ریجیکشن


زندگی اس کی جہنم نہیں تھی مگر سکون بھی نہ تھا۔ ریجیکشن تو جیسے اس کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ ہر کوئی اسے بڑی حیرت سے دیکھتا اور ساتھ ہی اس کی ماں سے بڑے اچھنبے سے سوال کیا جاتا کہ کیا یہ آپ کی بیٹی ہے۔ ؟ سانولے رنگ موٹے نین نقش کی وہ مالک تھی جبکہ اس کی باقی بہنیں اس کی نسبت گوری اور تیکھے نین نقوش کی حامل تھیں۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی کالی رنگت کے سبب پیچھے رہتی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو گھر والوں کی توجہ اس کی نسبت اس کی باقی بہنوں پر زیادہ تھی۔

وہ سب سے چھوٹی تھی مگر تلخ رویئے نے اسے وقت سے پہلے ہی ذہنی طور پر بڑا کر دیا۔ اس کے اندر کی شوخ چنچل لڑکی تو تب ہی مر چکی تھی جب اس کے سامنے اس کی ماں کو کہا جاتا ارے بھئی یہ بچی تو قطعاً آپ کی بیٹی نہیں لگتی۔ بہنیں اسے ہر وقت یہ احساس دلاتی رہتیں کہ وہ ان سے کم خوبصورت ہے۔ جبکہ وہ اسے اپنے ساتھ باہر لے جاتے ہوئے بھی جھجکتی تھیں۔ کیونکہ انھیں اپنی ماں کی طرح یہ جملہ سننے کو ملتا کہ ارے بھئی یہ تو آپ کی بہن ہی نہیں لگتی اسکول میں تھی تو ہم جماعت اسے دوستی کی روادار نہیں تھی کیونکہ وہ خوبصورت نہیں۔

وہ پڑھائی میں نارمل تھی لیکن تلخ رویے اسے پڑھائی میں مزید کمزور کرتے گئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس نے پڑھائی کو خیرباد کہہ دیا اور گھر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنے آپ کو گھر کے کاموں میں مصروف کر لیا۔ وہ سوشل تو پہلے بھی نہ تھی مگراب تو جیسے اس نے اپنے آپ کو گھر میں قید کر لیا تھا۔ اس نے اپنی ذات کو گھر میں قید کر لیا تھا مگر وقت ہر طرح کی قید سے آزاد ہے لہذا وہ بغیر کہیں پڑاؤ ڈالے آگے بڑھ گیا۔ وہ چاروں بہنیں اب جوانی کی دہلیز پر قدم دھر چکی تھیں۔

بڑی بہنوں کی شادیاں بغیرکسی رکاوٹ کے اچھے گھرانوں میں ہو گئیں۔ مگر اس کی شادی تو جیسے نہ حل ہونے والا ایک معمہ بن چکی تھی۔ کئی رشتے والے آئے لیکن جیسے ہی اسے دیکھتے تو دوبارہ پلٹ کر آنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ کسی کو اس کی کالی رنگت پر اعتراض ہوتا تو کسی کوحد سے زیادہ بڑے قد پر اعتراض غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں والا حساب تھا۔ رشتہ دیکھنے کا یہ سلسلہ تو کئی سال تک چلتا رہا۔ مگر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے شادی اس کے نصیب میں نہیں ہے۔

بہنیں اسے پارلر لے جاتیں تو ماں اسے آئے روز کسی نہ کسی آستانے پر لے جاتی کہ شاید اس کا سویا نصیب جاگ جائے اور وہ دن بہ دن اس صورتحال سے پریشان اور نڈھال ہو چکی تھی کیونکہ اب تو اس کی ماں بھی اسے کوسنے دینے سے باز نہ آتی۔ ایک شام رشتے والے آئے اور حسب معمول کھا پی کر رشتے سے انکار کر چلتے بنے۔ ادھر ان کا پاؤ ں گیٹ سے باہر ہوا اور ادھر ماں کا رونا دھونا اور کوسنے شروع ہو گئے۔ کم بخت جب سے پیدا ہوئی ہے میرے لئے درد سر بن گئی ہے معلوم نہیں کب تک میرے سینے پر مونگ دھلے گی۔ اے پروردگا ر یا مجھے اٹھا لے یا پھر اسے موت دے دے۔ ماں کے یہ الفاط اس کے لئے کسی آری سے کم نہ تھے۔ ان الفاطوں نے اس کی روح تک کو چھلنی کر دیا۔ رات کے ناجانے کس پہر اس نے ماں کی خواہش کو پورا کر دیا اور موت کو گلے لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).