جسم کی تشہیر اور آنکھ کا شہتیر


\"ramish-fatima\"اشتہار بنانے والوں نے بنایا، دیکھنے والوں نے دیکھا، تبصرہ کیا، رائے دی، کوئی پیغام تھا تو اس کو سمجھا یا نظر انداز کیا اور بات ختم۔ لیکن بات شروع ہو گئی، کیونکہ پھر اشتہار مسئلہ بن گیا۔ اصل میں بات اشہارات کی نہیں، چلو سنجیدہ لیں۔ اگر من چاہے۔ اعتراض کریں، تکنیک پہ سوال اٹھائیں، پیغام کیا دیا جا رہا ہے اس سے اختلاف کریں، لیکن بےبنیاد الزام لگانے کا آخر کیا مقصد ہے؟

یعنی ایک اشتہار میں آپ بےوجہ فحاشی ڈھونڈ نکالتے ہیں ایک اشتہار آپ کو جسم کی نمائش لگتا ہے؟ مطلب کیا ہے جسم کی نمائش؟ ایک حجاب نہیں کیا ہوا تھا اگر حجاب اتارنا یا بال کھلے چھوڑنا جسم کی نمائش ہے تو آپ کی سوچ پہ آفرین، اگر برانڈڈ کپڑوں پہ اعتراض ہے تو سارے محلے میں سب سے مہنگا جانور قربانی کی خاطر لینے کی دوڑ پہ اعتراض کیوں نہیں؟ بار بار حج و عمرہ پہ اعتراض کیوں نہیں؟

بس اٹھے اور مغرب پہ چڑھ دوڑے، ایسا خاکہ پیش کیا مغرب کا کہ وہاں سب بےلباس پھرتے ہیں اور سڑک پہ ایک ہی کام کرتے پائے جاتے ہیں۔ چلو مغرب دیکھا تو نہیں پر ایسا مغرب تو ہم نے ان افسانوی داستانوں کے سوا کہیں سنا اور پڑھا بھی نہیں۔

خدا روایات اور مذہب کے ان علمبرداروں کو سلامت رکھے، یہ پورے آستین والی قمیض میں سے جسم کی نمائش ڈھونڈ نکالتے ہیں اور دو سیکنڈ کے باؤلنگ ویڈیو کلپ میں فحاشی۔۔ دیدۂ بینا کچھ ہے تو صاحب آپ ہی سے ہے اور ہم تو نکمے ناکارہ اور آوارہ ہیں۔ نہ ہمیں فحاشی نظر آتی ہے نہ جسم کی نمائش۔ ہم جب بھی دیکھتے ہیں مثبت ہی دیکھتے ہیں۔ آپ منفی انداز سے ہر بات کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور اسی کا پرچار کرتے ہیں، اور الزام بھی ہم سب پر لگاتے ہیں کہ ہم آپ کی باتوں میں اچھائی کا پہلو کیوں نہیں تلاش کر سکتے۔

بس اتنا بتا دیجیئے، یہ نت نئے فیشن والے عبائے، رنگ برنگے حجاب، حجاب کی نگوں والی پنیں، نشیب و فراز کو نمایاں کرتا عبایا ہماری قمیض سے بہتر کیوں ہے؟ اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتاتے جائیں کہ یہ عبائے، حجاب، اسکارف مفت آتے ہیں کیا؟ یہاں میچنگ نہیں ہوتی؟ یا کھلے بالوں والی ہی سب شیمپو کنڈیشنر استعمال کرتی ہیں اور عبائے والی بےچاری لسی سے سر دھوتی ہے اور مہندی لگاتی ہے؟ایک مفروضہ پیش کیا تھا ایک مقبول صاحب نے کچھ عرصہ پہلے کہ عورت حجاب اتارتی ہے تو پتہ نہیں کتنے بلین ڈالر کی انڈسٹری چلتی ہے، یہ تو بتایا نہیں کہ حجاب پہننے سے بھی کوئی کاروبار وابستہ ہے یا نہیں۔

اور پھر ساتھ حقیقت سے کہیں دور، وہی دعوے کہ جو ہمارے یہاں حیثیت ہے وہ کہیں اور نہیں، جو حقوق ہم نے دیئے وہ کسی اور نے نہیں دیئے۔ ابھی ہمیں جنگ لڑنی ہے، بنیادی مساوی حقوق کی۔ ابھی بہت ہیں جو تعلیم، شعور اور آگہی سے بے بہرہ ہیں۔ ابھی ان کے لئے کام کرنا ہے۔ یہ ناچنے گانے کی لڑائی تو میں لڑ ہی لوں گی۔ لیکن کم از کم اتنا تو تسلیم کریں کہ حقیقت آپ کے دعوے سے متضاد اور میری بات سے زیادہ تلخ ہے۔ نہ یقین آئے تو اپنے بڑے شہروں کی چھوٹی گلیوں میں جھانک لیں یا اس بڑے سے ملک کے چھوٹے شہروں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments