ایسا اب زیادہ دیر نہیں چل سکے گا


یہ قانون مکافات عمل ہے، فطرت کا انتقام ہے، گردش حالات کی ستم ظریفی ہے یا سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کی بے تدبیری، جعلسازی اور مکرو فریب ہے کہ عین اس وقت جب پاکستان میں ایک نجی چینل پرآغاز ہی میں محترمہ مریم نواز کا انٹرویو بروز بند کروایا جا رہا تھا اسی لمحے لندن میں ڈیفینڈ میڈیا فریڈم کے کے پلیٹ فارم پر دوران تقریب پاکستان کے وزیر خارجہ کو عالمی صحافیوں کے ہاتھوں بے عزت ہونا پڑ رہا تھا۔

پہلے ایک نڈر اور بے باک گورے صحافی نے وزیر خارجہ کو کھری کھری سناتے ہوئے انہیں اس بات پر شرم دلائی کہ ان کے دور حکومت میں پاکستان میں میڈیا پابند سلاسل ہے اور بولنے کی آزادی چھین لی گئی ہے۔ بعد میں تمام صحا فیوں نے وزیر خارجہ کی پریس ٹاک کا بائیکاٹ کر لیا اور انہوں نے خالی کرسیوں سے خطاب کیا۔

مجھے اس واقعے پر بطور پاکستانی بہت دکھ اور شرمندگی ہے کہ میرے وزیر خارجہ کو ایک تقریب کے دوران عالمی سطح پر ہزیمت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اگر دیانتداری سے حالات و واقعاف کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو یہ روز سیاہ ہمارے سلیکٹرز اور سلیکٹڈ اور ان کے بے تدبیر وزیروں مشیروں کی کارستانیوں اور نفرت و انتقام کی اندھی روش نے ہمیں دکھایا ہے۔

میں آج اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے

آج دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے اور دنیا کا کوئی ملک اقوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر زیادہ دیر تک حقیقت حال نہیں چھپا سکتا۔ جس طرح پاکستان میں گذشتہ تین چار سال سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو زیر دام لا کر اور پالتو اینکرز اور لفافہ صحافیوں کی ایک پوری کھیپ تیار کر کے نواز حکومت کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ بکاؤ میڈیا، کنٹرولڈ عدالتوں، سہمے ہوئے اور بد کردار ججوں اور مفاد پرست سیاسی ٹولے کو بری طرح استعمال کر کے جس طرح نواز حکومت کو ختم کر کے اپنے منظور نظر لاڈلے کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا کر ملک کی معیشت اور ادادوں کا بیڑا غرق کیا گیا، اس سے ہر کوئی آگاہ ہے۔

جھوٹ اور سازش اگرچہ بہت تیزی سے سفر کرتے ہیں مگر منزل پر سچ ہی پہنچتا ہے۔ نواز حکومت کے خلاف رچائی گئی منظم سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے تانے بانے محض دو سال بعد ہی قومی اور بین الاقوامی حوالے سے ایک ایک کر کے اس طرح سامنے آرہے ہیں کہ بڑے بڑے پارسا اور پردہ نشین بھی عین چوراہے پر ننگے ہو رہے ہیں۔ گھناؤنی سازش میں ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والے صحافیوں، اینکروں، ججوں، جنرلوں، پیروں، مریدوں اور سیاستدانوں کے ضمیر آئے دن بیدار ہو رہے ہیں اور وہ سر عام اپنی غلطیوں کی معافی مانگ رہے ہیں۔ ابھی تو یہ آغاز ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

اس ساری صورت حال کے تناظر میں چاہیے تو یہ تھا کہ سلیکٹرز اور سلیکٹڈ وقت کی نبض دیکھ کر بغض نواز سے ہاتھ اٹھا کر افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرتے مگر اب بھی یہی لگ رہا ہے کہ وہ احمقانہ پن کے سلسلے کو یہاں روکنے کے لیے تیارنہیں۔ وہ ایک جھوٹ کو چھپا نے کے لیے دوسرا جھوٹ اور ایک سازش کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے دوسری سازش گھڑتے جارہے ہیں۔ اس طرح جھوٹ اور سازشوں کا انبار لگ گیا ہے۔ چلیں پاکستان میں تو ڈنڈا بردار دھونس، دھاندلی، دھمکی، دھماکے اور دینار سے کچھ وقت کے لیے لوگوں کو خاموش کرا سکتے ہیں مگر بین الاقوامی میڈیا، صحافتی و انسانی حقوق کی تنظیمیں، ادارے اور لب تو آزاد ہیں، ہمارے سلیکٹرز ان کو کیسے رام کریں گے؟

یہاں تو سلیکٹڈ صاحب اپنے پسندیدہ صحافیوں کو سامنے بٹھا کر مرضی کے سوالات کے جواب دے دیں گے مگر امریکہ کے دورے کے دوران میں تو انہیں یہ سہولت میسر نہیں ہو گی۔ وہاں کس کا ماتم کریں گے؟ وہاں اگر کسی نڈر صحافی نے یہ پو چھ لیا کہ آپ کے ملک میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے شخص کی دختر وہاں کی عدالتوں سے مایوس ہو کر عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے کیوں جارہی ہیں تو سلیکٹڈ صاحب کیا جواب دیں گے؟

وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتا جارہا ہے۔ پاکستانی غریب عوام مہنگائی کے عذاب میں گرفتار ہیں۔ اداروں کی ساکھ بری طرح تباہ ہو رہی ہے۔ میڈیا کو یرغمال بنا دیا گیا ہے۔ ٹرین کے حاڈثوں میں سیکڑوں پاکستانی جان ہار رہے ہیں اور وزیر ریلوے کہتے ہیں کہ میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں۔ تاجر سے لے کر ترکھان تک، معلم سے لے کر متعلم تک، مزدور سے لے کر صنعت کار تک، آجر سے لے کر اجیر تک، کسان سے لے کر مزارع تک، تنخواہ دار سے لے کر دیہاڑی دار تک اور مفلوک الحال سے لے کر سرمایہ دار تک ہر طبقہ گریبان چاک اور تار تار دامن لیے سراپا احتجاج ہے اور سلیکٹڈ، وزرا، مشیر اور ”دفاعی تجزیہ کار“ ہمیں نواز زرداری کی چوریوں کے من گھڑت اور بے بنیاد واقعات کا لولی پاپ دے رہے ہیں۔ ایسا اب زیادہ دیر نہیں چلے گا حضور۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).