اگر تاجر ٹیکس چور ہیں تو سالانہ پانچ ہزار ارب کے ٹیکسز کون دیتا ہے؟


اگر پاکستانی تاجر ٹیکس نہیں دیتے تو سال دوہزار سترہ کو جو پانچ ہزار ارب ٹیکس اکٹھا ہوا وہ کس نے دیا تھا؟ یاد رہے کہ یہی ٹیکس دوہزار بارہ میں صرف ڈھائی ہزار ارب تھا۔ پچھلے چھ سال میں ہر سال ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی رقم میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگر تاجر ٹیکس نہیں دیتا تو یہ رقم کہاں سے آتی رہی؟

مختلف سوشل میڈیا ویب سائیٹس پر لاہور کی مختلف مارکیٹس جیسے لبرٹی، ہال روڈ اور انارکلی کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔ دکانوں کی تعداد اور حاصل ہونے والے چند ہزار روپے ٹیکس کی دہائی دی جا رہی ہے۔ اگر ایک لمحے کے لئے یہ مان لیں کہ شاہ عالمی، ہال روڈ یا لبرٹی ایک دکاندار جس کی سیل مبینہ طور پر پانچ سے پچاس لاکھ روزانہ ہے اور وہ ٹیکس نہیں دیتا۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو مال وہ بیچتا ہے کیا وہ لوکل مینوفیکچرر پروڈیوس کرتا ہے یا امپورٹ کیا جاتا ہے۔

چونکہ جتنی سیل روزانہ کی بنیاد پر کلیم کی جارہی ہے۔ اگر یہ ملکی کارخانوں میں تیار کی جاتی تو بے روزگاری اور معیشت کا یہ عالم تو نا ہوتا۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا مال امپورٹ کیا جاتا ہے۔ اب جو مال امپورٹ کیا جاتا ہے اس پر تو پہلے سے سیل ٹیکس سمیت درجن بھر ٹیکس ایڈوانس وصول کر لئے جاتے ہیں َ۔ اگر ان مارکیٹس میں یہی امپورٹ شدہ مال پانچ سے پچاس لاکھ روپے مالیت کا روزانہ بیچا جاتا ہے تو مطلب روزانہ کی بنیاد پر ایڈوانس میں وصول کیا گیا اربوں روپوں کا ٹیکس یہ دکاندار گاہک سے وصول کر کے امپورٹر کو اداء کرتے ہیں جس نے ایڈوانس میں حکومت کر ادا کر رکھا ہے۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے؟

فرض کر لیتے ہیں کہ تاجر انکم ٹیکس نہیں دیتے۔ جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ فائلر نہیں۔ اگر یہ مفروضہ مان لیا جائے تو سوال یہ بنتا ہے کہ جو پہلے سے فائلر ہیں اور تنخواہ دار نہیں بلکہ صنعت و تجارت سے وابستہ ہیں وہ کتنا انکم ٹیکس دیتے ہیں؟ اس کا جواب ہے ٹھینگا۔ اگر پہلے سے فائلر حضرات بھی انکم ٹیکس نہیں دیتے اور سرکار کی ٹیکس کلیکشن کی بڑی سورس یا تو سیلز ٹیکس ہے یا امپورٹ ڈیوٹیرز تو پھر اتنا شوروغوغا کاھے کو بھائی؟

اصل میں حکومت کسی بھی طرح بنیادی نقطے یا سوال کا جواب نہیں دیتی۔ اُلٹا حقائق کو مسخ کر کے عوام کو بے وقوف بناتی ہے۔ یہ دعوی کہ تاجر ٹیکس نہیں دیتے سراسر بددیانتی اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ پاکستان کا ہر شہری خواہ وہ تاجر ہے یا نہیں ٹیکس دیتا ہے۔ یہ کہنا کہ تاجر انکم ٹیکس نہیں دیتے اس لئے غیر ضروری ہے چونکہ تمام کاروباری افراد اور ادارے عموماً خسارے میں بیلنس شیٹ کلیم کرتے ہیں۔ اخراجات اور آمدن کو تین سے پانچ سال میں مینج کرتے ہیں اور بریک ایون دکھا کر کئی کئی سال خسارہ دکھاتے ہیں۔

یہ کہنا کہ معاملہ نا ٹیکس کا ہے نا انکم ٹیکس کا حکومت بس یہ چاہتی ہے کہ اکانومی ڈاکومنٹ ہو جائے اور تاجر ٹیکس نیٹ جائیں آ جائیں یعنی فائلر بن جائیں۔ یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ جو لوگ پہلے سے فائلر ہیں نا تو وہ انکم ٹیکس دیتے ہیں اور نا ہی ان کے ڈاکومنٹ ہونے سے ٹیکس کے نظام میں کوئی بہتری آئی۔ مثال کے طور پر دوہزار تیرہ میں پاکستان میں مجموعی طور پر ڈھائی ہزار ارب کے لگ بھل ٹیکس اکٹھا کیا گیا جبکہ دوہزار سترہ میں پانچ ہزار کے لگ بھگ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنا ٹیکس زیادہ اکٹھا ہونے کی صورت میں عوام کو انڈائریکٹ ٹیکسز سے نجات ملتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ سارا ٹیکس ہوا ہی ان ڈائریکٹ اکٹھا۔ مطلب حکومت کے پاس ان ڈائریکٹ ٹیکس اکٹھا کرنے کے بڑے راستے ہیں جو غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہیں۔ ایک جانب حکومت ان ڈائریکٹ ٹیکس اکٹھا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے جس سے عوام تنگ اور پریشان ہے۔ دوسری جانب حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ براہ راست ٹیکس یقینی بنانے کے لئے ہر تاجر فائلر بن جائے۔

یعنی ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی شکل میں بھی پریشان ہو اور پھر ڈائریکٹ ٹیکسز کی شکل میں بھی پریشان ہو۔ کیا کوئی تاجروں کو اس سوال کاجواب دے سکتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کریں اور چکی میں ہاتھ کیوں دیں؟ تاجر کو کتنے نفلوں کا ثواب ہے کہ وہ ان ڈائریکٹ اور ایڈوانس ٹیکسز کی شکل میں بھی سالانہ پانچ ہزار ارب جمع کروائے اور ساتھ اپنے آپ کو پیش کر کے ڈائریکٹ ٹیکسز کا بھی کھاتہ کھول لے؟

کیا تاجروں کو ٹیکس چور کہنے والے پڑھے لکھے بابؤں جنہوں نے کبھی سو روپیہ پاکستان میں تجارت کر کے نہیں کمایا۔ کیا ان سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ بہت سی بنیادی ذمہ داریاں جو ریاست کا فرض ہیں وہ یہ تاجر پوری کر رہے ہیں۔ کیا تاجروں کو اس خدمت کا کوئی معاوضہ ملتا ہے؟ کوئی اکنالجمنٹ کوئی شاباشی؟ پاکستان میں وہ ساری مارکیٹس جن کو حکومت ڈاکومنٹ کرنا چاہتی ہے اور جن کے بارے دعوی کرتی ہے کہ یہ روزانہ پانچ سے پچاس لاکھ کا مال بیچنے والے مقامات ہیں۔ کیا حکومت نے کبھی یہ جاننے کی زحمت کی کہ ان مارکیٹس میں کاروبار کس طرح ہوتا ہے۔ لین دین کی گارنٹی کون دیتا ہے۔ چونکہ بنک یا حکومتی پروٹیکشن تو کسی کو یہاں حاصل نہیں سارا نظام تو ان ڈاکومنٹڈ ہے۔

ہم مثال کے طور ہال روڈ لاہور کی بات کرتے ہیں جہاں مبینہ طور پر تیس ہزار دکانیں ہیں اور جہاں سے سالانہ بیس ہزار ٹیکس مبینہ طور پر اکٹھا ہوتا ہے۔ کیا ہم حقائق کو اس حد تک جب توڑ مروڑ کے پیش کرتے ہیں تو ہمارا یہ فرض نہیں کہ یہ بھی بتائیں کہ ہر دکان پر کم سے کم تین لوگ ملازم ہیں۔ یعنی نوے ہزار لوگ اس مارکیٹ سے براہ راست وابستہ ہیں۔ حکومت اس کی ڈویلپمنٹ کے لئے کتنا پیسہ خرچ کرتی ہے؟ لاہور میں نیشنل بنک کی جتنی برانچز ہیں اگر سب کے اخراجات اکٹھے کیے جائیں اور جتنے لوگوں کو نتیجتاً نیشنل بنک میں روزگار حاصل ہے ان کی تعداد کو جمع کیا جائے تو ہال روڈ کی کنٹری بیوشن زیادہ ہے۔

جتنے لوگوں کو ہال روڈ روزگار فراہم ہوتا ہے۔ براہ راست اور بلاواسطہ، جتنے مزدور، ریڑھی بان، نان پکوڑے، بریانی اور چنا چاٹ بیچنے والوں کو ہال روڈ روزگار فراہم کرتا ہے اس کا نیشنل بنک سے کوئی موازنہ نہیں۔ جتنا ٹیکس نیشنل بنک کے ملازمین اپنی تنخؤاہوں سے دیتے ہیں اس کا دس فیصد بھی ہال روڈ کے مسائل حل کرنے پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ ایک طرف حکومت دعوی کرتی ہے کہ تاجر ٹیکس چور ہے مگر دوسری طرف اس حقیقت سے صرف نظر کرتی ہے کہ تاجر اپنے مسائل خود حل کرتے ہیں اور کسی بھی ان فارمل مارکیٹ میں بنیادی نوعیت کی سہولتیں بھی میسر نہیں۔

بجلی کی ترسیل کا نظام، تاروں کے گچھے، ٹوٹی گلیاں اور سڑکیں، پارکنگ کے مسائل، سیوریج کے مسائل، پینے کا پانی تک یہاں میسر نہیں۔ جن مارکیٹس کو حکومت کچھ دیتی ہی نہیں ان پر کون سی چوری کا الزام لگاتی ہے؟ جبکہ یہ الزام اس لئے بھی مضحکہ خیز ہے کہ یہاں بکنے والی چیزیں ساری امپورٹڈ ہیں جن پر درجن سے زیادہ ٹیکسز ایڈوانس میں ادا کر جاتے ہیں۔ اگر یہ مارکیٹس بند ہو جائیں تو حکومت کو اربوں روپے صرف ٹیکس کی مد میں نقصان ہو گا۔ ایک طرف حکومت کہتی ہے یہ ٹیکس نہیں دیتے دوسری طرف ٹیکس کی ساری کلیکشن میں ان کا بہت بڑا اور کلیدی حصہ ہے کیونکہ کاٹیج انڈسٹری اور امپورٹڈ اشیاء کو انہی مارکیٹس کے ذریعے بیچا جاتا ہے۔

بہتر ہو گا اگر حکومت ٹیکس، انکم ٹیکس، فائلز نان فائلر کے فرق کو وضاحت سے بیان کرے اور تاجروں کے خلاف اپنے مقدمے کو دلیل اور حقیقت کی روشنی میں پیش کرئے۔ حکومت اپنا پلان شئیر کرئے کہ ان مارکیٹس کے حوالے سے اس کا ویژن کیا ہے۔ یہاں کے مسائل کو وہ کیسے حل کرے گی اور ہر مارکیٹس سے اگر تاجر رجسٹر ہوتے ہیں تو اس کے جواب میں ان کے کون سے مسئلے حل کیے جائیں گے۔ اعداد و شمار کو ٹوئسٹ کرنے اور سلیکٹو حقائق کو خاص زاویوں سے پیش کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بند ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).