وہ بہت اچھی طوائف تھی


آہستہ آہستہ پاکستان میں بھی حالات صحیح ہونے لگے۔ نئی حکومت نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی تھیں۔ پرانے سیاست دان یا تو ملک سے باہر تھے یا پھر حکومت کے ساتھ مل گئے۔ اب مجھے پتا تھا کہ وقت آنے والا ہے جب حکومت کو ہمارے جیسے بیچ کے لوگوں کی ضرورت ہوگی۔ آخر حکومت تو چلانی ہے، کام تو کرنا ہے، کام تھوڑی رکتا ہے۔ پریکٹس تھوڑی بدلتی ہے، لوگ بدل جاتے ہیں، چہرے بدل جاتے ہیں۔ پچاس سالوں سے یہی ہورہا ہے۔ مجھے تھوڑا دکھ سا بھی ہوا کہ اب بنکاک چھوڑنا ہو گا۔

میں نے سوچا تھا کہ بنکاک میں بھی ایک مستقل آفس بنا دوں، ماریا سمجھ دار ہے، یہاں کام سنبھال لے گی۔ اس کو اس کے پیسے ملتے رہیں گے اور میں مستقل عیاشی کا کاروبار بھی چلا دوں گا۔ اپن کا یہ اسٹائل تھا ہمیشہ، نئی چیزیں کرنے کا نئے طریقے سے۔ جدھر کچھ ہزاروں کا آسرا ہو فوراً ہاتھ ڈال دو فوراً۔ اوپر والے کی مہربانی سے کبھی نقصان نہیں ہوا۔ ایک کا دو بنا اور دو کا ہزار۔ اپنے بزنس میں یہی تو خاص بات تھی۔

ایک دن اسے میں نے بتایا کہ میں اب چلا جاؤں گا اور میں چاہتا ہوں کہ وہ یہاں کے اپارٹمنٹ میں رہے، میرا مستقل تعلق رہے گا۔ وہ میری ہی رہے گی مگراس کا کام پاکستان سے آنے والے مہمانوں کی دل داری کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس کی سمجھ میں بات آگئی تھی۔ مجھے بھی پتا تھا کہ اب نئی حکومت کے نئے لوگ ہوں گے، نئے سیاست دان، نئے افسر، نئے فوجی، نئے ٹھیکے، نئے چکر اور ان سب چکروں میں باہر کی عیاشی کرانے والا ہمیشہ ہی جیت جاتا ہے۔ میں نے مستقبل کا انتظام کرلیا تھا مستقل بنیادوں پہ۔

آنے سے پہلے کی شام ہم دونوں ایک ریسٹورنٹ جارہے تھے کہ اس نے بتایا کہ اسے تھوڑی دیر کے لیے اپنی ماں سے ملنا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ میں انتظار کروں وہ مل کر آتی ہے۔

میں نے کہا کہ ہم ساتھ ہی چلتے ہیں، میں گاڑی میں بیٹھا رہوں گا۔ میں اسے زیادہ دیر کے لیے نہیں جانے دینا چاہ رہا تھا۔ نہ ہی میں یہ چاہتا تھا کہ اب جانے سے قبل اس سے علیحدہ رہوں۔ انسانی تعلقات کا بھی عجیب ہی حساب ہوتا ہے۔ خاص طور پر عورت اور مرد کے تعلقات توسمجھ سے ہی باہر ہیں۔ کون کیا ہے، کہاں ہے، کس درجے پر ہے، یہ تمام چیزیں وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔

وہ بنکاک کے ہی ایک اور علاقے میں رہتی تھی، شہر کے ہی اندر۔ خوب صورت سا مکان تھا۔ میں گاڑی میں ہی بیٹھا رہا، وہ اندر چلی گئی۔ میں سوچتا رہا کہ اب کیا کرنا ہے۔ واپس جاکر کون سے کاموں میں کب ہاتھ ڈالنا ہے۔ نئی حکومت کے لوگوں نے نئے نئے پروجیکٹ سوچ لیے تھے۔ ہر پروجیکٹ میں مجھے ڈالر نظر آرہے تھے۔ میں دل ہی دل میں ہنس رہا تھا۔ نظام نہیں بدلتا، لوگ بدل جاتے ہیں۔ نام بدل جاتے ہیں کام تو وہی ہوتا ہے جوشروع سے ہورہا ہے۔ شاید یہی ہوتا رہے گا۔ جوملک میں چلنے کے قابل نہیں ہے وہ ملک چھوڑجائیں گے۔ یہ بھی اچھا ہے۔ سالے نہ خود کچھ کرتے ہیں نہ ہم جیسے لوگوں کے کچھ کرنے دیتے ہیں۔ ایمان داری، شرافت اور اصول کے ڈھکوسلوں سے زندگی گزرتی ہے، زندگی کا مزہ نہیں لیا جاسکتا۔ یہ اصول جتنی جلدی سمجھ میں آجائے اتنا ہی اچھا ہے۔

یکایک میں اپنے خیالوں سے چونک گیا، جب مجھے اس کی آواز آئی ”خدا حافظ! “ میں نے دیکھا وہ گھر کے دروازے پر اپنی ہی جیسی شکل والی عورت جس کے گود میں ایک چھوٹی بچی تھی، سے گلے مل کر سیڑھی اتر رہی تھی۔ ”پرسوں آجاؤں گی۔ “ اس نے بچی کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی تھی۔

”تم اردو جانتی ہو۔ “ میں نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں۔ “ اس نے معصومیت سے جواب دیا تھا۔
”مجھے بتایا کیوں نہیں۔ “

”کیوں کہ ضرورت ہی نہیں پڑی۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ جو تم نے سوچا ہو وہ میں نے سمجھا نہیں۔ “ اس نے مسکراتے ہوئے میرے گالوں کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔ اس پیشے میں کسی قسم کی نسل پرستی، لسانی جانب داری نہیں ہے، مذہبی تعصب نہیں ہے۔ طوائف تو طوائف ہی ہوتی ہے اور گاہک توگاہک ہی ہوتا ہے۔ طوائف کو پیسہ چاہیے ہوتا ہے اور گاہک کو وقت کا مناسب استعمال۔ دونوں اپنا مذہب، رنگ، زبان، نسل، سیاست، گھر چھوڑ کر آتے ہیں۔

میں خاموش سا ہوگیا۔ مجھے نہیں خیال تھا کہ ایک طوائف مجھے فلسفہ بھی پڑھائے گی۔ مجھے تھوڑی سی بے چینی سی ہوئی تھی۔ میں نے رک کر پوچھا، ”مگر تم نے اردو کہاں سے سیکھی، گاہکوں سے؟ “

”نہیں اپنی ماں سے، اور اب اس کا فائدہ بھی ہوگا۔ تمہارے لوگ جو پاکستان سے آئیں گے، ان سے اگر چاہو گے تو اردو میں بھی بات کرلوں گی اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔ اچھی سروس دوں گی، زوردار۔ خوب مزہ آئے گا۔ “ وہ زورسے ہنسی۔

رات کی ٹریفک میں اس کے چہرے پر پڑنے والی مختلف رنگوں کی روشنی نے اس کے چہرے کو مزید سیکسی بنادیا تھا۔ میں نے اس کے کاندھوں کودھیرے دھیرے سہلاتے ہوئے پھر پوچھا کہ تمہاری ماں کو کس نے اردو سکھائی؟ کیا وہ بھی دھندا کرتی تھی اور پاکستانی گاہکوں سے زبان سیکھ گئی؟ ”

”نہیں، دھندا تو وہ کرتی تھی پر اردو اسے پہلے سے آتی تھی۔ بات یہ ہے کہ جب بنگلہ دیش بنا تو وہ سولہ سترہ سال کی تھی۔ میری ہی طرح خوب صورت رہی ہوگی۔ وہ مجھے اکثر بتاتی رہی ہے کہ جب فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے تو اسے بنگلہ دیش کے فوجیوں نے اغوا کرلیا تھا۔ مکتی باہنی والوں نے۔ بہاری عورتیں تو بہت اغوا ہوئی تھیں اس وقت۔ وہ بھی ان میں تھی۔ ماں باپ بھائی بہن کچھ پتا نہیں لگا کون مرا، کون جیا، کون کہاں پہنچا؟

اسے وہ لوگ کلکتہ لے آئے تھے۔ کلکتہ میں ہی اسے تین دفعہ مختلف لوگوں کے ہاتھوں بیچا گیا۔ کلکتہ میں ہی اس سے ایک تھائی بندے نے شادی کی اور اپنے ساتھ بنکاک لے آیا تھا۔ میں پیدا ہوئی تھی پھر وہ آدمی بھی چھوڑگیا۔ ماں کو تو دھندا کرنا ہی پڑا۔ زندہ تو رہنا پڑتا ہے۔ ہر کوئی تو خودکشی نہیں کرسکتا ہے۔ ”اس نے بڑی غمگین مسکراہٹ اور چمکتی ہوئی آنکھوں سے جواب دیا تھا۔

میں پہلی دفعہ ساکت سا ہوگیا۔ اپن کوجیسے جھٹکا لگ گیا، بجلی کا جھٹکا اوپر سے نیچے تک۔ اس کی خوشبو بھی جیسے کچھ بری سی لگنے لگی۔ اپنے ہاتھ اس کی گردن کے پیچھے سے نکالتے ہوئے میں نے پوچھا۔ ”تو تم بہاری ہو؟ بہاری، ڈھاکہ کی بہاری؟ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی بہاری بھی طوائف ہوگی۔ بہاری رنڈی، بہاری طوائف! “

اپن کو پتا نہیں کیا ہوا کہ یہ الفاظ خود بخود اپن کے منہ سے نکل گئے تھے۔
”نہیں، پاکستان کی رنڈی، پاکستانی طوائف، ڈھاکہ کی۔ “
اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سرگوشی کی اور کھلے ہوئے گریبان میں منہ ڈال کر زور سے ہنس دی۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4