشت کے بحران کے سبب چھوڑ گئی تھی مگر دو چار سال بعد اسے معلوم ہو گیا تھا کہ میں آدمی برا نہیں ہوں، بس جیسا ہوں ویسا ہی ہوں۔

نینا انسان پر ملکیت کے غلط حق کی پامالی پر جدا ہونے کا سوچ بیٹھی ہے مگر وہ آج بھی مجھ سے رابطے میں ہے اور سال چھ ماہ بعد اس کو بھی یاد آئے گا کہ جو میرے ساتھ ہوا جو ظاہر ہے میں نے خود سے خود ہی کیا ہے، اس کے بارے میں میں پہلے روز سے ہی اسے بتا رہا تھا کہ میں کسی ایک کی تو کیا کسی کی بھی ملکیت ہونے سے سراسر انکاری ہوں۔ ہوں ہی ایسا تو کیا کروں؟ اگر آپ مجھے نفسیاتی علاج کا مشورہ دیں گے تو چھ ارب انسانوں کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہوگی ان ہزاروں تک کو جو نفسیاتی معالج کہلاتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).