سیاست کا گھن چکر


جمہوری جماعتی سیاست میں لوگ اپنے تمام دلدر سے نجات کسی خاص جماعت کے برسر اقتدار آنے میں دیکھتے ہیں اور اس جماعت کی ناکامی کے بعد دوسری جماعت سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں اور یہ سلسلہ ایک سے دوسری جماعت اور ایک سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور یہ ساراعمل سیاست کا ایک گھن چکرسا بن جاتا ہے۔ امید اور نا امیدی کا یہ سلسلہ برطانیہ جیسے قدیم جماعتی پارلیمانی سیاست میں صدیوں سے جاری ہے اور بعض ہماری جیسی جمہوریتوں میں اقتدار کی بساط کے کھلاڑی اپنی بے صبری اور عدم برداشت کی وجہ سے کھیل کو بگاڑ بھی دیتے ہیں۔

امید اور نا امیدی کے مدوجزر کو جاری رکھنے کے پیچھے ایک خاص اجتماعی نفسیات کارفرما ہوتی ہے جس کو ہم رائے عامہ کہتے ہیں جسے یا تو اس کھیل کے کھلاڑی یعنی سیاستدان خود تشکیل دیتے ہیں یا صاحبان مہارت و دانش متشکل کرتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اہل سیاست عوامی نبض ہر ہاتھ رکھ کر یہ کام کرتے ہیں اور اہل دانش اعداد و شمار کی جنتری سے۔ فرق یہ ہوتا ہے سیاست دان نتائج کو نظر انداز کرتے ہیں اور اہل دانش جمہور کی خواہشات اور توقعات کو۔

کوئی ایک سیاسی جماعت کسی بھی معاشرے کے تمام طبقات، گروہ اور مکتہ ہائے فکر کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ ہر جماعت کا حلقہ اثر و نیابت مخصوص اور مختلف ہوتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اپنے حریف جماعت کے مقاببلے میں اپنا منشور دیتی ہے جس میں وہ اپنے حریف کے ساتھ مشترکہ اتفاق کے حامل مسائل پر کم اور اپنے انفرادی و منفرد مقاصد پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے تاکہ اس کو اپنے حریف پر سیاسی، اخلاقی اور نفسیاتی برتری حاصل رہے۔ مثلاً دفاع، قومی سلامتی اور سماجی انصاف پر سب کا اتفاق ہوسکتا ہے اس لئے سیاسی جماعتیں آگے بڑھ کر اپنی منفردد روزگار، تعلیم، صحت، مالیاتی و اقتصادی پالیسی پر زور دیتی ہیں تاکہ رائے عامہ کو بہ آسانی اپنے حق میں ہموار کیا جاسکے۔

ہر سیاسی جماعت کا حلقہ اثر تو جو ہوتا ہے رہتا ہے مگر اس حلقے سے باہر جو لوگ گومگوں کی کیفیت میں رہتے ہیں وہ اہل دانش کی منطق اور دلیل سے متاثر ہوکر اس جماعت کی طرف رجوع کرتے ہیں جو زمینی حقائق اور معروضی حالات کے مطابق اپنا نقطہ نظر کو سامنے لے کرآتے ہیں۔ لیکن جب یہ جماعت اکثریت کی حمایت حاصل کرکے اقتدار میں آتی ہے اور ان ماہرین (ٹیکنو کریٹ) کو سامنے لاتی ہے جن کی دلیل سے رائے عامہ متاثر ہوئی تھی وہ فوراً غیر مقبول ہوجاتے ہیں اور ان کا نقطہ نظر نا قابل قابل ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ یہ ماہرین ایک کمیٹی کی نفسیات کو تو سمجھ سکتے ہیں لیکن ایک ہجوم کی نہیں۔ دوسری وجہ ان ماہرین کی غیر مقبولیت کی یہ ہوتی ہے کہ وہ اعداد و شمار کو انسانی ضروریات پرفوقیت دیتے ہیں۔ سیاست دان اپنی مقبولیت برقرار رکھنے یا اس کو بڑھانے کے لئے ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے ان کی تقریر کے لئے مواد میسر آسکے چاہے دیر پا نتائج برے ہی کیوں نہ نکلیں۔

بقول برٹینڈ رسل کے جماعتی سیاست انسان کی بنیادی نفسیاتی سرشت ایک دوسرے کے لئے ’گروہی دشمنی، حسد اور ناپسندیدگی‘ پراستوار کی جاتی ہے۔ رسل کارل مارکس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی کمیونسٹ پارٹی کی تشکیل کا منشور طبقاتی تفاؤت سے پیدا ہونے والے مسائل کا جامع حل دینے کے بجائے سرمایہ درانہ طبقے کی دشمنی پر مبنی تھا جس کی وجہ سے اس نے نظام سرمایہ داری کے خلاف مزدوروں اور کسانوں کو متحرک تو کیا لیکن ان کے مسائل جوں کے توں رہے۔ رسل کی بات مارکس کے نظریات سے متاثر ہوکر انقلاب برپا کرنے والے ممالک پر صادق آئی جب ہر ملک نے اپنے انداز میں اس کی تشریح اور ترویج کی لیکن مزدوروں اور کسانوں کے حالات ان ممالک میں کم و بیش ویسے ہی رہے جو پہلے تھے۔

پاکستان اور ہندوستان میں میں بھی مغربی ممالک کی طرح سیاسی جماعتیں گروہی دشمنی، حسد اورایک دوسرے کے لئے ناپسندیدگی کی بنیاد پر سیاست استوارکرتی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوستان میں اپنے مذہب پرست حلقہ انتخاب کواس کی فلاح و بہبود سے زیادہ اس کے مخالف غیر ہندو اقلیتوں کو نقصان نہیں تو کم از کم فائدہ نہ پہنچا نے کی یقین دہانی کے ساتھ متحرک کرتی ہے۔ بالکل اسی بنیاد پر پاکستان میں برسر اقتدار آئی پاکستان تحریک انصاف نے اپنے حلقہ انتخاب متوسط شہری رائے دہندگان اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ان کے فلاح و بہبود سے زیادہ گزشتہ دور کے حکمرانوں کے احتساب، ان کو سزائیں دلوانے اور ان سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے وعدے پر متحرک کیا تھا۔

گروہی عصبیت پر مبنی نعرے اس کے حلقہ انتخاب کے جذبات کو متحرک کرکے کسی سیاسی جماعت کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں تو مدد گار ہوتے ہیں لیکن ملک اور عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے کسی بھی جامع منصوبہ سے عاری ان جماعتوں کا اصل امتحان بر سر اقتدار آنے کے بعد شروع ہوجاتا ہے۔ یہ جماعتیں بغیر کسی منصوبہ بندی یا ہوم ورک کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی سیاسی تدبر سے زیادہ ماہرین یا ٹیکنو کریٹس پر انحصار اوران کے دیے پروگرام پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں ایسے غیر مقبول فیصلے کرنے پڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے بر سر اقتدار جماعت کو حریفوں کا ہدف تنقید ہی نہیں ب بلکہ اپنے ہمدردوں اور کارکنوں کی طرف سے بھی نکتہ چینی کا سامنا ہوتا ہے۔

گروہی رنجش اور حسد و بغض کی بنیاد پر سیاست کرنے والی جماعتوں کا بر سر اقتدار آکر ابلاغ عامہ کی آزادیاں اس بنا پر بری لگتی ہیں کہ وہ عامتہ الناس کے ان مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں نے ان جماعتوں کو اقتدار تک پہنچایا مگر اب وہ تمام مشکلات اور مصائب صرف نظر ہوگئے ہوتے ہیں۔ ان مسائل کی نشاندہی کرنے والے عام طور پر دشمنوں کے آلہ کارگردانے جاتے ہیں جن کو اشتراکی ممالک میں سامراج کا ایجنٹ قرار دینا معمول کی بات ہے۔ ہندوستان میں عوامی مسائل کی بات کرنے والے پاکستان کے اور پاکستان میں عوام کی بات کرنے والے بھارتی ایجنٹ سمجھے جاتے ہیں حالانکہ وہ وہی باتیں کر رہے ہوتے ہیں جو انہی سیاسی جماعتوں کے منشور کا حصہ ہوتی ہیں مگر اقتدار میں آکر بھلا دی جاتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا ایک اور المیہ یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف وہ اقتدار میں آکر اپنی کی ہوئی باتوں سے انحراف کرتی ہیں اور وعدے بھلا دیتی ہیں بلکہ ان کو یہ باتیں اور وعدے یاد دلانے والے ان کے اپنی سیاسی رفقائے کار اور ساتھی بھی برے لگتے ہیں جن کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا کئی صورتوں میں عتاب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے بے باک اور کھل کر اپنے منشور اور وعدوں کی وکالت کرنے والے ساتھیوں کے خلاف جماعت کے کارکنوں میں بدگمانی پیدا کی جاتی ہے اور ان تضحیک کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ بر سر اقتدار آنے کے بعد سیاسی جماعتوں میں ان کے نظریاتی سیاسی کم الیکن ابن الوقت اور موقع پرست لوگوں کا جمگھٹا رہتا ہے۔ ابن اوقت لوگ حکمرانوں میں سرائیت کرنے کی اپنی بے پناہ خوبیوں کی بدولت سیاسی راہنماؤں کو گھیرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور ان سے وہی کام اور غلطیاں کرواتے ہیں جن کی مخالفت میں وہ بر سر اقتدار آئے ہوتے ہیں۔

جب جماعتوں کی مقبولیت میں کمی آتی ہے اور ان سے اقتدار جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو سیاست دان اور ٹیکنوکریٹ نئے سیاسی منظر نامہ کے معروضی حالات کے مطابق ایک نیا بیانیہ تشکیل دے کر ایک اور جماعت کے لئے میدان ہموار کرتے ہیں اور ابن الوقت ایک نئی قیادت اور حکومت کی آؤ بھگت کی تیاری میں لگ جاتے ہیں جبکہ عوام اپنی امیدیں ایک اور سیاسی جماعت سے وابستہ کرکے پھر ووٹ دینے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan