برتھ ڈے سلیبریشن


پرائیوٹ اسکول والے اپنی من مانی میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ اگر ان کی من مانی نہ روکی گئی تو ہمیں لگتا ہے کہ بچوں کے داخلے سے پہلے یہ والدین کا داخلہ لیا کریں گے اور ان کو سکھائیں گے کہ بچوں کو کیسے پالا جا تا ان کو کس برانڈ کا کپڑا پہنائیں گے تو آپ کے بچے کی ذہنی صلاحیت پید ائش سے ہی تیز ہونے لگی گے۔ کیونکہ ان کی سوچ پیسہ کمانے سے شروع ہوتی اور اسی سوچ کو عملی جامع پہنانے کے لئے نئی نئی سرگرمیاں لائیں جاتیں جس میں والدین کا پیسہ لو ٹا جاتا ہے جبھی تو ہر سال کسی بنگلے میں ایک نئی برانچ کھلی ہوتی ہے۔ یہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔ یعنی اپنے بزنس کو بڑھانا۔ اور مجھے حیرت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہر برانچ کی فیس اور پڑھائی کا معیار علاقے کے حساب سے ہوتا ہے۔

خیر اگر پرائیوٹ اسکولوں کی کارکردگی پر لکھنا شروع ہوئے تو مضمون طوالت کا شکا ر ہو جا ئے گا۔ آج جس مسئلے پر ہمیں لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی وہ ایک چھ سالہ بچے کی کہانی ہے ہو سکتا ہے کہ آپ نے بھی یہ کہانی انسٹا گرام یا فیس بک پہ پڑھی ہو۔

ایک چھ سالہ بچے کے والدین اسے ماہرنفسیات کے پاس لے گئے جو ڈیڑھ مہینے سے گم سم اور چپ تھا۔ ماہر نفسیا ت نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اس چھ سالہ بچے کی ڈپریشن کی وجہ جانی جو کہ ایک برتھ ڈے سیلیبریشن birtrthday celebration) ) تھی۔ جو کہ اس بچے کے اسکول میں منائی جاتی ہے جس میں بچے کے گھر والے بھی مدعو ہوتے ہیں اور وہ جماعت کے بچوں کو تحائف دیتے ہیں کیک کٹوایا جاتا ہے سجاوٹیں کی جاتیں ہیں اور ظاہر ہے ان تمام چیز وں کا خرچہ اسکول والے تو اٹھانے سے رہے یہ تمام اخراجات والدین ہی اٹھاتے ہیں۔

اور جب اس چھ سالہ بچے کے والدین اس کی اس طرح سالگرہ نہیں منا سکے اور وہ جماعت میں ٹوفی بھی نہیں بانٹ سکا تو وہ بچہ احساس کمتری کا شکار ہونے لگا۔

تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو بہترین اسکول میں اچھی تعلیم دلوائیں۔ والدین کس طرح تعلیم کے اخراجات کو پورا کر تے ہیں یہ وہ ہی جانتے ہوں گے اسکول کی انتظامیہ کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ انہیں تو ان کی پوری فیس چاہیے بچہ کتنا قابل ہے جماعت میں پوزیشن لا رہا ہو کسی پرائیوٹ اسکول نے کبھی اس بچے کو فری شپ نہیں دی۔ اگر ذہین طالبعلم کچھ مہینوں تک فیس نہیں دے سکتا تو وہ بغیر کسی حیل و حجت کے اس کا داخلہ ختم کر سکتے ہیں پیچھے سے کوئی سوال اٹھانے والا جو نہیں ہے

ہاں بچوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے بے شمار طریقے ان کے پاس ہیں کبھی برتھ ڈے منا کے، کبھی ”پزا ڈے“ منا کے کبھی ”آئس کریم ڈے“ منا کے۔ ہم نے تو ایسے شرم ناک مناظر بھی دیکھے ہیں کہ جن بچوں نے پزا کے لئے پیسے نہیں جما کروائے ہوتے پزا کی تقسیم کرتے ہوئے ان بچوں کو جماعت سے باہر کردیا جاتا ہے اور بعد میں ان کے ساتھیوں کو کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ مل بانٹ کر کھا لیں۔ پڑھائی کا معیا ر بھی ان اسکول والوں نے بہت گرا دیا ہے یہ پڑھاتے نہیں ہیں بلکہ بچوں کو رٹو طوطے بناتے ہیں ہم نے نویں دسویں کے بچوں کو حساب رٹتے ہوئے دیکھا ہے۔

ہمارے یہاں چھاپے بھی ان اسکولوں میں پڑتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی گلیوں میں کھلے ہوتے ہیں کبھی ان اسکولوں کی بھی تو کوئی خبر لے جو بنگلوں میں بنے ہیں جن کا کام صرف دن بدن اپنے اسکولوں کی ہر علاقے میں ایک برانچ کھولنا ہے۔ اور اس طرح کی فضول سرگرمی کروا کر بچوں میں احساس کمتری پیدا کر نا ہے۔

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).