’عوامی عدالت جج کے فیصلے کو کلعدم قرار نہیں دے سکتی‘


احتساب عدالت

احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹانے اور ان کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں سے متعلق قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کہ اگر کوئی جج متنازع ہو جائے تو اس کے فیصلے فوری طور پر کالعدم قرار دے دیے جائیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر رشید اے رضوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جو چیزیں ابھی تک سامنے آئی ہیں ان میں سے چند چیزوں کا جج ارشد ملک نے اقرار کیا ہے اور چند باتوں سے انکار کیا ہے اس پر جامع تحقیقات ہونی چاہیں کیونکہ اس کی بڑی سزا بھی ہو سکتی ہے جس میں ان کی برطرفی بھی شامل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ان پر الزامات ثابت ہو جائیں تو ان کے فیصلوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہونگے۔ یہ مقدمہ کتنا سنگین ہے اس کا فیصلہ تو اعلیٰ عدالت ہی کرے گی۔

رشید اے رضوی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے فیصلوں کو کالعدم قرار دینا کا انحصار ایپلٹ کورٹ پر ہے کہ وہ کس انداز سے اور کس حد تک لے جاتی ہے کیا وہ اس کو مس ٹرائل قرار دیتی ہے یا ری ٹرائل کا حکم دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

وزارت قانون کا جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روکنے کا حکم

’نواز شریف کو جیل بھیجنے والے جج دباؤ میں تھے‘

ججوں کی آڈیوز، ویڈیوز اور تاریخی اعترافات

مریم نواز نے جج ارشد ملک کی دو مبینہ ویڈیوز جاری کر دیں

ان کا کہنا تھا ’اس کا دارومدار اپیل کنندہ یعنی مسلم لیگ ن پر بھی ہے کہ کیا وہ اس معاملے کو اعلیٰ عدالت لے کر جاتے ہیں کیونکہ انھوں نے ابھی تک اس معاملے کو اعلیٰ عدالت کے دائرہ کار میں پیش نہیں کیا ہے۔ اپیل کنندہ کا تو موقف ہے کہ انھوں نے اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں دے دیا ہے۔ لہذا اب عوامی عدالت تو جج صاحب کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی۔`

انھوں نے مزید کہا ’مسلم لیگ کا کام تھا عدلیہ کو بدنام کرنا وہ، وہ کر رہے ہیں جبکہ ان کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔‘

نیب کے سابق ایڈشنل پراسیکوٹر جنرل ذوالفقار بھٹہ کے مطابق ایسے کسی بھی جج کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جہاں ایک طرف ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سزا سنائی ہے وہی فلیگ شب ریفرنس میں انھیں بری بھی کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد اگر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں احتساب عدالت کے جج سزا سناتے ہوئے دباؤ میں تھے تو پھر جس مقدمے میں سابق وزیر اعظم کو رہائی ملی تو اس وقت جج کی ذہنی کیفیت کیا تھی کیونکہ دونوں فیصلے ایک ہی دن سنائے گئے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے بیان حلفی کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنا دیا ہے اور مجرم نواز شریف کی طرف سے اس مقدمے میں بریت کی درخواست میں زیر غور لایا جائے گا۔

نیب کی طرف سے العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں احتساب عدالت کی سزا کو بڑھانے اور فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئیں ہیں۔

شعیب شاہین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ احتساب عدالت کے جج کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے یہی ثبوت کافی ہے کہ انھیں جب ملزم پارٹی کی طرف سے مبینہ طور پر رشوت کی پیش کش کی گئی تو انھوں نے اس سے متعلق سپروائزری جج کو اس بارے میں کیوں نہیں بتایا۔

واضح رہے کہ عمومی طور پر احتساب عدالتوں کی نگرانی متعقلہ ہائی کورٹ کرتی ہیں۔ لیکن میاں نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں دائر ریفرنس کی نگرانی سپریم کورٹ کے جج اعجاز الاحسن کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ارشد ملک کے خلاف تحقیقات کرنے یا انھیں ان کے عہدے سے ہٹانے سے متعلق فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کریں گے کیونکہ ارشد ملک لاہور سے ڈیپیوٹیشن پر اسلام آباد آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

’ویڈیو ٹیپ کی فرانزک تحقیقات کرائیں گے‘

شعیب شاہین کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ بریت سے متعلق مجرم نواز شریف کی درخواست کے بارے میں بھی اپنا فیصلہ دیتے ہوئے ملک ارشد کے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

مریم نواز

انھوں نے کہا کہ عدالت عالیہ نواز شریف کے خلاف دیے گئے احتساب عدالت کے فیصلے سے متعلق کسی اور جج کو بھی حکم دے سکتی ہے کہ موجودہ شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے کا دوبارہ فیصلہ تحریر کرے۔

انھوں نے کہا کہ عدالتی تاریخ میں ایسی مثالیں بھی موجود ہے جب کسی جج کے کنڈکٹ کی وجہ سے کسی مقدمے کا ری ٹرائل کیا گیا اور سنہ 2001 میں سابق صدر آصف علی زرداری کا مقدمہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔

نیب کے سابق ایڈشنل پراسیکوٹر جنرل عامر عباس کا کہنا ہے کہ جب کسی عدالت کے جج کی طرف سے کوئی فیصلہ آجائے تو اس کے بعد اسے متنازعہ بنا دیا جائے یا وہ اپنے رویے کی وجہ سے متنازعہ ہو جائے تو اعلیٰ عدالتوں میں اس فیصلے کے خلاف اپیلوں میں جج کا رویہ زیر بحث نہیں آتا۔ بلکہ اس کے دیے گیے فیصلے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ارشد ملک نے بطور احتساب عدالت کے جج کے جتنے بھی فیصلے کیے ہیں وہ برقرار رہیں گے۔ عامر عباس کا کہنا تھا کہ اگر العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں دی جانے والی سزا کے بارے میں یہ مقدمہ ری ریمانڈ کر دیا جاتا ہے تو پھر فلیگ شپ ریفرنس کو بھی ری ریمانڈ کر دینا چاہیے جس میں میاں نواز شریف کو بری کیا گیا تھا۔

عامر عباس کا کہنا تھا کہ ملک ارشد کو چاہیے تھا کہ جب انھیں دھمکیاں یا رشوت کی پیشکش ہوئی تھی تو فوری طور پر اس مقدمے سے الگ ہو جاتے۔

انھوں نے کہا کہ ارشد ملک کے جج کے عہدے سے ہٹنے کے باوجود مجرم نواز شریف کو اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک اعلیٰ عدالت اس فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے دیتی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک اس فیصلے کے خلاف نیا عدالتی فیصلہ نہیں آجاتا اس وقت تک نواز شریف جیل میں ہی رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp