سری لنکا قسط نمبر 3۔ جیفری باوا کی جاگیر اور مدھو گنگا کے قدیم دریائی جنگلات


چار اکتوبر کی 2105 ء کی صبح 8 بجے الارم کی آواز سے آنکھ کھلی تو فورا تیار ہو کر ناشتے کے لئے بریک فاسٹ ہال میں پہنچے۔ ہمارے سارے ہی ساتھی ناشتہ کے لئے ہال میں موجود تھے اور ناشتہ کرنے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ میں بھی عابد سلطان کے ساتھ میز پر بیٹھ گیا اور ناشتے کی چیزیں لا کر ناشتہ کرنے لگا۔ ہمارے سارے ہی ٹورز میں ہم سب کے لئے بینک کی طرف سے رہنے کے لئے ہمیشہ فائیو سٹارز ہوٹل میں بندوبست ہوتا تھا۔

ایس وی پی اور اس سے سینئر ایگزیکٹو ز کے لئے علیحدہ علیحدہ کمروں کا انتظام ہوتا تھا جبکہ دوسرے سٹاف کے لئے ایک کمرے میں دو لوگوں کے رہنے کا انتظام کیا جاتا تھا۔ عموما پانچ ستاروں والے ہوٹل میں ہمیشہ ناشتہ سب کے لئے فری اور بوفے ہوتا ہے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر ہم سب لابی میں جمع ہوئے۔ اتنے میں ٹور مینیجر بھی لابی میں آ گئے اور سب کو اکٹھا ہونے کو کہا۔ ٹور شروع ہونے سے پہلے ہی ہمیں پورے ہفتے کے شیڈول کے بارے میں تحریری آگاہ کر دیا جاتا تھا تا کہ ملک اور اس کے موسم کی مناسبت سے تیاری کر لی جائے۔

ٹورز میں وقت کی پابندی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے، جس پر عمل کر کے آپ مقرر کردہ اعداف کی سیر کر سکتے ہیں۔ ورنہ وقت ضائع ہونے کی وجہ سے بہت سی جگہیں دیکھنے کو رہ جاتی ہیں جس کا بعد میں بہت افسوس ہوتا ہے۔ آج ہمارا جیفری باوا کی جاگیر کے علاوہ بن طوطہ بیچ پر بنانا بوٹ اور جیٹ سکا ئی کے بعد مدھو گنگا دریا میں بوٹ سفاری کا پروگرام تھا۔ اس لئے سارے گروپ کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے لئے سومنگ کاسٹیوم، دھوپ سے بچنے کے لئے سن بلاک کریم۔ مچھروں سے بچنے کا لوشن اور فالتو کپڑوں کا بندوبست کرکے رکھیں۔

ہوٹل سے مختلف جگہوں کے سفر کے لئے ٹور آپریٹر کی طرف سے نئی اور ائیرکنڈیشنڈ کوچوں کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ایک کوچ میں چالیس سے پچاس تک اور کبھی اس سے زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ ایک بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ جس کوچ میں بیٹھیں اس کا نمبر ضرور یاد رکھیں اور سارے سفر میں اسی کوچ میں بیٹھیں۔ جب آپ سفر کے دوران کسی جگہ پر اترتے ہیں تو اس جگہ آپ کے گروپ کی دوسری کوچز بھی کھڑی ہوتی ہیں اور ان سب کا رنگ ایک جیسا ہوتا ہے۔

اگر آپ غلطی سے دوسری کوچ میں بیٹھ گئے تو پہلی کوچ والے جس میں آپ پہلے بیٹھے ہوئے تھے وہ آپ کو تلاش کرتے رہیں گے۔ اس سے پریشانی کے علاوہ وقت کا زیاں بھی ہوتا ہے۔ ٹورز میں ہم کوشش کرتے تھے کہ اپنے دوستوں اور من پسند ساتھیوں کے ساتھ کوچز میں بیٹھیں۔ اس سے گپ شپ کے علاوہ دوسری باتوں میں وقت آسانی سے گزر جاتا ہے۔ میں ہمیشہ کوچ میں کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھنا پسند کرتا ہوں تا کہ ایک تو باہر کا نظارہ کیا جا سکے اور دوسرے کیمرے یا موبائل فون سے باہر کے نظاروں کی فوٹو اور فلم بھی بنائی جا سکے۔ سب ساتھیوں کے کوچوں میں بیٹھنے پر سفر کا آغاز ہوا۔ تقریبا 40 منٹ کے سفر کے بعد ہماری پہلی منزل آ گئی، یہ تھی جیفری باوا کی جاگیر یہاں میں پہلے آپ کو جیفری باوا کے متعلق مختصرا بتاتا چلوں۔

جیفری باوا سری لنکا کا ایک منفرد آرکٹیکٹ

جیفری باوا ایک سری لنکن ماہر تعمیرات تھا۔ اس کا شمار اپنے وقت کے ایشیا کے بہت با اثر اور بہترین فن تعمیرات کے ماہرین میں کیا جاتا ہے۔ اس کو گرم ممالک میں جدید تعمیراتی رحجان کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ جس نے شمال مشرقی ایشیا میں جدید فن تعمیر کو روشناس کرایا۔ وہ 1919 ء میں برٹش کالونی سیلون میں پیدا ہوا۔ اس کے والد انگریز تھے اور والدہ سکاٹش مکس جرمن تھیں۔ والد بہت ہی قابل ماہر قانون اور جج تھے۔

نوجوان جیفری نے 1944 میں قانون کا امتحان پاس کیا اور کولمبو کی ایک لاء فرم میں وکالت شروع کی۔ 1946 میں والدہ کی وفات کے بعد وکالت چھوڑ دی اور دنیا کی سیر کے لئے نکل گیا۔ امریکہ۔ یورپ اور مشرق بعید کے ممالک گھوم کر وہ 1948 ء میں واپس سیلون آ یا اور یہاں رہنے کے لئے ایک بنگلہ بنانے کا ارادہ کیا۔ اس کے لئے اس نے سری لنکا کے شمال مغربی حصہ میں ربڑ کی ایک متروک جاگیر خریدی جس میں وہ اپنا گھر اور ایک اطالوی باغ بنانا چاہتا تھا۔

لیکن نامساعد حالات اور فنی مشکلات کے باعث اس کو وقتی طور پر یہ منصوبہ موخر کرنا پڑا۔ 1952 ء میں اس نے ایک تعمیراتی فرم ایڈورڈ۔ ریڈ میں شمولیت اختیار کی لیکن اسی سال پاٹنر ریڈ کے انتقال پر یہ کمپنی چھوڑ دی۔ اسی سال اس نے انگلینڈ کا سفر اختیار کیا اور کیمبرج یونیورسٹی میں آرکیٹیکٹ میں داخلہ لے لیا۔ 1956 میں وہ رائل کالج آف آرکیٹیکٹ برطانیہ کا ایسوسی ایٹ بن کر نکلا اور برطانیہ رہنے کی بجائے سری لنکا واپس لوٹ آ یا۔

38 سال کی عمر میں اس نے تعمیرات کے شعبے میں ایڈورڈ۔ ریڈ اور بیگ کمپنی میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کولمبو اور سری لنکا میں بہت ساری مذہبی۔ تعلیمی۔ حکومتی۔ تہذیبی۔ تجارتی اور رہائشی عمارات کی تعمیرات کر کے تعمیر میں ایک نئی جدت اور ماحول کے مطابق کرکے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ جیفری باوا نے اپنے رہنے کے لئے خریدی گئی جاگیر میں بہترین باغات لگوائے جن میں انواع و اقسام کے پودے اور پھلدار درخت لگوائے۔

جاگیر میں پرندوں اور جانوروں کی افزائش نسل کا بندوبست کیا۔ اپنے رہنے کے لئے ایک سادہ سا گھر تعمیر کیا جو کہ گرم مرطوب علاقہ میں تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ فطرتی حسن کے لحاظ سے رہنے کے لئے یہ ایک بہترین جگہ ہے۔ جیفری نے اپنی زندگی کے آخری چالیس سال یہاں گذارے اور تراسی سال کی عمر میں یہیں وفات پائی اور اسی جاگیر میں مدفون ہیں۔

جیفری باوا کی جاگیر

جیفری باوا کی جاگیر پر پہنچ کر ہم سب لوگ کوچز سے برآمد ہوئے۔ باہر کا موسم کا فی گرم تھا۔ ہمارے جتنے بھی ٹورز ہوتے تھے ان میں ہر ایک کوچ کے لئے ایک گائیڈ ٹور انتظامیہ کی طرف سے مہیا ہوتا تھا۔ جس کا کام ایک تو سب کو متعلقہ جگہ، مقام کے بارے میں معلومات دینا اور دوسرا سب لوگوں کو اکٹھا رکھنا تا کہ کوئی فرد گم نہ جائے جو بعد میں پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ جاگیرکی سیر کا وقت صبح 9 بجے سے 3 بجے تک ہوتا ہے۔

گارڈن میں داخلہ کا ایک ہی گیٹ ہے جس سے ہم داخل ہوئے۔ گیٹ کے تقریبا ساتھ ہی ایک دو منزلہ کلا س ر وم نظر آیا جو کہ 1980 میں تعمیر کیا گیا ہے۔ باغ میں چلتے چلتے ایک جگہ زمین کا رنگ سرخ تھا، اس طرح کی زمین عموما بہت ہی گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کو سرخ چبوترے کا نام دیا گیا ہے، یہ چبوترہ پانی کے بہت بڑے ذخیرے تک جاتاہے۔ اس سے دوسری طرف گھاس کے ایک قطعے پر خم دار پتوں جیسے برتن رکھے ہیں اور ان سے تھوڑی ہی دور مٹی کے بڑے سائز کے مٹکے پڑے ہیں جو دور سے زمین پر نقطوں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔

ایک طرف دارچینی کا ایک باغ ہے۔ ایک درمیانے سائز کا درخت بہت ہی بھلا دکھ رہا تھا۔ ہمارا گائیڈ ہمیں ہر چیز کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ہمیں باوا کے گھر میں زیادہ دلچسپی تھی لیکن وہ ضروری مرمت کے لئے بند تھا۔ ہم نے باہر سے ہی اس کا جائزہ لیا وہ ایک روشن اور ہوادار گھر دکھ رہا تھا جسے خاص کر گرم علاقے میں رہنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ باوا چالیس سال تک اس جاگیرمیں باغ اور گھر کی تعمیر اور دیکھ بھال میں لگا رہا۔ اور یہیں ایک پہاڑی پر مدفون ہے۔ ڈچ دور میں یہ جاگیر دارچینی کے باغ کے طور پر مشہور تھی، اب اسے لونوگنگا ٹرسٹ چلا رہا ہے۔

جیفری باوا کی جاگیر کی سیر کے بعذ ہم سب ایک دفعہ پھر کوچز میں بیٹھے اور سفر کا آغاز ہوا۔ تقریبا ایک گھنٹے کے سفرکے بعد ہمارا گروپ بن طوطہ بیچ پر پہنچ گیا باقی دو گروپوں والے ہم سے پیچھے تھے۔ بن طوطہ بیچ کولمبو سے ستر کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سڑک کے علاوہ ریل کے ذریعے سے بھی اس بیچ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں پر گروپ کے لئے مختلف پانی کے کھیلوں کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ٹور مینیجر پورے گروپ کے لئے سب کھیلوں کے ٹکٹ ایڈوانس میں خرید لیتے ہیں۔ یہ ایک تو سستے مل جاتے ہیں دوسرے وقت کی بچت بھی ہو جاتی ہے بیرون ممالک کے ٹورز میں ایک بات میں نے خصوصی طور پر نو ٹ کی ہے کہ وہاں ہرجگہ سیاحوں کے لئے سیکیورٹی اور کھیلوں میں بہت اچھے حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔

جیٹ سکائی اور بنانا بوٹ کی سواری

بن طوطہ بیچ پر ہمارے لئے جیٹ سکائی اور بنانہ بوٹ کے کھیلوں کی بکنگ کروائی گئی تھی، سب انتظامات مکمل تھے۔ یہاں گروپ کودوحصوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ دونوں جگہ بیک وقت سب کھیل شروع کر سکیں۔ مجھے پانی کے کھیلوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے بلکہ ایک ڈر لگتا ہے۔ کبھی میں بھی ایک بہت اچھا تیراک تھا اور تیر کر نہر آرپار کیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ تیرتے ہوئے میں نہر میں ڈوب گیا اور بڑی مشکل سے ساتھیوں نے نکالا اور اس کے بعد میرے اندر پانی کا ڈر بیٹھ گیا اور میں نے پانی میں جانا چھوڑ دیا۔ یہاں سب نے اپنے اپنے من پسند کھیل میں جی بھر کر حصہ لیا۔ سب لوگوں نے یہا ں کے لئے پوری تیاری کی تھی اور سن سکرین لوشن اور سومنگ سوٹس ساتھ لے کر آئے تھے۔ خواتین ساتھیوں نے بھی ان کھیلوں میں بھرپور حصہ لیا۔ حصہ لینے والے سب ساتھیوں کو حفاظتی لائف جیکٹیں پہنائی گئی تھیں۔

سب سے زیادہ لوگوں نے جیٹ سکائی میں حصہ لیا۔ جیٹ سکائی سمندر کا کرافٹ ہے جسے کاواساکی نے 1972 میں متعارف کروایا جو کہ سمندر میں چلنے والا ایک قسم کا بائیک ہے۔ سب ساتھیوں نے اس کھیل کے خوب مزے لئے اور سمندر میں خوب بائیک چلائی۔ ۔ بنانا بوٹ بنیادی طور پر ایک تیز ترین جہاز کا نام ہے جس کے ذریعے ساحلی علاقوں سے کیلوں کی جلد ترسیل کا کام لیا جاتا تھا تا کہ یہ خراب نہ ہو جا ئیں۔ اس میں فروٹ کے علاوہ مسافروں کو بھی لے جایا جاتا تھا۔ اب اس کی جدید ترین شکل بیچز میں کھیل کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ پانچ پانچ کے گروپ میں ساتھیوں نے بنانا بوٹ میں حصہ لیا اور مقابلے کیے۔ میں اور ہمارے بعض ساتھی ساحل سمندر سے ہی لوگوں کا کھیل دیکھتے رہے، باہر سے ہی کھیلنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے لیکن پانی میں نہیں اترے۔

بن طوطہ بیچ پر بہت سے ہوٹل اور ریسٹورینٹ ہیں۔ ہوٹلوں میں فائیو سٹار سے لے کر عام ہوٹل شامل ہیں۔ اسی طرح ریسٹورینٹ بھی بہت سارے ہیں جن میں انواع اقسام کے کھانے دستیاب ہوتے ہیں۔ ہمارے ٹور مینیجر نے لنچ کا بندوبست ایک بہت ہی اعلی کانٹینینٹل گولڈن گرل نامی ریسٹورینٹ میں کر رکھا تھا۔ ٹورز میں میں نے یہ دیکھا ہے کہ ہم لوگ بیرون ملک بھی اپنے دیسی کھانوں کو تلاش کرتے ہیں۔ حالانکہ بیرون ملک سیر کے دوران ہمیں ان ممالک کے کھانوں کے ٹیسٹ کرنے چاہییں تاکہ ان کے کھانوں کا زائقہ اور پکانے کے انداز کا پتہ چل سکے۔

گولڈن گرل میں بوفے لنچ کا اہتمام تھا۔ مچھلی اور چکن کی مختلف ڈشوں اور دال چاول کے علاوہ اور بہت سارہ بندوبست تھا۔ سب نے خوب سیر ہو کر کھایا ز۔ کھانے کے بعد ہم پھر کوچز میں بیٹھے۔ اب ہماری اگلی منزل مدھوگنگا دریا میں بوٹ سفاری تھی۔ کوچ میں بیٹھتے ہی بہت سوں پر غنوذگی طاری ہو گئی۔ تازہ تازہ پیٹ بھرا ہوا تھا اس لئے سب کو نیند کے ہچکولے آ رہے تھے

مدھوگنگا دریا میں بنانا بوٹ سفاری

۔ چالیس پچاس منٹ کے سفر کے بعد ہم مدھوگنگا دریا پر پہنچ گئے۔ ہمارے ٹور آپریٹر نے چونکہ ٹکٹوں کے لئے ایڈوانس بکنگ کروا رکھی تھی اس لئے زیادہ انتظا ر کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی۔ یہاں پر بھی پانچ پانچ چھ چھ لوگوں کے گروپ بنائے گئے اور کشتی میں سوار ہونے سے پہلے سب کو حفاظتی لائف جیکٹس پہنائی گئیں۔ چونکہ یہاں مچھروں اور دوسرے کیڑوں کے کاٹنے کا ڈر تھا اس لئے ان کو دور بھگانے والا لوشن سب نے پہلے استعمال کر لیا تھا۔

یہاں قدیم درختوں نے بنے غار موجود ہیں۔ کشتی بہت ہی پیچیدہ دریائی ساحل کے ساتھ اور دریا کے بیچ قدیم ترین درختوں سے بنے ہوئے خطرناک غاروں سے ہوتی ہوئی قدیم دلدلی علاقہ سے گزر رہی تھی۔ سیاہ ورختوں اور ان پر بیٹھے ہوئے ہوئے ہم رنگ سانپوں کو دیکھ کر بہت ڈر لگ رہا تھا۔ پانی میں ایک سبز درخت کے اوپر بیٹھا سبز رنگ کا سانپ بہت بھلا معلوم ہوا سب نے اسے خطرناک خوبصورتی کا نام دیا۔ غاروں سے ہوتی ہوئی کشتی جب دریا کے صاف پانی میں آئی تو بہت بھلا لگا اور کچھ ڈر بھی کم ہوا۔ بہت ہی خوبصورت منظر تھا دریا میں بڑے بڑے مچھلی خور پرندے بھی نظر آئے اور ان میں لمبی چونچ والے پرندے جن کو ہم اپنی زبان میں بگلہ کہتے ہیں ان کی بھی بڑی تعداد دریا سے مچھلیاں پکڑتی نظر آئی۔

تقریبا ایک گھنٹے سے زیادہ کی سفاری کے بعد کشتی کنارے لگی اور ہم سب نیچے اترے۔ بائیں جانب مچھلی مساج کا بورڈ لگا تھا، اس کا بھی ٹکٹ بھی ہمارے یہاں کے پیکیج میں شامل تھا۔ یہ لمبائی میں بنا ہوا ایک خوبصورت شیشے کا تالاب تھا جس کے اندر ہزاروں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ تین چار ساتھیوں نے جوتے اتارے اور پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھ گئے۔ فورا ہی سینکڑوں چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پاؤں کے ساتھ چمٹ گئیں۔

پہلے بہت عجیب سا لگا لیکن پھر مساج کا مزا آنے لگاجو کہ زندگی کا ایک منفرد تجربہ تھا۔ دس منٹ کے مساج کے بعد پاؤں باہر نکالے اور ایک جگہ دھو کر جوتے پہن لئے اور واپسی کے لئے تیار ہو گئے۔ گائیڈ بھی ہمارے گروپ کو واپسی کے لئے آوازیں دے رہا تھا۔ اس لئے ہم سب کوچ میں آ بیٹھے۔ لسٹ دیکھ کر اپنی کوچ کے لوگوں کو پورا کیا اور ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔

کہتے ہیں کہ تعلیم سے آدمی سدھر جاتا ہے اس کا عملی اندازہ سری لنکا کی سیر کے دوران ہوا۔ آج ہم نے کولمبو شہر سے جیفری باوا کی جاگیر اور پھر وہاں سے بن طوطہ تک کا سفر کیا۔ کولمبو شہر میں ٹریفک بہت زیادہ ہے اور رش کے اوقات میں سست روی کا شکار ہوتی ہے لیکن کہیں بھی بے ہنگم یا بلاک نظر نہیں آئی۔ ٹریفک کا نظام بہترین ہے اور لوگ بھی قوانین کا احترام کرتے نظر آئے۔ شہر سے باہر اگرچہ سڑکیں سنگل ہیں لیکن بہت اچھی حالت میں نظر آئیں۔

کوچیں۔ بسیں۔ ٹیکسیاں۔ کاریں۔ رکشے اور موٹرسائیکل سب سڑکوں پر رواں دواں نظر آئے لیکن اپنی اپنی جگہ پر۔ ٹریفک پولیس کافی جگہوں پر مستعد دکھائی دی۔ بن طوطہ سے واپسی پر کوچ والا ہمیں ایک دو رویہ سڑک سے لے کر آیا جو کسی طرح بھی ہماری موٹروے سے کم نہیں تھی۔ سری لنکا میں گاڑیاں کافی مہنگی ہیں اس لئے عام آدمی گاڑی افورڈ نہیں کر سکتا پاکستان کے مقابلے میں بھی وہاں گاڑیاں زیادہ مہنگی ہیں کولمبو شہر میں ہمیں زیادہ تر ہائی برڈ گاڑیاں نظر آئیں۔ سکوٹی اور موٹربائیک زیادہ لوگ استعمال کرتے ہیں۔ شہر میں بسیں بھی عام چلتی ہیں۔ بسیں اتنی آرام دہ تو نہیں ہیں لیکن بہت زیادہ لوگ بسوں میں سفر کرتے ہیں۔ ہمیں بھی عام بس میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے علاوہ رکشوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).