انصاف کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے


سرزمین سندھ صوفیا کرام بزرگوں کی دہرتی ہے۔ جس نے ہمیشہ صوفی بزرگ ولی اللہ کے ساتھ عالم عامل لیڈر اور سپوت پیدا کیے ہیں جنہوں نے اپنے مثال کی قائم کی ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی، سچل سرمست، شاہ عنایت شہید، لال قلندر شھباز جبکہ سیاست میں شہید ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، و دیگر ہیں مگر شہید خالد محمود سومرو بھی ان میں سے ایک ہیں، موہن جو دڑو جسے عالمی شہرت حاصل ہے۔ موہن جو دڑو کی مٹی ایسی ہی جن کی تاریخ ہی الگ سے بنتی ہے۔

سندھ کے سپوت عظیم فلسفی، عالم با عمل، محقق، تاریخ دان، سابق سینیٹر بھادر انسان شہید ڈاکٹر خالد محمود سومرو جو ہمیشہ کسی بھی بات پر ڈٹ جاتے تھے تو کوئی اسے اپنے مقصد منزل سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ شاید اسی لئے اسے وقت سے پہلے زیر زمین بھیج دیا گیا۔ شہید اسلام علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ وادی مہران میں سکھر کی ایک مسجد میں دوران نماز فجر ادا کرتے ہوئے دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید ہوگئے۔ یہ خبر آگ کی طرح پھیلی اور سندھ تین روز تک نہ صرف سوگ میں تھا بلکہ مکمل لاک ڈاؤن بھی تھا۔

ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ جے یو آئی سندھ کے سیکریٹری جنرل اور سینیٹر آف پاکستان بھی رہ چکے تھے۔ جس کے قتل کے لئے ایک منظم پلاننگ سازش تیار کی گئی۔ قاتل اتنے عادی مجرم تو نہیں مگر انہیں پروفیشنل طریقے سے تربیت دی گئی کہ کس طرح جرم کرکے چھپایا جائے، اور کس طرح جرم سے فرار ہونے کی تربیت بھی دیدی گئی تھی۔ سندھ کے حقوق کے لئے اور اسلام کی سربلندی کے لئے اٹھنے والی آواز کو ہمیشہ کے لئے دبانے اور بند کرنے کا اصولی فیصلہ ہو چکا تھا۔

یوں شہید ڈاکٹر خالد محمود سومرو کو 2014 میں قتل کر دیا گیا۔ علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ اپنے بیٹے کی لاڑکانہ میں شادی چھوڑ کر سکھر امن کانفرنس میں شرکت کے لئے رات کو آئے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق قاتلوں نے سکھر کانفرنس میں حملے کے لئے پہلے ریکی کی مگر سیکیورٹی کی وجہ سے ناکام رہے۔ پولیس انویسٹیگیشن کے مطابق قاتلوں میں ایک سفید کپڑوں میں ملبوس کلین شیو گورے رنگ کا بندہ بھی تھا۔ اس میں اس وقت ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ کا پولیس اہلکار جو سیکیورٹی گارڈ تھا وہ بھی ملا ہوا تھا۔

اور وہ اہلکار قاتلوں کو تمام پروگرام کی موبائل فون پر تفصیل سے آگاہ کر رہا تھا۔ جو انہیں ہدایات دے رہا تھا، سکھر شہر محمد بن قاسم پارک میں پروگرام کی وجہ سے قاتلوں کو ناکامی ہوئی، یوں پروگرام کے خاتمہ کے بعد علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ نے رات دیر گئے تک سکھر میں ہونے کی وجہ سے اپنے زیر تعمیر مدرسے گلشن اقبال میں رات ٹھرنے کا فیصلہ کیا۔ قاتلوں نے بھے گاڑی کا تعاقب کیا اور یوں مدرسے کے سراؤنڈنگ میں انتظار میں تھے کہ کیسے موقعہ مل جائے اور وہ اپنے کام کو اختتام پر پہنچائیں۔

جیسے ہی فجر کی نماز کا وقت ہوا مدرسے کے گیٹ اور ایک مشرق کی طرف سے دروازہ کھلے۔ نمازی آنا شروع ہوگئے، یوں قاتل بھی نمازیوں کے بھیس میں مسجد میں داخل ہوکر مسجد کی پہلی صف پر فجر نماز کی سنت ادا کرنے والے سندھ کے ایک شیر بھادر بیٹے کے اوپر فائرنگ کی برسات شروع کردی۔ مسجد خون سے آلودہ ہوگئی۔ جسم سے خون بہنا شروع ہوگیا، دیگر نمازیوں کو قاتلوں نے اپنے ہتھیاروں کے زور پر قابو رکھا۔ اور جب آپ بیہوش ہوکر نماز کی حالت میں شدید زخمی ہوگئے۔

کچھ دیر کے بعد آپ کو سکھر کی ایک نجی حرا ہسپتال میں لایا گیا، مگر آپ کی شہادت لکھ چکی تھی۔ آپ اپنے پروردگار کے پاس چل بسے، آپ کی یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ سندھ میں سوگ کا سماں ہوگیا، علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومروؒ کی شہادت کے بعد کی جسد خاک کو سکھر ہسپتال سے لاڑکانہ اپنے گھر لایا گیا۔ بعد نماز مغرب کو لاڑکانہ میونسپل اسٹیڈیم میں نمازہ جنازھ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں کم و بیش 7 سے آٹھ لاکھ افراد نے شرکت کی۔

یہ جنازہ سندھ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ یوں تین روز تک احتجاج ہوا، سندھ مکمل جام ہو چکا تھا۔ مگر سکھر لاڑکانہ سمیت سندھ کے کسی کونے میں ایک درخت کا پتا تک نہ گرا نہ کسی عمارت گاڑی کا شیشا ٹوٹا، آپ کے دونوں بڑے صاحبزادوں راشد محمود سومرو اور ناصر محمود سومرو نے اپنی جماعت اور عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کر رکھی تھی، سکھر کے اس وقت کے ایس ایس پی تنویر تنیو نے انکوائری شروع کی، موبائل فون کے ٹریس کرنے کی وجہ سے آپ نے 6 ملزمان گرفتار کیے۔

جن میں مرکزی ملزم حنیف بھٹو تھے جنہوں نے گاڑی، اسلحہ رقوم دی اور واقعے واردات میں موجود رہے۔ دیگر گرفتار ملزمان میں مشتاق مہر، سارنگ ٹوٹانی بلوچ جو اس وقت ڈاکٹر خالد محمود سومرو کا گارڈ تھا اور سیکیورٹی پر معمور تھا، دیگر تین ملزمان میں دریا جمالی، الطاف جمالی اور لطف اللہ جمالی شامل تھے۔ پولیس نے تمام ملزمان کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا۔ دوران تفتیش تمام ملزمان نے اعتراف جرم کیا۔ اور یہاں تک کہ دیا کہ انہوں نے کئی مرتبہ پہلے بھی حملے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔

مگر ان مجرموں میں جو پہلے دن ایس ایس پی سکھر تنویر تنیو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک مجرم قاتل کلین شیو وائیٹ کلر کے کپڑوں میں ملبوس تھا اور قاتلوں کو ہدایات دے رہا تھا اس کا کوئی پتا نہیں ہے کہ وہ کون تھا کہاں گم ہوگیا اور پولیس نے اپنے کارروائی سے کیوں غائب کردیا تھا؟ اس کا پتا ہونا چاہیے کیونکہ جب تک اس سفید کلر پہنے کلین شیو بندے کو نہیں پکڑا جاتا اس سے قاتلوں کے سرپرستوں اور ماسٹر مائنڈ کا پتا لگانا مشکل ہوگا۔

ایسے تو نہیں کہ اس با اثر قاتل کی وجہ سے کیس ساڑھے چار سال سے سست روی کا شکار ہے۔ جب فوجی کورٹس وجود میں آئی تو شہید ڈاکٹر خالد محمود سومرو قتل کیس کے کاغذات تیار ہوئے تو سندھ سرکار نے رکاوٹ ڈالی تو جے یو آئی سندھ کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور کراچی میں دھرنا دیا گیا۔ سندھ سرکار نے خاطری کرائی کے اب بھیجا جائے گا پھر جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی قریب آرہی تھی تو جے یو آئی کی جانب سے سندھ کے تمام راستے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو سندھ سرکار نے تحریری معاہدہ کیا جس پر اس وقت کے ڈی آئی جی لاڑکانہ سائین رکھیو میرانی اور راشد محمود سومرو ناصر محمود سومرو نے دستخط کیے۔

مگر اس کے باوجود شہید ڈاکٹر خالد محمود سومرو کیس ملٹری کورٹ میں نہ جانے دیا گیا، اور یوں کیس انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر التوی کا شکار ہے۔ اس کے وقت گھرو وزیر چوہدری نثار بھی چا رہے تھے کہ کیس ملٹری کورٹ منتقل ہو جائے، مگر سندھ سرکار نہیں چا رہی تھی کہ کیس منتقل ہو جائے۔ پیپلزپارٹی آخر کیوں قاتلوں کو جیل میں سہولت دے رہی تھی، اس کی وجہ سیاسی ووٹ بینک تھا۔

اے ٹی سی کورٹ انسداد دہشت گردی عدالت کی مدت 7 روز تک کی ہے کہ 7 دن میں اے ٹی سی کورٹ ٹرائل مکمل کرکے کیس کو نمٹادے مگر 26 نومبر 2014 ع سے لے کر اب تک انسداد دہشت گردی عدالت میں کیس آگے نہیں بڑھ رہا۔ کیس ساڑھے چار سال سے اے ٹی سی کورٹ سینٹرل جیل سکھر میں زیر التوا کا شکار ہے۔ ساڑھے چار سال طویل عرصے تک صرف کیس کے فریادی، گواہان اور پرائیویٹ لوگوں گواہان کے بیان قلمبند ہو چکے ہیں۔ جبکہ پرائیویٹ مشیر، پولیس، آئی او، مئجسثریث، ڈاکٹر سمیت دیگر سرکاری گواہان اور مزمان کے بیان رہتے ہیں۔

لگتا تو یہ ہے کہ کیس کی سماعت مزید اگلے پانچ سال تک جاری رہے گی۔ جس عدالت کی کیس نمٹانے کی مدت 7 روز ہو وہ ساڑھے چار سال تک کیس کو گھما رہی ہو۔ تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں انصاف کا کیا تقاضا ہے؟ دو بار اے ٹی سی سکھر کورٹ ملزمان کے ضمانت پر رہا کرنے کی درخواست رد کر ل چکی ہے۔ جبکہ دو بار سندھ ہائی کورٹ بینچ سکھر بھی ملزمان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ اے ٹی سی کورٹ کو نمٹانے کا حکم دے چکی ہے۔

اب پانچویں بار ملزمان کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ بینچ سکھر ۾ نظرثانی کی درخواست دائر کی گئی تھی جو بھی مسترد ہوئی ہے۔ اے ٹی سی کورٹ کے لئے چھ سال نہیں تو ایک سال بھی بہت بڑا ، اگر دیگر سول کورٹ، سیشن کورٹس یا اے ٹی سی کورٹ دیر تک کیس کی سماعت کرے تو اے ٹی سی کورٹ کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ اسے برقرار رکھا جائے، اب تو اے ٹی سی کورٹ کی ضرورت نہیں ہے ایسے عام ٹرائل تو دیگر کورٹس میں چلایا جا سکتا ہے، پھر اے ٹی سی کورٹ کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

پاکستان میں کورٹس کی تعداد میں کمی ہے نہ ججز کی تعداد میں کمی ہے۔ مگر کمی ہے تو انصاف کی فراہمی میں کمی ہے، یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ ایک دینی مذہبی سیاسی جماعت کا سربراہ ہو اور سینیٹ کا ممبر رہ چکا ہو اگر اس کا قتل ہو جائے، اور کیس جس کورٹ میں بھیجا جائے اس کی مدت صرف 7 روز ہو اور وہ کورٹ ساڑھے چار سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود کیس کے گواہان ڈاکٹر اور سرکاری مشیروں کے بیان ریکارڈ نہ کرسکے تو اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عدالتوں پر بھی حکومت کتنی اثر انداز ہو رہی ہے، کہ ججز پر بھی اتنا پریشر ہے کہ وہ قتل کیس کا فیصلہ سنانے میں دیر کی جائے تاکہ کسی نہ کسی طرح قاتلوں کو سزا سے بچایا جائے، کیونکہ اس وقت بھی قاتلوں کو سکھر سینٹرل جیل میں تمام وہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جو اس وقت نواز شریف شہباز شریف کو بھی فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔ قاتلوں کے سرپرست ان کو جیل میں کسی قسم کی تکلیف برداشت کرنے نہیں دیتے۔

جس وقت چاہتے ہیں جیل میں پابندی کے باوجود اپنے ورثا رشتیداروں دوستوں سے مل سکتے ہیں اور ہر قسم کی سہولیات لے سکتے ہیں، یہ پہلے ہائی پروفائل قتل کیس کے مجرم ہیں جن کو اتنا پروٹوکول دیا جا رہا ہو۔ شاید قاتل اپنے سرپرستوں کو پیغام بھجواتے ہوں گے کہ آپ نے تو کہا تھا کہ آپ کو اس جرم عظیم کے بعد نہ پولیس گرفتار کر سکے گی نا کوئی مقدمہ درج ہوگا نہ گرفتاری ہوگی، وہ اب تک آزاد کیوں نہیں ہو رہے اور انہیں ضمانت کیوں نہیں دی جا رہی ہے۔ اب عدلیہ پر ہے کہ وہ قانون کے مطابق کیس نمٹا کر فیصلہ جلد سناتی ہے یہ کسی مصلحت کے تحت کیس کو مزید 5 سے 7 سال تک الجھاتی رہے گی۔ امید ہے شہید ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے بیگناہ خون سے انصاف ہوگا، اور پیپلز پارٹی قیادت اس کیس میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).