بے چارہ علی بابا اور فاضل کالم نویس


\"mehmudulگزشتہ دنوں ایک صاحب نے اپنے کالم میں لکھا :

’’ علی بابا اور اس کے چالیس چور تاریخ کے سب سے مشہور چور مانے جاتے ہیں ۔ علی بابا نے چوری کا مال چھپانے کے لیے ایک غار کا انتخاب کیا تھا ۔ وہ چوری کا مال اس غار میں رکھتا تھا ،جس میں چوروں کا سخت پہرا ہوتا تھا ۔ ‘‘

اس طرح کی بے تکی باتیں پڑھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ روئیں یا ہنسیں ۔ پہلی غلطی تو یہ ہے کہ موصوف نے علی بابااور چالیس چوروں کو تاریخ کا حصہ بنادیا ۔ اس قصے کا تاریخ سے دور کا تعلق بھی نہیں ۔جو کہانیاں ’’الف لیلہ ولیلہ ‘‘کے عنوان سے یکجا کر دی گئی ہیں، ان میں ایک کہانی ’’علی بابا چالیس چور‘‘ بھی ہے ۔ یہ کہانی ’’الف لیلہ و لیلہ‘‘ کے پرانے قلمی نسخوں میں موجود نہیں ، تاہم اب اسے اس کا حصہ متصور کیا جاتا ہے۔

سب سے بڑا ظلم علی بابا کے ساتھ ہوا جسے کالم نویس نے زور قلم سے مشہور چور بنادیا ۔ صاف ظاہر ہے کہ انھوں نے یہ کہانی کبھی نہیں پڑھی۔ انھیں اس بارے میں کچھ علم بھی نہیں ۔ کہانی میں علی بابا ایک غریب لکڑ ہارا ہے جسے اتفاق سے اس غار کا پتا چل گیا جس میں چوروں کا ایک ٹولا لوٹا ہوا مال جمع کرتا رہتا تھا ۔ علی بابا وہاں سے کچھ دولت خچروں پر لاد کر گھر لے آیا ۔ قصہ مختصر ،ایک وقت ایسا آیا کہ چوروں کو پتا چل گیا کہ کوئی ان کے ساتھ ہاتھ کرگیا ہے۔ انھوں نے بالآخر علی بابا کا سراغ لگا لیا۔ علی بابا سیدھا سادہ آدمی تھا ۔ چوروں کا مقابلہ کیا کرتا لیکن اس کی ایک کنیز مرجینہ بہت تیز طرار نکلی ۔ مرجینہ نے پہلے چوروں کے ٹولے کو مار ڈالا۔ چوروں کا سردار بچ گیا ۔ آخر وہ بھی مرجینہ کے ہاتھوں مارا گیا۔

معلوم ہوتا ہے کہ کہانی پڑھنے کے بجائے کالم نویس نے صرف عنوان سے الٹا پلٹا مطلب اخذ کرلیا ۔ غلطی کرنے میں وہ اکیلے نہیں ۔ بعض \"ali-baba-and-forty-thieves\"سیاست دان بھی ، جو کم علمی میں کالم نویس صاحب سے ہیٹے نہیں، اپنی تقریروں میں علی بابا کو چور گردانتے آئے ہیں ۔ ازراہ کرم علی بابا پر رحم فرمائیے۔ اگر آپ نے تاریخ کے مشہور چوروں کی کوئی فہرست مرتب کررکھی ہے تو اس میں سے بیچارے علی بابا کا نام نکال دیجیے۔

علی بابا کومعروف مصور اور سیاستدان حنیف رامے نے جب ایک دفعہ چوروں کا سرغنہ بتایا تواس پرممتاز ادیب انتظار حسین نے ان کی خوب خبر لی ۔2 اکتوبر1986ء کوانھوں نے اپنے کالم ’’علی بابا چالیس چور اور حنیف رامے ‘‘میں لکھا:

۔۔۔ہمیں حنیف رامے کی سیاست پر اعتبار ہو یا نہ ہو ، ان کے علم وفضل پر ہم نے ہمیشہ اعتبار کیا ۔ انھوں نے کہا کہ پیر پگاڑا کیسے علی بابا ہیں کہ اپنے چالیس چوروں کو قابو میں نہیں رکھ سکے ۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ آدمی کی سیاست بیشک غلط ہو مگر تلمیح اور تشبیہ غلط نہیں ہونی چاہیے۔ بابا تم نے یہ کیا بات کہی۔ علی بابا تو چوروں کا سردار نہیں تھا ۔ یہ چالیس چور اس کے اپنے چورنہیں تھے ۔ وہ تو یوں ہوا کہ اندھے کے پاؤں کے نیچے بٹیر آگئی ۔ لکڑہارا تھا ۔لکڑیاں کاٹنے جنگل میں گیا۔ وہاں اسے خوبی قسمت سے چوروں کے خفیہ اڈے میں داخل ہونے کی کلید ہاتھ آگئی ۔ اس بنا پر وہ چالیس چور اس کی جان کے دشمن ہوگئے تھے ۔ تعجب ہے کہ حنیف رامے نے الف لیلہ کی یہ کہانی کس طرح پڑھی کہ علی بابا کو چالیس چوروں کا سرغنہ سمجھ لیا ۔ حنیف رامے اس قسم کی غلطیاں سیاست میں تو کرتے چلے آئے ہیں مگر علم وادب کے معاملہ میں انھوں نے کبھی ایسی غلطی نہیں کی تھی۔ پتا یہ چلا کہ آدمی ایک جگہ غلط ہوجائے تو پھر ہر جگہ غلط ہوتا چلا جاتا ہے۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments