خلق خدا پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے خون بیچنے لگی ہے


یقین نہیں تھا کہ تبدیلی سرکار میں حالات اتنی تیزی سے اس نہج پر آ جائیں گے کہ خلق خدا پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لہو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔

جمعرات کی رات اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں میرے چاچو کی اوپن ہارٹ سرجری ہونا تھی اپریشن سے قبل ڈاکٹروں نے دس بوتل خون کے انتظام کرنے کا کہا۔ میرے چچا زاد نے مجھے کال کی اور میں نے دوستوں سے رابطہ کر کے انھیں ہسپتال پہنچنے کی تاکید کی۔ دفتر سے مغرب کے بعد میں سیدھا ہسپتال پہنچا تاکہ بلڈ ڈونیٹ کروں۔ تین سے چار ماہ کے بعد اللہ توفیق دے تو بلڈ ڈونیٹ کرتا ہوں۔ ہسپتال کی بھول بھلیوں سے ہوتا ہوا جب انتقال خون کے متعلقہ شعبہ میں پہنچا تو مجھ سے آگے ایک نوجوان اپنے خون کے ٹیسٹ کروا رہا تھا۔

کونٹر پر بیٹھے شخص نے مجھ سے پوچھا جی فرمائیے تو میں نے کہا میرے چاچو کی اوپن ہارٹ سرجری ہو رہی ہے بلڈ دینا چاہتا ہوں اس نے ایک فارم پُر کرنے کے لیے دیا فارم پُر کر کے اُسے دیا تو مجھے کہا گیا کہ انتظار گاہ میں بیٹھ جائیں نمبر آنے پر بلا لیا جائے گا۔

مجھ سے پہلے جس نوجوان کا نمبر تھا کاونٹر پر موجود شخص نے اس کے خون کی سکریننگ کرتے ہوئے پوچھا آپ خون فروخت کرنا چاہتے ہیں یہ الفاظ میری سماعتوں سے ٹکرائے تو میرے کان کھڑے ہو گئے۔ خون دینے والے نوجوان نے اس سے کان میں کھسر پھسر کی جو میری سمجھ میں نہیں آئی۔

میرا نمبر آنے پر مجھے بُلایا گیا میں ضروری ٹیسٹ دینے کے لیے اس کے ساتھ لگے سٹول پر بیٹھ گیا۔

جب وہ میرا بی پی چیک کر رہا تھا تو میں نے اس سے پوچھ لیا کہ کیا لوگ اپنا خون فروخت کرتے ہیں۔ خون کا گروپ جانچنے کے لیے میری انگلی میں سوئی چبھونے کے ساتھ اس نے جواب دیا جی فروخت کرتے ہیں۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولا یوں تو عرصے سے یہ کاروبار ہو رہا ہے مگر پچھلے سات آٹھ ماہ سے اس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ میں نے پوچھا اس اضافے کا کارن، جواب ملا مہنگائی، ہائے مہنگائی نے سفید پوشوں کو اتنا مجبور کر دیا کہ وہ اپنا خون فروخت کریں۔

بڑا شور تھا جب آئے گا کپتان بنے گا نیا پاکستان، غریب کو روٹی ملے گی، تن ڈھانپنے کے لیے اُجلا لباس ملے گا، جب کپتان آیا تو ہوا سب کچھ اس کے اُلٹ، شروع شروع میں کپتان کو سمجھ نہیں آئی کیا کرنا ہے؟ اوپر سے مشیران کی ایسی ٹیم بنائی جس سے حکومت کا ستیاناس تو ہوا مگر عوام کا سوا ستیاناس ہو گیا۔ گاڑیاں فروخت کرنے سے شروع ہونے والا عمل بھینسوں کی فروخت پر رک گیا، مشیروں کے مشورے سے یاد آیا ماضی میں ضیاءالحق کو بھی سائیکل سواری کا مشورہ دیا گیا، اس مشیر کے علم، اس کی بصیرت اور اس کے اخلاص کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے، اس نے کہا ہو گا کہ حضور آپ سادگی اختیار کریں اور سائیکل پر سوار ہوں عوام آپ کو مدتوں کندھوں پر سوار کیے رکھیں گے۔ ضیاء نے بھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ وہ جس لمعے سائیکل سے نیچے اتریں گے اسی گھڑی وہ عوام کے دل و دماغ سے اتر چکے ہوں گے۔

کہا جاتا ہے اس سے پہلے بھٹو نے بھی مشیروں کے مشورے پر وزراء کو بینڈ ماسٹروں والا لباس پہنا کر قوم کی تقدیر بدلنے کا سوچا تھا۔ بھٹو کو بھی زعم تھا کہ وزراء کو بینڈ ماسٹروں والا لباس پہناؤں گا تو قوم خوشی کے باجے بجانے شروع کر دیں گے، پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ باجے بجے کہ حکومت کے کان بج اُٹھے، یہی حال ہمارے کپتان کا ہے، کبھی وہ کابینہ کے اجلاس کے اختتام کے موقع پر چائے اور بسکٹ دیتے ہیں اور کبھی صرف پانی لیکن ان کا ہر انداز نمائشی ہے۔

بھلا ان چونچلوں سے عوام کو آرام کہاں نصیب ہوتا ہے۔

ستر سال سے ہر حکومت کہہ رہی ہے کہ بس ذرا صبر اور تھوڑا انتظار کرو ملک خوشحال ہونے والا ہے، اچھے دن آنے والے ہیں اور سب مسائل حل ہونے والے ہیں۔ اس امید میں دو نسلیں کھپ چُکی ہیں۔ اس امید میں کئی آنکھیں پتھرا چکی ہیں اور کروڑوں انسان بدحال ہو چکے ہیں۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ دالیں، سبزی، آٹا، چینی، گھی اور زندگی بچانے والی دواؤں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔

عام آدمی ایک ایسے صحرا میں کھڑا ہے جہاں کوئی دیوار بھی نہیں کہ سر ٹکرا کے مر جائے وہ ایسے قبر نما گھروں میں رہتا ہے کہ جہاں ذرا ٹانگیں سیدھی کرے تو اس کے گھر کا حدود اربعہ ختم ہو جاتا ہے، مہنگائی کے اس دور میں ہر عیال دار آدمی کو کم از کم تیس ہزار روپے گھر چلانے کے لیے درکار ہیں لیکن اسے تلقین کی جاتی ہے کہ پندرہ سے سترہ ہزار میں گزارہ کرو جب کہ تلقین کرنے والے ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں صرف کر دیتے ہیں۔

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس نظام زر کے ناخداؤں اور ملک کے حکمرانوں کا ایک ایک ڈرائنگ روم اور اس میں سجے ہوئے نوادرت اور نمائشی ظروف اس ملک کے کم از کم ایک ہزار عام آدمی کے مکان سمیت مجموعی اثاثہ سے زیادہ قیمتی ہیں۔ ایسے میں لوگوں کو وعدوں سے بہلانا، تقریروں سے تسلی دینا اور صبر کی تلقین کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ عوام کا گلہ بچکانہ ہی سہی مگر حکمرانوں کا رویہ بھی انتہائی ظالمانہ ہے

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui